غالباً ۳۰ اگست کی صبح کا قصہ ہے راقم الحروف نیویارک کے علاقہ بروک لین میں ضلع گجرات کے ایک دوست جناب محمد دین کے ہاں قیام پذیر تھا۔ صبح نماز سے پہلے کا وقت تھا، میرے ساتھ کمرہ میں حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی بھی محو خواب تھے۔ خواب میں دیکھتا ہوں کہ گوجرانوالہ میں اپنے کمرہ میں بیٹھا ہوں، تبلیغی جماعت کے ایک بزرگ جناب ظفر علی ڈار میرے کمرہ میں آئے اور کہنے لگے کہ کیا آپ کو پتہ نہیں کہ شریعت بل کے محرک مولانا سمیع الحق انتقال کر گئے ہیں۔ میں نے چونک کر پوچھا کہ مولانا سمیع الحق یا مولانا عبد الحق؟ انہوں نے کہا ہاں ہاں مولانا عبد الحق کا انتقال گیا ہے، میں نے ابھی انا للہ وانا الیہ راجعون ہی پڑھا تھا کہ مولانا فداء الرحمان درخواستی کی آواز آئی کہ اٹھو بھئی نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ میں نیند سے بیدار ہوا اور مولانا درخواستی کو خواب سنایا۔ انہوں نے کہا کہ خواب تو اچھا ہے، خواب میں کسی کی موت کی خبر اس کی زندگی اور عزت کی علامت ہوتی ہے۔ تھوڑی دیر میں مولانا میاں محمد اجمل قادری سے فون پر بات ہوئی تو انہیں یہ خواب بتایا، ان کا جواب بھی وہی تھا جو مولانا فداء الرحمان درخواستی سے سن چکا تھا اور خود میں نے بھی تعبیر رویا کی بعض کتابوں میں یہی کچھ پڑھ رکھا تھا۔ مگر سچی بات ہے کہ ان سب امور کے باوجود حضرت شیخ الحدیث مولانا عبد الحقؒ کی علالت اور نقاہت کی وجہ سے دل کو تردد اور تفکر سے نجات نہیں دلا سکا تھا۔
۸ ستمبر کو مدینہ منورہ پہنچا تو استاذ محترم قاری محمد انور صاحب نے یہ الم ناک خبر سنائی کہ حضرت مولانا عبد الحقؒ کا گزشتہ روز انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ قاری محمد انور صاحب میرے حفظ قرآن کے شفیق استاد ہیں اور آج کل مدینہ منورہ میں جامعہ محمد بن مسعود کے تحت تحفیظ القرآن کے ایک مدرسہ میں پڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ خبر ریڈیو سے سنی تھی جس کے مطابق جنازہ بھی ادا کیا جا چکا تھا۔
خواب پیغمبرؑ کے سوا کسی کا حجت نہیں ہے لیکن یہ درست ہے کہ خواب میں اللہ تعالیٰ بسا اوقات آنے والے واقعات کی طرف اشارہ فرما دیتے ہیں۔ میرے ساتھ اسی قسم کا واقعہ حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے بارے میں بھی رونما ہو چکا ہے۔ مولانا ہزارویؒ کی وفات سے پانچ چھ روز پہلے کا قصہ ہے خواب میں دیکھتا ہوں کہ گوجرانوالہ کی مرکزی جامع مسجد میں علماء کا ایک اجلاس ہے اس میں مولانا غلام غوث ہزارویؒ کرسی پر بیٹھے ہیں جبکہ باقی حضرات ان کے سامنے نیچے بیٹھے ہیں جیسے سب ان کا خطاب سننے کے لیے جمع ہوں اور میں حسب معمول سیکرٹری کے فرائض انجام دے رہا ہوں۔ اچانک اجتماع میں ایک بزرگ کو دیکھ کر چوک جاتا ہوں، یہ بزرگ مولانا عبد الواسع لدھیانویؒ ہیں جو رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ کے بھانجے تھے اور تقسیم ہند سے پہلے مجلس احرار اسلام کے سرگرم راہنماؤں میں شمار ہوتے تھے، ان کا چند سال قبل انتقال ہوگیا تھا جس کا مجھے خواب میں بھی ادراک تھا اور اسی لیے بار بار غور سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا کہ انہیں تو چند سال قبل خود ہم جنازہ پڑھ کے سپرد خاک کر چکے ہیں یہ یہاں کیسے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے میری اس کیفیت کو بھانپ لیا اور پوچھا کہ بھائی کیوں مجھے گھور گھور کر دیکھ رہے ہو، میں نے کہا کہ حضرت آپ؟ کہنے لگے کہ ہاں یہ میں ہی ہوں اور بابے کو لینے آیا ہوں۔ بابے سے مراد حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ تھے جنہیں جماعتی کارکن محبت سے بابا کہا کرتے تھے۔ صبح ہوئی تو میں نےسب سے پہلے مولانا علامہ محمد احمد لدھیانویؒ کو فون پر خواب سنایا اور کہا کہ آپ کے بڑے بھائی مولانا ہزارویؒ کو لینے آرہے ہیں اور پھر اس واقعہ کے چار پانچ دن بعد مولانا ہزارویؒ کا انتقال ہوگیا۔
اس پس منظر میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحقؒ کی وفات کی خبر اگرچہ میرے لیے کم از کم غیر متوقع نہیں تھی لیکن خبر سنتے ہی دل کی جو کیفیت ہوئی اسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ معاً ذہن جنازہ اور تدفین کے مراحل کی طرف منتقل ہوگیا اور سوچنے لگا کہ ایک منحنی سے وجود اور مٹھی بھر ہڈیوں کے ڈھانچے کی صورت میں علم و عمل اور خلوص و تواضع کے اس بحرِ ذخار کو آخر کس حوصلہ کے ساتھ لوگ مٹی کے نیچے دبا رہے ہوں گے۔ فورًا مسجد نبویؐ میں حاضری دی، حسن اتفاق سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر شریف کے ساتھ جگہ مل گئی، مسجد نبویؐ کے اس حصہ کو جناب نبی رسالت مآبؐ نے جنت کے باغوں میں سے ایک باغ فرمایا ہے، وہیں بیٹھ کر حضرت مولانا عبد الحقؒ کو ایصال ثواب کے لیے قرآن کریم کا کچھ حصہ تلاوت کیا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی۔ دوسرے روز مکہ مکرمہ میں اللہ رب العزت نے حضرت شیخ الحدیثؒ کی طرف سے طواف بیت اللہ کے سات چکر لگانے اور ایصال ثواب کے لیے قرآن کریم کا کچھ حصہ مسجد حرام میں تلاوت کرنے کی توفیق بھی دے دی۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں اور حضرت مولانا عبد الحق رحمۃ اللہ علیہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقامات سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحقؒ کون تھے اور ملک و قوم کے لیے ان کی علمی، دینی و سیاسی خدمات کا دائرہ کس قدر وسیع ہے؟ یہ تذکرہ ایک ضخیم کتاب کا متقاضی ہے اور بلاشبہ یہ ان کا حق ہے کہ نئی نسل کو ان کی تگ و تاز، جدوجہد و عمل اور خلوص و ایثار کی تابندہ روایات سے آگاہ کیا جائے کیونکہ تاریخ ایسی ہی شخصیات کا مجموعہ ہوتی ہے بلکہ مولانا عبد الحقؒ کا وجود ایسی ہستیوں میں سے ہے جو خود تاریخ بنایا کرتی ہیں اور جن کی جہد و عمل کی روایات تاریخ کا مایۂ صد افتخار حصہ بنتی ہیں۔ حضرت مولانا عبد الحقؒ کی زندگی بنیادی طور پر ایک مصلح اور استاذ کی زندگی تھی، انہوں نے معاشرہ میں قرآن و سنت کی تعلیم کو عام کیا بلکہ صوبہ سرحد میں دینی تعلیم کو ایک تحریک بنا دیا جو آج عظیم درسگاہ دارالعلوم حقانیہ کی قیادت میں جاری و ساری ہے۔ ان کے بلاواسطہ اور بالواسطہ شاگردوں کو شمار کیا جائے تو ہزاروں میں گنتی مشکل ہو جائے گی۔ ان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد افغانستان میں روسی جارحیت کے خلاف براہ راست مصروف جہاد ہے جن میں حزب اسلامی کے امیر مولانا محمد یونس خالص اور پکتیا کے شہرہ آفاق کمانڈر مولانا جلال الدین حقانی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
حضرت مولانا عبد الحقؒ تین مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۷۰ء میں اجمل خٹک جیسے معروف سیاست دان کو مولانا مرحوم کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا، ۱۹۷۷ء میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نصر اللہ خٹک اپنی تمام تر فتنہ سامانیوں کے باوجود شکست کھا گئے، اور ۱۹۸۵ء میں انہیں چارپائی پر پڑے ہوئے ہی علاقہ کے لوگوں نے قومی اسمبلی کا رکن چن لیا۔ قومی اسمبلی میں حضرت مولانا مرحوم کے خطابات علم و دانش، عزم و استقلال اور خلوص و خیر خواہی کا مرقع ہوتے تھے۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا مشن پاکستان میں اسلامی نظام کا عملی اور مؤثر نفاذ رہا ہے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے کسی ایثار اور قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ شریعت بل کی جدوجہد کے سلسلہ میں قیادت کے لیے ان سے درخواست کی گئی تو فرمانے لگے کہ ’’بے جان لاشہ ہوں، ہل جل نہیں سکتا لیکن شریعت کے لیے جہاں حکم ہو جانے کے لیے تیار ہوں، آپ جہاں چاہیں چارپائی کو اٹھا کر لے جا سکتے ہیں‘‘۔
یہ امر واقعہ ہے کہ اس جدوجہد میں ضعف، نقاہت اور علالت ان کے آڑے نہیں آئی، انہیں اسی حالت میں لاہور، بنوں اور راولپنڈی کے اسفار کی زحمت دی گئی جو انہوں نے قبول فرمائی۔ پاکستان میں نفاذ شریعت کے ساتھ ساتھ افغانستان میں جہاد کی کامیابی اور اسلام کا غلبہ ان کی زندگی کی ایک بڑی تمنا رہی ہے۔ وہ اپنے شاگردوں کو جہاد میں حصہ لینے کی تلقین کرتے، اپنی جیب سے انہیں سفر خرچ دیتے، ان کے حالات کی خبر رکھتے، مشاورت میں شریک ہوتے اور مجاہدین کی کامیابی کے لیے دعاگو رہتے۔ الغرض حضرت مولانا عبد الحقؒ کی وفات سے نہ صرف پاکستان کے علماء بلکہ مجاہدین افغانستان بھی اپنے ایک عظیم مربی، سرپرست اور دعاگو بزرگ سے محروم ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور ان کے جانشین حضرت مولانا سمیع الحق کو توفیق دیں کہ وہ اپنے عظیم باپ کی تابناک روایات کو زندہ رکھتے ہوئے قافلہ علماء حق کی قیادت کا فریضہ بہتر طور پر سرانجام دے سکیں، آمین یا رب العالمین۔