حفظ قرآن کریم کا معیار کیسے بہتر بنایا جائے۔ الشریعہ اکادمی میں سیمینار

   
۷ دسمبر ۲۰۱۲ء

لوگوں میں قرآن کریم حفظ کرنے کا شوق و ذوق بحمد اللہ تعالٰی بڑھتا جا رہا ہے اور حفظ کے مدارس کے ساتھ ساتھ طلبہ کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ تعلیم کے معیار اور دینی و اخلاقی تربیت کے تقاضوں کے حوالہ سے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں اور ان کی طرف اصحابِ فکر کی توجہ کسی حد تک مبذول ہونے لگی ہے۔ اس سلسلہ میں ۲ دسمبر کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس کا عنوان یہ تھا کہ قرآن کریم حفظ کرنے والے بچوں کی اخلاقی و دینی تربیت کا معیار کس طرح بہتر بنایا جائے۔ سیمینار کی صدارت راقم الحروف کے ذمہ تھی جبکہ مہمان خصوصی ہمارے فاضل دوست مولانا جہانگیر محمود تھے جو ایک عرصہ سے تعلیمی نصاب و نظام میں اصلاحات اور ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ شرکاء میں زیادہ تعداد حفظ و تجوید کے اساتذہ کی تھی اور خطاب کرنے والوں میں جامعہ نصرۃ العلوم کے شعبہ تجوید کے صدر مدرس مولانا قاری سعید احمد صفہ سکول سسٹم کے سربراہ جناب سلیم رؤف، دارالعلوم گوجرانوالہ کے استاذ مولانا قاری عبد الشکور اور الشریعہ اکادمی کے استاذ مولانا محمد عبد اللہ راتھر شامل تھے۔ مقررین نے جن خیالات کا اظہار کیا ان کے اہم نکات درج ذیل ہیں۔

  • بہت سے ماں باپ اپنے بچوں کو قرآن کریم حفظ کرانے کا شوق رکھتے ہیں جو بہت اچھی بات ہے لیکن تجربہ شاہد ہے کہ سارے بچے قرآن کریم یاد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے، بعض بچے سالہا سال صرف کرنے کے باوجود مکمل نہیں کر پاتے اور جو کسی نہ کسی طرح مکمل کر لیتے ہیں وہ یاد نہیں رکھ سکتے۔ اس لیے یہ بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ ایک دو پارے تو ہر بچے کو یاد کرائے جائیں اور اس کے بعد اس کے استاذ سے رائے لی جائے، اگر استاذ کی رائے میں بچہ قرآن کریم یاد کرنے اور پھر اسے یاد رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اسے قرآن کریم مکمل حفظ کرایا جائے ورنہ اس کا رخ دینی تعلیم کے کسی اور شعبے کی طرف پھیر دیا جائے۔
  • قرآن کریم کو مسلسل یاد رکھنا، اسے یاد کرنے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے بچے کے ماں باپ کو اعتماد میں لے کر کوئی ایسا طریق کار بنایا جائے کہ بچہ حافظ قرآن کریم ہو جانے کے بعد اسے یاد رکھنے کے لیے قرآن کریم کی تلاوت اور سنانے کا کوئی معمول بنا لے، ورنہ عام طور پر قرآن کریم حفظ کر لینے کے بعد بچہ اور والدین دونوں ذہنی طور پر اس حوالہ سے خود کو فارغ محسوس کرتے ہیں اور بہت سے بچے اس غفلت کی وجہ سے قرآن کریم بھول جاتے ہیں۔
  • قرآن کریم یاد کرانے کے ساتھ ساتھ طلبہ کی دینی تربیت کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ نمازوں کی پابندی، سچ اور جھوٹ میں تمیز، حلال و حرام کا فرق، احکام شریعہ کی بجا آوری کا ذوق، گفتگو میں سنجیدگی اور دیگر ضروری امور کا دورانِ تعلیم ہی لحاظ رکھا جائے۔ کیونکہ بعد میں اس کا موقع نہیں ملے گا اور دورانِ تعلیم جو خامی کسی حوالہ سے رہ جاتی ہے اس کی اصلاح مشکل ہو جاتی ہے۔
  • اسی طرح اخلاقی تربیت کا اہتمام بھی ضروری ہے۔ عام طور پر یہ شکایت سامنے آتی ہے کہ بعض حفاظ کا رویہ اپنے گھر والوں کے ساتھ، رشتہ داروں کے ساتھ اور خاص طور پر ماں باپ کے ساتھ مناسب نہیں ہوتا۔ یہ تربیت کی طرف توجہ نہ دینے کی وجہ سے ہوتا ہے، اس کے معاشرہ اور خاندانوں میں منفی اثرات سامنے آتے ہیں اور خود حافظ قرآن کریم کی شخصیت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ استاذ کی ذمہ داری میں یہ بات شامل ہونی چاہیے کہ وہ بچوں کو ماں باپ کے ادب، رشتہ داروں سے حسن سلوک اور چھوٹے بڑے سے گفتگو کا سلیقہ سکھائیں تاکہ قرآن کریم حفظ کرنے والے بچے گھروں کے ماحول میں مثبت تبدیلی کا باعث بنیں۔
  • قرآن کریم حفظ کرنے کے دوران ہی بچوں کے تعلیمی مستقبل کی لائن کے بارے میں سوچ لیا جائے تاکہ بعد میں وہ تذبذب کا شکار نہ ہوں، اس طرح بہت سے بچے ضائع ہو جاتے ہیں۔ اور پھر جو رخ متعین ہو جائے اس کے لیے اسے دورانِ حفظ ذہنی طور پر تیار بھی کیا جائے تاکہ وہ حفظ مکمل کرنے کے بعد کوئی وقت ضائع کیے بغیر اپنا تعلیمی تسلسل جاری رکھ سکے۔
  • بچوں کو اگر دوران حفظ چھوٹی چھوٹی سورتوں، آیات اور جملوں کا سادہ سا ترجمہ اور مفہوم ذہن نشین کرانا شروع کر دیا جائے تو اس سے ان میں فہم قرآن کریم کا ذوق پیدا ہوگا اور دینی تعلیم کا رجحان بڑھے گا۔ بالخصوص حلال و حرام، سچ و جھوٹ، دیانت و امانت اور حقوق و معاملات کے بارے میں مختصر جملوں کا ترجمہ یاد کرانے سے ان کی اخلاقی تربیت کا مقصد بھی حاصل ہوگا۔
  • بچوں کو تشدد اور مار پیٹ کی بجائے پیار اور شفقت سے سمجھانے کا طریقہ اپنایا جائے۔ مار پیٹ سے بچے کی شخصیت پر منفی اثر پڑتا ہے اور بسا اوقات اس سے باغی ہونے والا بچہ دین و دنیا کے کسی کام کا نہیں رہتا۔ بچوں کو تعلیم کی طرف شوق دلانے کے لیے ترغیب کی صورتیں اختیار کی جائیں اور ابلاغ و تعلیم کے جدید اسلوب اور ذرائع سے جائز حد تک استفادہ کیا جائے۔

کم و بیش سبھی مقررین کی یہ رائے تھی کہ ان مقاصد کے لیے بچوں کے والدین اور اساتذہ دونوں کی خصوصی تربیت کی ضرورت ہے۔ والدین کو اعتماد میں لے کر انہیں یہ سمجھانا چاہیے کہ وہ بچوں کو گھروں میں بھی قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ماحول فراہم کریں ورنہ قرآن کریم حفظ کرانے کا مقصد فوت ہو جائے گا۔ بچے کو اگر نماز کے لیے مجبور کیا جائے اور اس کے ماں باپ خود نماز نہ پڑھیں تو اس بچے کے دل میں نماز کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ بچے کو دیانت و امانت کی تعلیم دی جائے اور اسے گھر میں اس قسم کا ماحول نہ ملے تو وہ ذہنی اور نفسیاتی طور پر تضاد اور تذبذب کا شکار ہو جائے گا۔ اس لیے ماں باپ کو مسلسل اعتماد میں لینے اور ان سے رابطہ رکھنے کی ضرورت ہے اور تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں پیش آنے والی مشکلات و مسائل کو ماں باپ کے علم میں لا کر ان کی مشاورت سے ان کا حل تلاش کیا جائے کیونکہ اسی صورت میں بچے کی تعلیمی اور ذہنی رجحان کو درست رکھا جا سکتا ۔

اسی طرح اساتذہ کے لیے تربیتی کورسز کی شدید ضرورت ہے۔ قرآن کریم حفظ کرانے والے اساتذہ کی بڑی تعداد کو خود تعلیمی، تدریسی، دینی اور اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے اور اس کے لیے مختلف سطح پر کورسز اور ورکشاپس کا اہتمام ہونا چاہیے۔ سینئر اور تجربہ کار اساتذہ ایسے کورسز اور ورکشاپس میں ان اساتذہ کو اپنے تجربات و مشاہدات سے آگاہ کریں اور انہیں تعلیم و تربیت کے ضروری تقاضوں سے واقف کرا کے ان کی تکمیل کے لیے ان کی راہنمائی کی جائے۔ کیونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ طالب علم اپنے استاذ سے صرف تعلیم حاصل نہیں کرتا بلکہ استاذ کی شخصیت، فکر اور کردار اس کے شاگرد پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے، اس لیے استاذ کو اخلاق و کردار میں بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرنا ہوگی۔

الشریعہ اکادمی کے استاذ مولانا محمد عبد اللہ راتھر نے اس موقع پر اعلان کیا کہ اگلے ماہ الشریعہ اکادمی میں حفظ و تجوید کے اساتذہ کے لیے تین روزہ تربیتی ورکشاپ کا اہتمام کیا جائے گا جبکہ گوجرانوالہ شہر کے دینی مدارس کے طلبہ کے لیے ۲۲ دسمبر سے انگلش بول چال کے چالیس روزہ کورس کا آغاز کیا جا رہا ہے جس کی کلاس روزانہ عصر کی نماز کے بعد جامع مسجد شیرانوالہ باغ میں ہوگی، ان شاء اللہ تعالٰی۔

   
2016ء سے
Flag Counter