(امام شمس الدین الذہبیؒ کی کتاب الکبائر ۔ قسط ۳)
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
فخلف من بعدھم خلف اضاعوا الصلوٰۃ واتبعوا الشھوات فسوف یلقون غیا۔ الا من تاب و آمن و عمل صالحا۔ (مریم ۵۹، ۶۰)
’’پھر ان کے بعد ایسے نا خلف پیدا ہوئے جنہوں نے نماز کو برباد کیا اور خواہشوں کی پیروی کی، سو یہ لوگ عنقریب خرابی دیکھیں گے۔ ہاں مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور نیک کام کرنے لگا۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ارشاد فرماتے ہیں کہ
’’نماز ضائع کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ نماز بالکلیہ چھوڑ دی، بلکہ یہ ہے کہ نماز کو اپنے وقت سے مؤخر کر دیا۔‘‘
امام التابعین حضرت سعید بن المسیب رحمۃ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ
’’نماز ضائع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ظہر کی نماز اس وقت نہ پڑھے جب تک عصر کا وقت نہ ہو جائے۔ عصر کی مغرب کے وقت میں، مغرب کی عشاء کے وقت میں اور عشاء کی صبح کے وقت میں۔ یعنی نماز کو اپنے وقت سے مؤخر کر کے ادا کرے۔ پس جو اسی حالت میں مر گیا کہ اسے اپنی اس عادت پر اصرار تھا اور نہ ہی اس نے توبہ کی تو اسے اللہ تعالیٰ نے ’’وادی غی‘‘ کی وعید سنائی ہے۔ یہ جہنم کی وہ وادی ہے جس کا گڑھا بہت گہرا ہے اور جس کا ذائقہ خبیث ہے۔‘‘
اللہ رب العزت نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا کہ
فویل للمصلین۔ الذین ھم عن صلاتھم ساھون۔ (الماعون ۴، ۵)
’’پس ایسے نمازیوں کے لیے بڑی خرابی ہے جو اپنی نمازوں کو بھلا بیٹھے ہیں۔‘‘
یعنی جو نماز سے غفلت برتنے والے اور اس کو معمولی سمجھنے والے ہیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ
’’میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ وہ کون ہیں جو اپنی نمازوں سے غفلت کرتے ہیں؟ آپؐ نے جواب میں فرمایا کہ نماز سے غفلت کا مطلب ’’ھو تاخیر الوقت‘‘ اسے وقت سے مؤخر کرنا ہے۔‘‘ (رواہ البزار)
ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ’’نمازی‘‘ کہا ہے لیکن جب انہوں نے نماز میں سستی کی اور اسے وقت سے مؤخر کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ’’ویل‘‘ کی دھمکی دی جو سخت عذاب ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس میں اگر دنیا کے پہاڑ بھیجے جائیں تو وہ بھی وادی کی تپش کی وجہ سے پگھل کر رہ جائیں۔ یہ وادی نماز سے غفلت کرنے والوں کا ٹھکانہ ہو گی۔ ہاں جس نے اللہ تعالیٰ سے توبہ کر لی اور سابقہ گناہوں پر نادم ہوا اسے چھٹکارا مل جائے گا۔
ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ
یا ایھا الذین آمنوا لا تلھکم اموالکم ولا اولادکم عن ذکر اللہ ومن یفعل ذٰلک فاولئک ھم الخاسرون۔ (المنافقون ۹)
’’اے ایمان والو تم کو تمہارے مال اور اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کر پائیں، اور جو ایسا کرے گا ایسے لوگ ناکام رہنے والے ہیں۔‘‘
مفسرین کرامؒ نے فرمایا کہ اس آیت میں ’’ذکر اللہ‘‘ سے مراد پانچ نمازیں ہیں، پس جس کو مال، دولت، خرید و فروخت، معیشت، ساز و سامان، اولاد نے نماز سے غافل کر دیا اور ان چیزوں کی وجہ سے اس نے نماز کو وقت سے مؤخر کر دیا، وہ خاسرین میں سے ہے۔
اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اول ما یحاسب بہ العبد یوم القیامۃ من عمل الصلوٰۃ فان صلحت فقد افلح وانجح وان نقصت فقد خاب و خسر (رواہ الترمذی و حسنہ)
’’قیامت کے دن سب سے پہلے بندہ سے نماز کے بارہ میں حساب ہو گا۔ جس کی نماز درست ہو گی وہ کامیاب ہو گا اور نجات پائے گا۔ اور جس کی نماز ناقص نکلی وہ نقصان اٹھائے گا اور گھاٹے میں رہے گا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ نے جہنمیوں کی خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
ما سلکم فی سقر۔ قالوا لم نک من المصلین۔ ولم نک نطعم المسکین۔ وکنا نخوض مع الخائضین۔ وکنا نکذب بیوم الدین۔ حتیٰ اتانا الیقین۔ فما تنفعھم شفاعۃ الشافعین۔ (المدثر ۴۲۔۴۸)
’’جنتی جہنم والوں سے پوچھیں گے، تمہیں کیا چیز جہنم میں چلا کر لائی ہے؟ وہ کہیں گے ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔ مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔ کھیلنے والوں کے ساتھ کھیل میں مشغول رہتے تھے۔ اور ہم قیامت کے دن کو جھٹلاتے تھے۔ حتیٰ کہ یقین (کا مرحلہ) آ گیا۔ پس ان کو شفاعت کرنے والوں کی سفارش نفع نہیں دے گی۔‘‘
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’ہمارے اور کافروں کے درمیان فرق نماز کا چھوڑنا ہے۔ پس جس نے نماز ترک کر دی اس نے کفر (کا کام) کیا۔‘‘ (رواہ احمد والترمذی والنسائی و ابن حبان)
ایک اور مقام پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’بندے اور کفر کے درمیان (تعلق) نماز کا ترک کرنا ہے۔‘‘ (رواہ احمد و مسلم و ابن ماجہ والطبرانی)
یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔ اور صحیح بخاری میں ہے نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’جس کی عصر کی نماز رہ گئی اس کے عمل حبط ہو گئے۔‘‘
اور سنن میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من ترک الصلوٰۃ متعمدا فقد برئت منہ ذمۃ اللہ (رواہ ابن ماجۃ والبیہقی)
’’جس نے نماز جان بوجھ کر چھوڑ دی اس سے اللہ کا ذمہ بری ہو گیا۔‘‘
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑائی کرنے کا حکم دیا گیا جب تک وہ کلمہ پڑھ لیں، نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ دیں۔ پس جب انہوں نے ایسا کر لیا تو انہوں نے اپنے خون اور اموال مجھ سے بچا لیے مگر دین کے حق میں اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔‘‘ (متفق علیہ)
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من حافظ علیھا کانت لہ نورا و برھانا و نجاۃ یوم القیامۃ و من لم یحافظ علیھا لم تکن لہ نورا ولا برھان ولا نجات یوم القیامۃ وکان یوم القیامۃ مع فرعون و قارون و ھامان و ابی بن خلف (رواہ احمد باسناد جید)
’’جس نے نماز کی حفاظت کی اس کے لیے یہ قیامت کے دن روشنی، دلیل اور نجات ہو گی۔ اور جس نے اس کی حفاظت نہ کی، نہ اس کے لیے قیامت کے روشنی ہو گی، نہ دلیل، نہ نجات۔ اور وہ قیامت کے دن فرعون، قارون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا۔‘‘
بعض علماء نے فرمایا ہے کہ بے نماز کا حشر ان چار کے ساتھ اس لیے ہو گا کہ نماز کی وجہ عموماً یا مال ہوتا ہے یا بادشاہت یا وزارت یا تجارت۔ پس اگر مال و دولت کی وجہ سے نماز میں غفلت کی تو اس کا حشر قارون کے ساتھ ہو گا۔ اگر بادشاہت کی وجہ سے نماز ترک کر دی تو فرعون کے ساتھ۔ وزارت کی وجہ سے نماز سے غافل ہوا تو ہامان کے ساتھ۔ اور تجارت کی وجہ سے نماز نہ پڑھی تو مکہ کے تاجر الکفار ابی بن خلف کے ساتھ اس کا حشر ہو گا۔
اور امام احمدؒ نے حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جس نے ایک فرض نماز جان بوجھ ترک کر دی اس سے اللہ تعالیٰ کا ذمہ بری ہو گیا۔‘‘
امام بیہقیؒ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور پوچھا یا رسول اللہ! کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے؟ آپؐ نے جواب دیا:
الصلاۃ لوقتھا ومن ترک الصلوٰۃ فلا دین لہ والصلوٰۃ عماد الدین۔
’’نماز اپنے وقت پر، اور جس نے نماز ترک کر دی اس کا کوئی دین نہیں، اور نماز دین کا ستون ہے۔‘‘
جب حضرت عمرؓ زخمی ہو گئے (شہادت سے قبل) تو کسی نے کہا یا امیر المومنین! آپ کے ذمہ صبح کی نماز باقی ہے۔ (جس نماز میں آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور آپ بے ہوش ہو گئے تھے۔ مترجم) آپ نے فرمایا:
’’ہاں، اسلام میں کسی ایسے شخص کا حصہ نہیں جس نے نماز ضائع کر دی۔‘‘
پھر آپ نے ایسی حالت میں نماز ادا کی کہ آپ کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔ عبد اللہ بن شفیق التابعیؒ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نماز کے سوا کسی عمل کے ترک کو کفر (کے برابر) نہیں سمجھتے تھے۔
حضرت علیؓ سے ایک عورت کے بارہ میں پوچھا گیا جو نماز نہیں پڑھتی تھی تو آپ نے فرمایا:
’’جس نے نماز نہ پڑھی وہ کافر ہے۔‘‘ (اخرجہ الترمذی)
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا:
’’جس نے نماز نہ پڑھی اس کا کوئی دین نہیں۔‘‘ (رواہ المروزی)
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا:
’’جس نے ایک نماز جان بوجھ کر ترک کر دی، اللہ تعالیٰ سے جب ملاقات کرے گا تو وہ اس سے ناراض ہوں گے۔‘‘ (رواہ المروزی)
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
’’جو شخص اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملا کہ وہ نماز ضائع کرنے والا تھا، تو اللہ تعالیٰ اس کی دوسری نیکیوں کی کچھ پرواہ نہیں کریں گے۔‘‘ (رواہ الطبرانی)
امام ابن خرمؒ فرماتے ہیں کہ
’’شرک کے بعد اس سے بڑا گناہ کوئی نہیں کہ انسان نماز کو اپنے وقت سے مؤخر کر دے یا کسی مومن کے قتل کا ارتکاب کرے۔‘‘
حضرت ابراہیم نخعیؒ اور ایوب سختیانیؒ نے فرمایا:
’’جس نے نماز ترک کر دی اس نے کفر کیا۔‘‘
حضرت عون بن عبد اللہؒ نے فرمایا:
’’جب بندے کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کے بارہ میں اس سے سوال کیا جاتا ہے۔ اگر اس معاملہ میں درست ہوا تو دوسرے اعمال کا حساب ہوتا ہے، ورنہ اسی پر فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔‘‘
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جب بندہ نماز اول وقت میں پڑھے تو وہ نماز آسمان کی طرف جاتی ہے اور اس کے لیے روشنی ہوتی ہے، حتیٰ کہ وہ عرش تک پہنچ جاتی ہے اور وہ قیامت تک اس بندہ کے لیے بخشش مانگتی رہتی ہے اور کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی طرح تیری حفاظت کرے جس طرح تو نے میری حفاظت کی۔ اور جب بندہ نماز وقت سے مؤخر کر کے پڑھتا ہے تو وہ نماز آسمان کی طرف اس حالت میں جاتی ہے کہ اس پر تاریکی ہوتی ہے، اور جب وہ آسمان پر پہنچتی ہے تو ایسے لپیٹ دی جاتی ہے جیسے پرانا کپڑا لپیٹ دیا جاتا ہے اور اسے نمازی کے منہ پر مارا جاتا ہے، اور نماز کہتی ہے خدا تجھے اسی طرح برباد کرے جس طرح تو نے مجھے برباد کیا۔‘‘ (رواہ الطبرانی و الطیاسی والبیہقی)
اور امام ابوداؤدؒ نے سنن میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ثلاثۃ لا یقبل اللہ منھم صلاتھم من تقدم قوما وھم لہ کارھون و من استعبد محررا و رجل اتی الصلاۃ دبارا۔
’’تین آدمیوں کی نماز خدا قبول نہیں کرتا۔ جو امام بنا اس حالت میں کہ قوم اسے ناپسند کرتی تھی۔ جس نے آزاد کو غلام بنا لیا۔ اور جس نے نماز آخر میں پڑھی۔‘‘
دبار کا معنی ہے کہ نماز کا وقت فوت ہو جانے کے بعد ادا کرنا۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جس نے دو نمازیں بغیر عذر کے جمع کر دیں تو اس نے کبیرہ گناہوں کا ایک بڑا دروازہ کھولا۔‘‘ (رواہ الحکام)
ہم اللہ تعالیٰ سے توفیق اور مدد کا سوال کرتے ہیں، وہ سخی اور کریم ہے اور ارحم الراحمین ہے۔