مرتد کی سزا قتل کو متنازعہ بنانے کے لیے قانونی موشگافیوں کے سہارے نئی بحث چھیڑ دی گئی ہے۔ یہ بحث قیام پاکستان سے قبل مرزا غلام احمد قادیانی کے لاہوری پیروکاروں کے امیر مولوی محمد علی نے چھیڑی تھی جس پر شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے اپنے رسالہ ’’الشہاب‘‘ میں تفصیلی نقد کیا تھا اور ثابت کیا تھا کہ مرتد کی سزا شرعاً قتل ہے اور یہ ’’حدِّ شرعی‘‘ ہے۔ اہل علم کے لیے اس رسالہ کا مطالعہ ضروری ہے۔ ایک صاحب نے اس حوالے سے یہ کہہ کر مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے کہ ارتداد پر قتل کی سزا خدائی حکم نہیں ہے بلکہ فقہاء کرام اور قانون دانوں کی صوابدید کے مطابق یہ ’’تعزیری سزا‘‘ ہے جسے تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ
- بنی اسرائیل میں جن لوگوں نے بچھڑے کی پوجا شروع کی کر دی تھی ان کی سزا ’’فاقتلوا انفسکم‘‘ کا حکم خود اللہ تعالیٰ نے دیا تھا اور اس پر حضرت موسٰی علیہ السلام نے عمل کیا تھا۔
- پھر بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعئ نبوت مسیلمہ کذاب کا خط لانے والے اس کے دوپیروکاروں سے فرمایا تھا کہ تم مجھے رسول ماننے کے بعد مسیلمہ کو بھی رسول مانتے ہو اس لیے ’’لولا ان الرسل لا تقتل لضربت اعناقکما‘‘ اگر سفیروں کو قتل کرنے کا معروف ضابطہ نہ ہوتا تو میں تم دونوں کی گردنیں اڑا دیتا۔ جس کا مطلب واضح ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ ماننے کے بعد ایک اور شخص کو بھی خدا کا رسول ماننے لگے تھے جس پر وہ قتل کی سزا کے مستحق ہو گئے تھے، البتہ کسی قوم کا سفیر ہونے کی وجہ سے انہیں قتل نہیں کیا گیا تھا۔ جبکہ ان میں سے ایک شخص ’’السنن الکبریٰ‘‘ میں امام بیہقیؒ کی بیان کردہ روایت کے مطابق حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں کوفہ میں گرفتار ہوا تھا اور اپنے اسی سابقہ عقیدہ کے دوبارہ اظہار اور اس سے توبہ کرنے سے انکار کی وجہ سے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے حکم پر قتل کر دیا گیا تھا۔