قائم مقام وفاقی محتسب اعلیٰ جناب جسٹس شفیع الرحمان نے اپنے ایک حالیہ مقالہ میں موجودہ قانونی صورتحال کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا ہے کہ
’’قوانین اور طریق کار ایماندار اور بے ایمان دونوں طرح کے افراد پر برابر وزن ڈالتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بے ایمان افراد کو مدد ملتی ہے جبکہ ایماندار افراد کو کنارہ کشی کرنی پڑتی ہے یا مفاہمت کرنی پڑتی ہے یا پھر اس سارے عمل میں ایماندار فرد اپنی ایمان داری سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے‘‘۔ (بحوالہ جنگ لاہور ۔ ۳۰ دسمبر ۱۹۸۷ء)
موجودہ قانونی نظام کا یہ حقیقت پسندانہ تجزیہ اور اس کی بنیادی خرابیوں کی نشاندہی کوئی نئی بات نہیں بلکہ اس سے قبل بھی قانون اور حکومت کے شعبوں سے تعلق رکھنے والی اہم اور ممتاز شخصیات متعدد مواقع پر اسی قسم کے خیالات کا برملا اظہار کر چکی ہیں۔ ہمارا موقف اور نقطۂ نظر تو اس بارے میں بالکل واضح اور دوٹوک ہے کہ موجودہ قانونی ڈھانچہ فرنگی استعمار نے اپنے دور تسلط میں نوآبادیاتی مقاصد اور ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم پر مسلط کیا تھا اور اس کا مقصد معاشرہ کو جرائم سے نجات دلانا نہیں بلکہ اس خطہ کی آبادی کو جرائم، بدعنوانی اور ضمیر فروشی کا عادی بنا کر اجتماعی کردار اور اخلاقی اقدار سے محروم کرنا تھا جس میں یہ نظام پوری طرح کامیاب ہے۔ حتیٰ کہ اس قانونی نظام کو چلانے والے خود بھی آج اس تلخ حقیقت کا برملا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ جب اس قانونی نظام کی ’’بے ایمان ساز‘‘ حیثیت کا کھلے بندوں اقرار کیا جا رہا ہے تو پھر مکر و فریب کی اس گٹھڑی کو سر سے اتار پھینکنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت، غنڈہ گردی اور بدعنوانیوں کا علاج آج بھی صرف اور صرف یہ ہے کہ موجودہ قانونی نظام کی مردہ بلکہ متعفن لاش کو سمندر کی گہرائیوں کی نذر کر کے اسلام کے سادہ اور فطری قانونی نظام کو خلوص اور ایمانداری کے ساتھ ملک میں بالادستی دی جائے۔ اس سمت عملی پیش رفت کے بغیر محض قانونی نظام کی خرابیوں کا ذکر کرتے رہنے سے حالات میں اصلاح کی کوئی توقع کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔