والد گرامی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی حیات و خدمات کے مختلف پہلوؤں پر ’’الشریعہ‘‘ کی خصوصی اشاعت (جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء) میں بہت سے احباب و حضرات نے اپنے جذبات و تاثرات کے ساتھ ساتھ حضرت مرحوم کے احوال و آثار کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ ان کے افادات خود ان کے قلم سے پچاس کے لگ بھگ کتابوں میں محفوظ ہیں جن سے پورے عالم اسلام میں استفادہ کیا جا رہا ہے۔ بہت سے خطبات جمعہ مولانا قاری گلزار احمد قاسمی نے کتابی شکل میں مرتب کر کے پیش کیے ہیں۔ دروس قرآن کریم ’’ذخیرۃ الجنان کے نام سے محترم حاجی میر لقمان اللہ کی طرف سے مسلسل شائع ہو رہے ہیں۔ علماء و طلبہ کے لیے دورۂ تفسیر کے افادات کو برادر عزیز مولانا عبد القدوس خان قارن سلمہ مرتب کر رہے ہیں۔ جبکہ ملک کی عصری جامعات میں بھی حضرتؒ کی علمی و تحقیقی خدمات کے مختلف پہلوؤں پر تحقیقی مقالہ جات لکھے گئے ہیں اور مسلسل لکھے جا رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ہی مجھے ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ میں ’’مولانا سرفراز خان صفدر کی علمی و تفسیری خدمات کا علمی و تحقیقی جائزہ‘‘ کے زیر عنوان ایم فل کی سطح کا ایک زیرترتیب مقالہ دیکھنے کا موقع ملا، اسی طرح گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں ’’اصلاح معاشرہ میں مولانا سرفراز خان صفدر کا اسلوب: ذخیرۃ الجنان کی روشنی میں تحقیقی مقالہ‘‘ کے عنوان سے ایم فل کا مقالہ لکھا جا رہا ہے۔ جبکہ گفٹ یونیورسٹی سے ہی الشریعہ اکادمی کے فاضل رفیق حافظ محمد رشید (پی ایچ ڈی اسکالر شیخ زاید اسلامک سنٹر جامعہ پنجاب) ’’مولانا سرفراز خان صفدر کی تصانیف میں اصول فقہ کے مباحث‘‘ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ایم فل کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں۔
مگر اس سب کچھ کے باوجود بہت سی باتوں کا خلا ابھی تک شدت کے ساتھ محسوس ہو رہا ہے، مثلاً حضرتؒ کے علمی افادات ان کی تصانیف سے ہٹ کر ان کے خطوط اور متفرق مضامین میں بکھرے پڑے ہیں جنہیں مرتب و مدون کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی تصانیف میں متعلقہ مسائل کی وضاحت اور اہل حق کی ترجمانی کے علاوہ مختلف علوم و فنون کا بہت سا متفرق مواد موجود ہے جسے اگر مرتب کر کے پیش کیا جائے تو علماء کرام اور طلبہ کے لیے ایک بیش بہا ذخیرہ ہوگا۔ ان کی تحریکی، جماعتی اور سیاسی خدمات پر مستقل کام کی ضرورت ہے کیونکہ انہوں نے طالب علمی کے دور سے لے کر آخری علالت کے زمانے تک بھرپور جماعتی زندگی گزاری ہے اور مختلف دینی و سیاسی تحریکات میں سرگرم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے بیرونی اسفار اور ان کے دوران خصوصی و عمومی اجتماعات سے خطابات ان کی زندگی کا ایک مستقل باب ہیں جنہیں جمع و ترتیب کے ساتھ سامنے لانا ہم سب پر نئی نسل کا قرض ہے۔ ان کا معاشرتی طرز عمل اور عام لوگوں کے ساتھ میل جول کا رویہ آج کے دور میں، جبکہ معاشرتی اخلاقیات ہمارے ماحول میں ایک مستقل سوالیہ نشان بن چکی ہیں، یقیناً نئی نسل کے لیے مشعل راہ ہوگا اور اسے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح حضرتؒ کی خودنوشت ان کے قلم سے چھپ چکی ہے مگر اس کی بنیاد پر مستقل اور مبسوط سوانح حیات مرتب کرنا اور اسے محفوظ کرنا خود تاریخ کا حق بنتا ہے۔ ان کی تدریسی خدمات اور خصوصیات و امتیازات پر الگ سے کام ضروری ہے، اس پر اگرچہ بعض دوستوں نے لکھا ہے مگر وہ اجمالی ہے جبکہ اصل ضرورت ان کے تدریسی انداز اور امتیاز کو تفصیل کے ساتھ اجاگر کرنے کی ہے۔ ان کی عوامی خطابت و بیانات کے انداز اور لب و لہجہ کو اجاگر کرنے اور اسے اسوہ بنانے کی ضرورت آج کے دور میں سب سے زیادہ ہے جس کا رجحان روز بروز کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ انہوں نے اختلافی مسائل میں بحث و مباحثہ کے ایک نئے اسلوب کا آغاز کیا جس کا اعتراف ان کے مخالفین نے بھی کیا ہے، اس اسلوب میں اعتدال و توازن کے ساتھ دیانت، شائستگی اور ادبی چاشنی کا رنگ نمایاں ہے مگر یہ اسلوب عمومی طور پر انہی کے ساتھ مخصوص ہو کر رہ گیا ہے جبکہ اسے عام کرنے اور نئی نسل کو اس کی بطور خاص تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ حضرت کی تصانیف میں سلاست، ادبی ذوق، شعر کا صحیح فہم و استعمال اور بے تکلفانہ اظہار خیال کو ہی موضوع بحث بنا لیا جائے تو ایک اچھا خاصا مقالہ تحریر کیا جا سکتا ہے، وغیر ذٰلک۔
ان سب پہلوؤں پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور بعض حوالوں سے کسی حد تک کام میں پیشرفت دکھائی دینے کے باوجود رفتار کار کافی سست ہے۔ چنانچہ برادرم مولانا عبد القدوس خان قارن ’’دورہ تفسیر‘‘ کے دروس کی ترتیب و تدوین اور تخریج کا جو کام کر رہے ہیں وہ یقیناً بہت زیادہ اہمیت و افادیت کا حامل ہے اور اس کا ملک بھر میں شدت کے ساتھ انتظار ہے۔ میں بھی وقتاً فوقتاً انہیں یاد دلاتا رہتا ہوں مگر ان کی مصروفیات و علالت اس کام میں حائل ہیں۔ اللہ تعالٰی انہیں صحت کاملہ و عاجلہ سے نوازیں اور اس وقیع علمی کام کی جلد تکمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
اسی طرح مولانا حافظ محمد یوسف نے حضرتؒ کی سوانح حیات مرتب کرنے کی ذمہ داری لی تھی اور بہت سا کام وہ کر بھی چکے ہیں لیکن ابھی تکمیل تک نہیں پہنچ رہی۔ میری خواہش ہے کہ وہ خود اور ان کے ساتھ حضرت رحمہ اللہ کے تلامذہ میں سے کوئی باذوق ساتھی مل کر اس کام کو جلد از جلد مکمل کر لیں۔ اس تناظر میں عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ اور برادرم شبیر احمد خان میواتی نے ہمت سے کام لیا ہے کہ ’’افادات امام اہل سنت‘‘ (حصہ اول) کے عنوان سے ماہنامہ الشریعہ کی خصوصی اشاعت دسمبر ۲۰۱۴ء کی صورت میں اصول حدیث سے متعلق حضرتؒ کی تصانیف میں منتشر مباحث کو یکجا کر دینے کے ساتھ حضرت کے متفرق مضامین، خطبات اور خطوط کا ایک معتدبہ ذخیرہ خاصی محنت کر کے جمع کیا ہے جسے مرتب انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مگر میرا خیال ہے کہ یہ ابتدائی محنت ہے، اگر پوری طرح منظم کوشش کی جائے تو میرے اندازے کے مطابق کم از کم اتنا ہی ذخیرہ اور جمع کیا جا سکتا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ فاضل مرتبین کچھ عرصہ کے بعد اسی نوعیت کی ایک اور خصوصی اشاعت پیش کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
مجھے اس بات کا احساس ہے کہ جن کاموں کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں سے کچھ کام خود مجھے کرنے چاہئیں اور جی بھی بہت چاہتا ہے لیکن مصروفیات کا عالم یہ ہے کہ بہت سے دیگر انتہائی ضروری کام بھی رہ جاتے ہیں۔ تدریسی مصروفیات کے علاوہ مختلف رسائل و اخبارات کے لیے مضامین لکھنا بھی معمولات کا حصہ بن گیا ہے اور ملک بھر کے اسفار ایک مستقل مسئلہ ہیں۔ میری بہت کوشش رہتی ہے حتٰی کہ بعض مضامین میں احباب سے گزارش کر کے بھی ان اسفار کو محدود کرنا چاہا ہے لیکن اس میں کامیابی نہیں ہو رہی اور صورتحال یہ ہے کہ میں تو اسفار کو کم کرنا چاہتا ہوں مگر اسفار کا ’’کمبل‘‘ مجھے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہجری اعتبار سے میں عمر کے اڑسٹھ سال پورے کر چکا ہوں اور اس مرحلہ میں جو امراض و عوارض ہوا کرتے ہیں ڈاکٹر صاحبان ان سب کی موجودگی سے مجھے ڈراتے رہتے ہیں مگر اس سب کچھ کے باوجود مجھے یہ احساس ستاتا رہتا ہے کہ اس سلسلہ میں مجھے جو کچھ کرنا چاہیے تھا وہ مجھ سے نہیں ہو رہا۔ اس کی ایک مثال عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت والد محترمؒ نے علالت کے ایام میں ایک دن میرا ہاتھ پکڑ کر مجھ سے وعدہ لیا کہ تصوف کے موضوع پر میں نے کچھ نہیں ٔکھا، اس پر اب تمہیں لکھنا ہے۔ میں نے بہت عذر کیا کہ یہ میرا مطالعہ کا موضوع نہیں ہے لیکن انہوں نے وعدہ لے ہی لیا۔ حضرتؒ کے وصال کے بعد میں نے چند دوستوں سے ذکر کیا کہ باقاعدہ تصنیف و تالیف کا کام میرے ذوق کا حصہ نہیں بن سکا، میں تو اپنی بات ایک دو کالموں یا بیانات میں نمٹانے کا عادی ہوگیا ہوں، اس پر کراچی کے فاضل دوست ڈاکٹر سید عزیر الرحمان صاحب نے مشورہ دیا کہ تصوف کے مختلف موضوعات پر محاضرات کا اہتمام کر لیں، جو بیانات ہوں انہیں قلمبند کر لیا جائے اور بعد میں ضروری کانٹ چھانٹ کر کے انہیں کتابی شکل دے دی جائے۔ چنانچہ ان کی اس تجویز پر گزشتہ سال اس موضوع پر الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں فکری نشستوں کا انعقاد کیا گیا اور آٹھ نو محاضرات ہوئے جو قلمبند کر کے ڈاکٹر صاحب موصوف کو یہ کہہ کر بھجوا دیے ہیں کہ ’’سپردم بہ تو مایۂ خویش را، تو دانی حساب کم و بیش را‘‘ میں تو اب یہی کچھ کر سکتا ہوں۔ البتہ اگر حضرت والد گرامیؒ کے باذوق اور باصلاحیت تلامذہ میں سے کچھ دوست ان کاموں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ان میں سے کسی موضوع پر کام کرنا چاہیں تو راہنمائی اور معاونت کے لیے ہمہ وقت تیار ہوں بلکہ میری خواہش ہے کہ کچھ باہمت اور باذوق نوجوان علماء کرام اس کام کے لیے آگے بڑھیں اور اس قرض کی ادائی میں ہمارا ہاتھ بٹائیں جو ہم سب پر واجب ہے۔