والدِ محترم کے سفر آخرت کا احوال

   
۹ مئی ۲۰۰۹ء

۴ اپریل سے ۲۶ اپریل تک میں برطانیہ میں تھا اور اس کے بعد حرمین شریفین حاضری دے کر وطن واپس آنے کا ارادہ تھا۔ جاتے ہوئے حضرت والد محترمؒ سے مل کر اور ان کی دعا لے کر گیا تھا مگر برطانیہ کے قیام کے دوران اس اطلاع نے پریشان کر دیا کہ ان کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی ہے اور خون کے قے آئی ہے۔ اضطراب کی وجہ واضح تھی اور میں اس سے قبل یہ صدمہ دیکھ چکا تھا کہ ہماری چھوٹی والدہ مرحومہ کا جب انتقال ہوا تو میں شکاگو امریکہ میں تھا اور آخری زیارت اور جنازے سے محرومی نے زندگی میں پہلی بار شدت کے ساتھ اس بات کا احساس دلایا تھا کہ بے بسی کسے کہتے ہیں۔ پریشانی اور بے چینی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے کہہ رکھا تھا کہ میرا جنازہ تم نے خود پڑھانا ہے۔ گھر فون کر کے معلوم کیا تو بتایا گیا کہ طبیعت کچھ سنبھل گئی ہے جس سے قدرے اطمینان ہوا مگر سفر کے اختتام تک پریشانی دل و دماغ پر سوار رہی۔

گزشتہ جمعرات کو گھر گوجرانوالہ واپس پہنچا اور جمعۃ المبارک کی شام کو گکھڑ حاضری ہوئی تو وہ اگرچہ بات چیت اشاروں میں ہی کر رہے تھے مگر اطمینان کی کیفیت ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کی وفات کے دن ہم سب بھائی خلاف معمول یہاں موجود تھے۔ میں برطانیہ سے واپس پہنچ گیا تھا۔ ہمارے چھوٹے بھائی قاری عزیز الرحمان خان شاہد کئی سالوں سے جدہ میں مقیم ہیں اور تحفیظ القرآن کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں، وہ گزشتہ ماہ بچوں سمیت آگئے تھے۔ اور ہمارے ایک بھائی مولانا رشید الحق خان عابد سلمہ جنہیں ہم پیر عابد کے نام سے یاد کرتے ہیں، نقشبندی سلسلہ کے اصحاب سلوک میں سے ہیں بلکہ وقف للسلوک ہیں، اپنے اوراد و اشغال میں اس قدر مگن رہتے ہیں کہ مہینوں ان کا پتہ نہیں چلتا کہ کہاں ہیں۔ میں انہیں خاندان کا ’’امام غائب‘‘ کہا کرتا ہوں، وہ بھی دو روز قبل گکھڑ پہنچ چکے تھے۔ بقیہ برادران مولانا عبد القدوس خان قارن، مولانا عبد الحق خان بشیر، مولانا قاری حماد الزہراوی، قاری عنایت الوہاب خان ساجد، قاری منہاج الحق خان راشد، اور ہمارے مرحوم بھائی قاری محمد اشرف خان ماجد کے فرزند حافظ انصر خان اپنے اپنے گھروں میں موجود تھے۔ اس طرح ہم سب بھائی حضرت والد محترم کے سفر آخرت کے وقت حاضر تھے۔

ہمشیرگان میں سے ایک مجھ سے بڑی ہیں جو آبائی علاقے اچھڑیاں شنکیاری ضلع مانسہرہ میں ہیں، وہ بھی ہمارے بڑے بہنوئی حاجی سلطان محمود خان کے ہمراہ وقت پر پہنچ گئی تھیں۔ چھوٹی ہمشیرہ گوجرانوالہ میں ہیں وہ بھی اپنے خاوند حافظ محمد شفیق اور فرزند مولانا محمد داؤد نوید اور بچیوں کے ہمراہ موجود تھیں۔ البتہ ہماری منجھلی ہمشیرہ جو جہلم میں ہیں وہ اپنے خاوند مولانا قاری خبیب احمد عمر کے انتقال کی وجہ سے عدت میں ہیں اس لیے گکھڑ نہ آسکیں اور ان کے لیے یہ صدمہ دوہرا ہوگیا کہ خاوند کی وفات کے بعد والد محترم کی وفات کے صدمہ سے دوچار ہونا پڑا اور اس پر والد محترم کی آخری زیارت بھی نہ کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس دوہرے بلکہ تہرے صدمہ کا دونوں جہانوں میں اجر جزیل عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

حضرت والد صاحبؒ کی وفات کے روز ہم سب گکھڑ میں جمع ہوئے تو جنازے کے لیے موزوں وقت اور تدفین کے مقام کے بارے میں باہمی مشورہ ہوا۔ گکھڑ میں سب سے بڑا گراؤنڈ ڈی سی ہائی اسکول کا ہے، ہم نے صبح اسے ایک بار دیکھا تو اندازہ ہوا کہ اس میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد نماز جنازہ ادا کر سکیں گے۔ ہمارا خیال اسی کے لگ بھگ تھا مگر شام کو جنازے کے وقت دیکھا تو ہمارا اندازہ درست نہیں تھا کیونکہ گراؤنڈ اس قدر بھر گیا تھا کہ اندر مزید لوگوں کے آنے کی گنجائش نہیں رہی تھی۔ جبکہ باہر جی ٹی روڈ اور اس کے ساتھ ملحقہ دو سڑکوں پر عوام کا بے پناہ ہجوم تھا اور جی ٹی روڈ پر ٹریفک کے رش کی وجہ سے دونوں طرف کم و بیش بیس بیس کلو میٹر تک ٹریفک جام ہو چکا تھا جو تین گھنٹے سے زیادہ تک جام رہا۔ ایک دوست نے بتایا کہ وہ ایک کلو میٹر کا فاصلہ تین گھنٹے میں طے کر پائے۔

عوام کا ہجوم ہماری توقعات سے کئی گنا زیادہ تھا اور ہم اس کے مطابق انتظام نہیں کر پائے تھے۔ اس لیے ہوا یہ کہ جتنے حضرات نے نماز جنازہ پڑھی کم و بیش اتنے ہی لوگ نماز جنازہ نہ پڑھ سکے اور ٹریفک کے ہجوم میں پھنسے رہے۔ رحیم یار خان سے پشاور تک کے شہروں سے قافلے آئے جن میں سے بہت سے راستہ ہی میں رہ گئے اور جنازہ تک نہ پہنچ سکے۔ حضرت والد محترمؒ کی زندگی بھر یہ روایت رہی ہے کہ وقت کی پابندی میں ضرب المثل تھے۔ ان کے بارے میں اور مولانا ظفر علی خان مرحوم کے بارے میں واقف حال لوگوں کا کہنا ہے کہ لوگ ان کے معمولات پر اپنی گھڑیاں ٹھیک کیا کرتے تھے۔ ہم نے جنازے کا اعلان یہ کر رکھا تھا کہ سوا پانچ بجے عصر کی نمازیں اردگرد کی مساجد میں ہوتی ہیں، اس لیے نماز پڑھتے ہی ساڑھے پانچ بجے نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔ برادرم قاری حماد نے، جو حضرت والد کی جگہ گکھڑ میں مسجد و مدرسہ کے معاملات ان کی علالت کے بعد بہ حسن و خوبی چلا رہے ہیں، یہ کہا کہ نماز جنازہ میں تھوڑی تاخیر کر لی جائے۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ ہم کم از کم ایک راویت کو تو قائم رکھیں کہ وہ جس وقت کا اعلان کرتے تھے اس سے ایک منٹ بھی آگے پیچھے نہیں ہوتے تھے۔

جنازے سے پہلے تشریف لانے والے ممتاز راہنماؤں کے خطاب کا سلسلہ جاری تھا۔ مولانا پیر عبد الرحیم نقشبندی، علامہ ڈاکٹر خالد محمود، حافظ حسین احمد، مولانا سمیع الحق، مولانا عطاء الرحمان، مولانا سعید یوسف خان، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا قاری جمیل الرحمان اختر، مولانا محمد احمد لدھیانوی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی اور دیگر بہت سے رہنما خطاب کر چکے تھے جبکہ بہت سے رہنما باقی تھے کہ عین وقت پر میں نے مائیک سنبھالا اور ٹھیک ساڑھے پانچ بجے اعلان کے مطابق نماز جنازہ کے لیے اللہ اکبر کی صدا بلند کر دی۔ بہت سے دوستوں نے بعد میں شکوہ کیا کہ اگر بیس تیس منٹ نماز جنازہ میں تاخیر کر دی جاتی تو بے شمار مزید لوگ جنازے میں شریک ہو سکتے تھے۔ مگر میں مطمئن ہوں کہ ہم نے حضرت والد محترم کی کسی ایک روایت پر تو عمل کر لیا، فالحمد للہ علیٰ ذلک۔

تدفین کے بارے میں بات چلی تو میں نے عرض کیا کہ والد محترمؒ اس بارے میں کسی تخصیص کو پسند نہیں کرتے تھے اس لیے عام قبرستان ہی بہتر ہے۔ گکھڑ میں آپ جی ٹی روڈ پر جا رہے ہوں تو شہر کے وسط میں مشرق کی جانب بٹ دری فیکٹری ہے، اس کے عقب میں ایک قبرستان ہے جو جی ٹی روڈ سے صرف چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ اس قبرستان میں ہماری دادی مرحومہ، پھوپھی مرحومہ، ہماری دونوں مرحوم مائیں، ہمارے مرحوم بھائی قاری محمد اشرف خان ماجد اور ان کے دو فرزند محمد اکرم اور محمد اکمل مدفون ہیں۔ طے ہوا کہ تدفین اسی قبرستان میں ہوگی۔ کوشش کی گئی کہ دادی مرحومہ کے قریب جگہ مل جائے تو بیٹے کو ماں کی آغوش میں ہی سلا دیا جائے مگر اس کے اردگرد کوئی جگہ نہ ملی تو قبرستان کی عام گزرگاہ میں پہلی صف میں موجود ایک خالی جگہ کو غنیمت سمجھا گیا اور وہیں قبر کی کھدائی کا فیصلہ کر لیا گیا۔

میں نے کچھ عرصہ قبل ایک خواب دیکھا تھا کہ گکھڑ میں حضرت والد صاحب کی مسجد کے دروازے سے باہر نکلتے ہوئے بائیں جانب جی ٹی روڈ کے ساتھ جو کھلی جگہ ہے وہاں صاف ستھرے پانی کا ایک بڑا تالاب ہے۔ اس تالاب میں ایک بہت بڑی مچھلی اچھلی اور فضا میں تھوڑی دیر نظر آکر دوبارہ اسی تالاب میں ڈبکی لگا کر غائب ہوگئی۔ اس پر خواب میں ہی میں نے یا میرے ساتھ کھڑے ایک صاحب نے تعجب کا اظہار کیا کہ یہ سمندر کی مچھلی تالاب میں کیسے آگئی؟ اس خواب کے بعد میرے دل میں یہ دھڑکا مسلسل لگا رہتا تھا کہ علم کے سمندر کی یہ بڑی مچھلی گکھڑ کے تالاب میں کسی بھی وقت ڈبکی لگا کر نظروں سے اوجھل ہو سکتی ہے۔ چنانچہ ۵ مئی بروز منگل عین اس وقت جب ادھر سورج غروب ہو رہا تھا تو ادھر آسمانِ علم و معرفت کے اس سورج کو بھی لحد میں اتارا جا رہا تھا۔ میں نے اس موقع پر ساتھیوں سے عرض کیا کہ ہم ایک پوری لائبریری کو زمین میں دفن کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو جنت کا باغ بنائیں اور ہم سب کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

حضرت والد محترمؒ کے بارے میں مختلف حوالوں سے گفتگو کا سلسلہ چند دنوں تک اس کالم میں ان شاء اللہ تعالیٰ چلتا رہے گا مگر اس موقع پر میں دوستوں کی اطلاع کے لیے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ میں حضرت کے حالات زندگی کی اشاعت کا سلسلہ تو کئی ماہ سے جاری تھا اب اس کی جولائی ۲۰۰۹ء کی اشاعت کو ’’امام اہل سنت‘‘ کے عنوان سے حضرت کی حیات و خدمات کے تذکرہ کے لیے مختص کر دیا گیا ہے جس کی تفصیلات کا اعلان چند روز تک کر دیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ملک بھر کے احباب سے اس سلسلہ میں ہمہ نوع تعاون کی خصوصی درخواست کی جاتی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter