اسلام پر رحم کیجئے

   
۲۶ ستمبر ۱۹۷۵

یادش بخیر! جناب کوثر نیازی وزیر امور مذہبی اسلامی جمہوریہ پاکستان نے لاہور میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ملک میں قرآن کے منافی کوئی نظام نہیں لایا جا سکتا‘‘۔ یہ بات نیازی صاحب محترم کو اس وقت سوجھی جب ان کے مخالف دھڑے کے کارکن ان کی تقریب میں ہلڑ بازی کر کے ’’سوشلزم آوے ای آوے‘‘ کے نعروں کی گونج میں سٹیج کی طرف چمچے اچھال رہے تھے۔ نیازی صاحب پیپلز پارٹی کے ’’اسلام پسند‘‘ حلقے کے ترجمان کی حیثیت سے کافی عرصہ سے اپنا امیج بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف بھٹو صاحب کی چابکدستی کے شکار جے اے رحیم، خورشید حسن میر، معراج محمد خان اور حنیف رامے ’’سائنٹیفک سوشلزم‘‘ کی بنیادوں پر اپنا سیاسی مستقبل استوار کرنے کی فکر میں ہیں۔ توقع ہے کہ مختار رانا کی رہائی کے بعد اس گروہ کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ ’’چچا سام‘‘ ایک بار پھر اسلام اور سوشلزم کے نام سے پاکستانی پہلوانوں کی باہمی کشتی دیکھنے کا خواہشمند ہے۔ کیونکہ پچھلی بار جمعیۃ علماء اسلام کے ارباب بصیرت نے کباب میں ہڈی ڈال دی تھی، اور ان کی بروقت مداخلت کی وجہ سے اسلام اور سوشلزم کا دنگل دیکھنے کی خواہش ’’چچا سام‘‘ پوری نہیں کر سکا تھا۔ وہ دن بھی عجیب تھے، ایک طرف سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور مفاد پرستوں کا گروہ ’’اسلام پسندی‘‘ کا لیبل لگا کر اپنے مفادات اور اغراض کے تحفظ کی جدوجہد میں مصروف تھا، اور دوسری جانب مسٹر بھٹو لاچار عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان کے گورکھ دھندے میں الجھا کر ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کی دلہن کو گھونگٹ اوڑھائے قریہ قریہ بستی بستی پھرا رہے تھے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کی کشش اور مسٹر بھٹو کی سحر آفرین اداکاری غریب عوام کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کا استحصال کر رہی تھی۔ بہت سے لوگ بے سوچے سمجھے ’’ہے جمالو‘‘ کی دھن پر محو رقص تھے۔

’’اسلام پسند‘‘ اور ’’سوشلسٹ‘‘ فوجیں آمنے سامنے تھیں، ۱۱۳ (علماء کرام) کے فتویٰ کا نقارہ بچ چکا تھا کہ دو سو سالہ ولی اللہی سیاست کی امین جمعیۃ علماء اسلام آڑے آگئی۔ اس کے بیدار مغز امیر اور باہمت قائد نے مفاد پرستوں کے درمیان لڑی جانے والی اس جنگ میں اسلام کو فریق تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور علی الاعلان کہہ دیا کہ یہ جنگ اسلام اور کفر کی نہیں معاشی حقوق و مفادات کی ہے۔ اس طرح اسلام اور سوشلزم کا یہ معرکہ بپا نہ ہو سکا اور ’’چچا سام‘‘ سر پیٹ کر رہ گیا۔

جمعیۃ علماء اسلام کی اس بروقت مداخلت پر بہت سوں نے ناک بھوں چڑھایا، ’’کئی‘‘ اپنوں کو بھی بات کی سمجھ نہ آئی، لیکن آج وقت اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ یہ مداخلت درست تھی اور جمعیۃ علماء اسلام کا موقف صحیح تھا کیونکہ مطلع صاف ہوا تو نہ کوئی سوشلسٹ، سوشلسٹ تھا، اور نہ کوئی اسلام پسند، اسلام پسند۔

سوشلسٹ برسراقتدار آئے لیکن ۱۱۳ کی اکثریت نے اس ’’کفر‘‘ کو گوارہ کر کے چپ بیٹھے رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔ شیخ رشید، جے اے رحیم، معراج محمد خان، حنیف رامے اور ان کے رفقاء اسی سامراجی نظام کے کل پرزے بنے رہے، جو ان کی اصطلاح میں بورژوازی نظام ہے۔ ’’اسلام پسندی‘‘ پر سب سے زیادہ پھبتیاں کسنے والے کوثر نیازی ’’اسلام پسندوں‘‘ کے سب سے بڑے ترجمان مولانا احتشام الحق تھانوی سے بغل گیر ہوئے اور رؤیتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد تھانوی صاحب پر کوثر نیازی کی ’’اسلام پسندی‘‘ کا راز کھلا۔ جبکہ بھٹو صاحب نے جو سوشلزم نافذ کیا وہ سب پر عیاں ہے۔

یہ تھا ’’ڈراپ سین‘‘ اس ڈرامے کا جو اسلام اور سوشلزم کے عنوان سے ۱۹۷۰ء میں کھیلا گیا کہ پردہ اٹھا تو اسلام پسندی اور سوشلزم کا کہیں نام و نشان نہ تھا اور مفادات و اغراض باہم دست و گریبان تھے۔

اب جبکہ پی پی کی اندرونی سیاست پھر کروٹ بدل رہی ہے (جو سراسر مفادات اور اغراض کی سیاست ہے اور اس سیاست کے اداکاروں کو نہ اسلام سے کوئی ہمدردی ہے اور نہ ہی سوشلزم سے کوئی دلچسپی) پھر کروٹ بدل رہی ہے۔ اور مفاد پرستی کا منطقی نتیجہ گروہ بندی کی صورت میں سامنے نظر آرہا ہے۔ شاید دونوں گروہوں نے طبع آزمائی کے لیے پھر اسلام اور سوشلزم ہی کو عنوان بنانے کی بات سوچی ہے۔ اور شاید ۱۹۷۰ء کا ناکام ڈرامہ ازسرِنو سٹیج کرنے کی خواہش ’’چچا سام‘‘ کے دل میں پھر سے کروٹ لے رہی ہے۔ اور اس لیے جمعیۃ علماء کے جواں ہمت کارکنوں کو اپنا تاریخی کردار ادا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

سوشلزم کی بات تو سوشلسٹ جانیں لیکن اسلام کی حفاظت کی ذمہ داری ہم پر ہے، اور ہمیں گروہی سیاست کے کھلاڑیوں پر یہ بات واضح کر دینی چاہیے کہ خدا کے لیے اسلام پر رحم کرو! اور اپنے مفادات کی جنگ کے لیے اسلام کی بجائے کوئی اور عنوان منتخب کرلو۔ اسلام نصف صدی سے اس خطۂ زمین میں غلط کاروں کے سیاسی استحصال کا شکار ہو رہا ہے۔ یہاں جو کرسی کی طرف بڑھا اس نے اسلام کو نعرے کے طور پر استعمال کیا، اور جس کی کرسی کو خطرہ ہوا اس نے اسلام کو ڈھال بنا لیا۔ اس کے سوا ان لوگوں کے ہاں اسلام کا اور کیا مصرف رہا ہے؟ اس لیے اب اسلام کے نام کو غلط مقاصد اور گروہی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جو لوگ برسراقتدار رہ کر اسلام کے عملی نفاذ کے لیے کچھ نہیں کر سکے اور آج کرسیوں پر بیٹھے بھی کچھ نہیں کر رہے ان کے منہ سے اسلام اور قرآن کی بات ایسے ہی ہے جیسے شراب کی بوتل پر شربت صندل لکھ دیا جائے۔

اسلام مظلوم اور محنت کش کا ساتھی ہے، اس کی تعلیمات عدل و انصاف، حقوق کی مساوات، سیاسی آزادی اور عزت نفس کے تحفظ کی ضامن ہیں۔ وہ کسی ایک طبقے یا گروہ کے مفادات کا نہیں بلکہ معاشرہ کے ہر فرد کے صحیح مفادات کا ضامن ہے۔ اور اگر کچھ لوگ محض ذاتی و گروہی مفادات کے تحفظ کے لیے اسلام کا نام استعمال کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ معاشرہ کے غریب عوام کو اسلام کی طرف سے مایوس کر کے خود اس ملک میں سوشلزم اور کمیونزم کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ سوشلزم کا راستہ روکنا ہے تو اسلام کو پورے کا پورا عملی طور پر نافذ کر دو، ورنہ اگر تمہارے اس طرز عمل سے سوشلزم کی حوصلہ افزائی ہوئی تو کروڑوں مسلمانوں کو سوشلزم کی گود میں دھکیلنے کے ذمہ دار تم ہوگے۔

   
2016ء سے
Flag Counter