(شیفیلڈ، برطانیہ میں مدنی ٹرسٹ نوٹنگھم کے زیر اہتمام جامعہ الہدیٰ کی افتتاحی تقریب سے خطاب)
برادر محترم مولانا رضاء الحق سیاکھوی اور ان کے رفقا کا شکر گزار ہوں کہ جامعہ الہدیٰ شیفیلڈ کے افتتاح کے موقع پر اس تقریب میں آپ حضرات کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کا موقع فراہم کیا اور اس نئے تعلیمی ادارے کے آغاز پر مدنی ٹرسٹ کے تمام دوستوں کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت اس ادارہ کو پورے خطے میں دین کی سربلندی اور علم کے فروغ کا ذریعہ بنائیں۔ آمین یارب العالمین۔
ہم ایک دینی درس گاہ کے افتتاح کی تقریب میں جمع ہیں اور دینی مدارس کے حوالے سے اس وقت یہ صورت حال ہمارے سامنے ہے کہ ایک طرف دینی مدارس کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور نئی دینی درس گاہیں قائم ہو رہی ہیں اور دوسری طرف دینی مدارس کی مخالفت عالمی سطح پر بڑھتی جا رہی ہے۔ اس مدرسہ کو انسان کی تہذیبی پیش رفت میں رکاوٹ قرار دیا جا رہا ہے، سولائزیشن کا دشمن بتایا جا رہا ہے اور بلند آہنگی کے ساتھ یہ پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ یہ مدرسہ تہذیب وتمدن کے لیے خطرہ ہے، سولائزیشن اور نسل انسانی کی ثقافتی پیش رفت کے لیے خطرہ ہے اور موجودہ عالمی سسٹم کے لیے خطرہ ہے، اس لیے اسے ختم کیا جائے یا کم از کم اس کے جداگانہ تشخص، کردار، آزادی اور خود مختاری کو محدود کر دیا جائے۔ میں اس پس منظر میں آج کی اس محفل میں صرف ایک پہلو پر مختصراً کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ وہ لوگ جو اس مدرسہ کی مخالفت میں پیش پیش ہیں اور اسے بند کرنے کے درپے ہیں، ان سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر تم انصاف کی نظر سے دیکھو تو یہ مدرسہ خود تمہاری ضرورت بھی ہے اور پوری نسل انسانی کو اس کی ضرورت ہے۔ میری اس گزارش کے مخاطب وہ تمام لوگ ہیں جو اس دینی مدرسہ کے مخالف ہیں اور خاص طور پر ویسٹرن سولائزیشن کے علم برداروں اور مغربی تہذیب وثقافت کی نمائندگی کرنے والے دانش وروں سے عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ یہ دینی درس گاہ تمہاری ضرورت بھی ہے، جو کچھ یہ مدرسہ پڑھا رہا ہے اور جن علوم کو یہ تاریخ کی دست برد سے محفوظ رکھے ہوئے ہے، اس کی مستقبل میں تمہیں بھی ضرورت پڑ سکتی ہے بلکہ ضرورت پڑے گی اس لیے تم اس کی ضرورت سے بے نیاز نہیں رہ سکتے۔
تم نے اب سے دو تین سو برس قبل یورپ میں اہل مذہب کے ظالمانہ کردار سے تنگ آکر اس کے رد عمل میں مذہب کا طوق گردن سے اتار دیا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ اب سے تین صدیاں قبل یورپ میں اہل مذہب کا کردار کیا تھا اور کس طرح انہوں نے پورے معاشرے کو اپنے ظالمانہ کردار کے شکنجے میں کسا ہوا تھا اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اسی کے رد عمل میں تم نے مذہب سے پیچھا چھڑانے کا راستہ اختیار کیا تھا۔ تم اہل مذہب کی مخالفت میں خود مذہب کے خلاف انتہا پر چلے گئے اور تم نے کہا کہ اب انسانی سوسائٹی بالغ ہو گئی ہے اور اپنے فیصلے خود کر سکتی ہے، اس لیے انسان کو باہر سے ڈکٹیشن لینے کی ضرورت نہیں ہے اور آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی پابندی کا دور گزر گیا ہے اس لیے اب ہم اپنے معاملات خود طے کریں گے، انسانی سوسائٹی اپنے فیصلے خود کرے گی اور کسی بیرونی ہدایت کے بغیر اپنا نظام خود چلائے گی۔ تم نے اس فلسفے پر ایک نیا نظام تشکیل دیا، ایک نیا کلچر پیش کیا اور پھر اسے پوری دنیا پر مسلط کرنے کے لیے ہر طرف چڑھ دوڑے۔
لیکن تین صدیوں کے بعد آج تمہاری اس تگ ودو کے نتائج سامنے آ رہے ہیں تو تم خود پریشانی کا شکار ہو گئے ہو، آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی راہ نمائی سے بے نیاز ہو کر آج انسانی سوسائٹی فکری انتشار، تہذیبی انارکی اور افراتفری کی انتہا کو پہنچ گئی ہے اور تمہاری دانش گاہیں خود اس مقام سے واپسی کی راہیں ڈھونڈ رہی ہیں۔ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم جان میجر نے اس نعرہ پر باقاعدہ مہم چلائی کہ ’’Back to Basics‘‘ (بنیادوں کی طرف واپسی) کی ضرورت ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے لیے بنیاد پرستی کو طعنہ بنا دیا گیا ہے اور اہل مغرب خود بنیادوں کی طرف واپسی کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس نے بی بی سی پر کئی لیکچر دیے اور کہا کہ ہم نے صرف عقل کو معیار قرار دے کر ٹھوکر کھائی ہے اور ہم نسل انسانی کو نقصان کی طرف لے جا رہے ہیں اس لیے ’’وجدان‘‘ کی طرف واپسی کی ضرورت ہے۔ برطانوی شہزادے نے ’’وجدان‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے جو ابتدائی مرحلہ ہے۔ اس کے بعد وحی اور الہام ہی کی بات آئے گی۔ جبکہ ممتاز روسی لیڈر اور دانش ور گوربا چوف نے کھلے بندوں اعتراف کیا کہ ہم نے عالمی جنگ کے بعد دفتروں اور کارخانوں میں افرادی قوت کے خلا کو پر کرنے کے لیے عورت کو بہکا کر گھر سے نکالا جس سے ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہو گیا ہے اور اب ہمیں عورت کو دوبارہ گھر میں لے جانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔
ان باتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مغرب کے دانش وروں کی سوچ کا رخ کیا ہے اور وہ موجودہ صورت حال سے کس قدر پریشان ہیں۔ اب یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی رہنمائی سے پیچھا چھڑا کر نسل انسانی نے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا بلکہ نقصان سے دوچار ہوئی ہے اور انسانی سوسائٹی کو اس نئے فلسفے اور کلچر نے اخلاقی انارکی اور ذہنی خلفشار کے سوا کچھ نہیں دیا چنانچہ مغرب کی دانش گاہوں میں اس بات پر غور شروع ہو چکا ہے کہ یہاں سے واپسی کا راستہ کیا ہے اور انسانی سوسائٹی کو اس دلدل سے کیسے نکالا جا سکتا ہے۔
مغرب کے اہل دانش سے میرا سوال ہے کہ جس ’’وجدان‘‘ اور ’’بنیادوں‘‘ کی طرف واپسی کی تم بات کر رہے ہو، اگر تم نے اس کا فیصلہ کر لیا اور تمہارے پاس اب اس فیصلے کے سوا کوئی اور ’’چوائس‘‘ باقی بھی نہیں رہا تو یہ بنیادیں تمہیں ملیں گی کہاں سے؟ اور عقل انسانی کے لیے بیرونی راہ نمائی یا دوسرے لفظوں میں وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کا یہ سودا تم آخر کس دکان سے حاصل کر سکو گے؟ یہ ’’جنس‘‘ آج مسلمانوں کے سوا کسی کے پاس نہیں ہے اور نہ کسی اور مذہب کے ماننے والوں کے پاس آسمانی تعلیمات کا کوئی قابل اعتماد ذخیرہ موجود ہے۔ یہ سعادت صرف مسلمانوں کو حاصل ہے کہ ان کے پاس نہ صرف قرآن کریم اصلی حالت میں محفوظ وموجود ہے بلکہ قرآن کریم کی تشریحات وتعبیرات میں حضرت محمد رسول اللہ ا کی تعلیمات بھی تمام تر جزئیات وتفصیلات کے ساتھ موجود ہیں اور نسل انسانی نے جب کبھی آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی کا فیصلہ کیا، اسے یہ چیز صرف اور صرف مسلمانوں کے ہاں سے ہی ملے گی اور دنیا کا کوئی مذہب انسانی سوسائٹی کی اس ضرورت کو پورا نہیں کر سکے گا۔
یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے آخری کتاب قرآن کریم اور آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ ا کے ارشادات وتعلیمات کی حفاظت کا ایسا فول پروف انتظام کر رکھا ہے کہ ان میں کسی اور چیز کی در اندازی کا کوئی امکان باقی نہیں رہا اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی تکوینی حکمت ہے کہ لاکھوں سینوں میں قرآن کریم کے محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کے سب سے پہلے لکھوائے جانے والے نسخے بھی ابھی تک موجود ومحفوظ ہیں جو امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان کے دور میں تحریر کیے گئے ہیں۔ اس لیے آج صرف اور صرف مسلمان اس دعویٰ کی پوزیشن میں ہیں کہ ان کے پاس آسمانی تعلیمات محفوظ حالت میں موجود ہیں اور نسل انسانی کو جب بھی آسمانی تعلیمات کی ضرورت محسوس ہوئی، وہ اصلی حالت میں اسے مسلمانوں کے پاس مل جائیں گی۔
میں مغرب کے اہل دانش سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ سمجھ دار لوگ ہیں اور سمجھ دار لوگوں کی ایک علامت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ وہ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی متبادل ضرور ذہن میں رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی مغرب کے دانش وروں کو سوچنا چاہیے کہ جس راستے پر انہوں نے نسل انسانی کو تین سو برس قبل چلانا شروع کیا تھا، اس کی ناکامی کی صورت میں ان کے پاس اس کا متبادل کیا ہے؟ اور انہوں نے اس کے بارے میں کیا سوچ رکھا ہے؟
آج سچی بات یہ ہے کہ مغرب کا فلسفہ ناکام ہو چکا ہے، مغرب کے کلچر نے انسانی سوسائٹی کو اخلاقی انارکی اور ذہنی خلفشار سے دوچار کر دیا ہے، انسانی قدریں برباد ہو گئی ہیں، خاندانی نظام جو انسانی سوسائٹی کا بنیادی یونٹ ہے، بکھر کر رہ گیا ہے اور خود مغرب کے دانش وروں نے وجدان، بنیادوں اور ماضی کی طرف واپس جانے کے لیے سوچنا شروع کر دیا ہے اس لیے میں ان سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ دینی مدرسہ جس کو وہ ختم کرنے کے درپے ہیں، انہی وجدانیات، بنیادوں اور ماضی کے اخلاقی اقدار کی تعلیم دے رہا ہے جن کی ضرورت کا احساس خود ان کے ذہنوں میں اجاگر ہونا شروع ہو گیا ہے۔ یہ مدرسہ ان اقدار وتعلیمات کو نہ صرف محفوظ رکھے ہوئے ہے بلکہ اسے نئی نسل کے سپرد کرنے کے لیے تعلیم وتربیت کے محاذ پر سرگرم عمل بھی ہے اور اس حوالے سے یہ مدرسہ ان لوگوں کی بھی ضرورت ہے جو اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور کل جب انہیں کہیں اور پناہ نہیں ملے گی، یہی مدرسہ ان کی راہ نمائی اور نجات کے لیے کردار ادا کرے گا۔
باقی رہی بات اس مدرسہ کو ختم کرنے کی تو میں اس موقع پر اہل مغرب سے اختصار کے ساتھ یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تم بار بار اس بات کا تجربہ کر چکے ہو کہ یہ تمہارے بس کی بات نہیں اس لیے اس کام میں اپنا وقت ضائع نہ کرو۔ تم نے ۱۸۵۷ء کے بعد جنوبی ایشیا میں اس درس گاہ کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا تھا لیکن جبر وتشدد کے تمام تر مراحل کے باوجود جنوبی ایشیا میں یہ درس گاہ نہ صرف زندہ ہے بلکہ پہلے سے زیادہ متحرک اور موثر کردار ادا کر رہی ہے۔ تم نے ترکی میں اس مدرسہ کو اپنی طرف سے مکمل طور پر ختم کر دیا تھا اور اس کو دوبارہ ابھرنے سے روکنے کے لیے پون صدی سے جبر کا ہر حربہ آزما رہے ہو لیکن یہ مدرسہ ترکی میں بھی زندہ ہے اور اگر تم اس کی زندگی کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہو تو ترکی میں فوج کے جبر سے ہٹ کر ایک الیکشن کرا کے دیکھ لو، تمہیں اس مدرسے کی کارکردگی کا گراف معلوم ہو جائے گا۔ تم نے وسطی ایشیا میں اس مدرسہ کو بند کرنے کے لیے جبر اور تشدد کو انتہاتک پہنچا دیا اور اس درس گاہ کا کردار ختم کرنے کے لیے ریاستی جبر کی ہر شکل آزما کر دیکھ لی ہے لیکن پون صدی کے بعد دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ وسطی ایشیا میں بھی یہ مدرسہ زندہ ہے اور اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
اس لیے میں مغرب کے دانش وروں کو آج کی اس محفل کی وساطت سے یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ حقائق سے آنکھیں بند کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ مدرسہ ایک تاریخی حقیقت ہے اور نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ پوری نسل انسانی کی اور خود تمہاری بھی ضرورت ہے۔ اس چٹان سے سر ٹکرانے کے بجائے اس کے وجود کو تسلیم کرو اور اس کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس کا پیغام نسل انسانی کے بہتر مستقبل کا پیغام ہے، انسانی سوسائٹی کو انارکی اور خلفشار کی دلدل سے نکالنے کا پیغام ہے اور آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی کا پیغام ہے۔ اب نسل انسانی کو اسی پیغام کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے سوا نسل انسانی کی فلاح کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔