تحفظ حقوق نسواں بل: قرآن و سنت سے متصادم دفعات عوام کو منظور نہیں

   
۱۸ نومبر ۲۰۰۶ء

قومی اسمبلی نے ”تحفظ حقوقِ نسواں بل“ منظور کر لیا ہے، جس کے بارے میں وفاقی وزیر قانون جناب وصی ظفر کا کہنا ہے کہ یہ سلیکٹ کمیٹی کا منظور کردہ نہیں ہے، جبکہ قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمٰن کا ابتدائی تبصرہ یہ ہے کہ یہ بل نہ سلیکٹ کمیٹی والا ہے اور نہ ہی علماء کی سفارشات والا ہے۔ وزیر قانون کا ارشاد ہے کہ متحدہ مجلس عمل نے سلیکٹ کمیٹی والا بل منظور کیے جانے کی صورت میں اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا اور چونکہ حکومت نے سلیکٹ کمیٹی والا مسودہ ایوان میں پیش نہیں کیا، اس لیے متحدہ مجلس عمل کے پاس استعفیٰ دینے کا اب کوئی جواز نہیں رہا، جبکہ مولانا فضل الرحمٰن کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ یہ منظور شدہ قانون علمائے کرام کی سفارشات والا بھی نہیں، اس پر مجلس عمل نے استعفوں کا اعلان کر دیا ہے۔ دیکھیں اس کو عملی جامہ کب اور کیسے پہنایا جاتا ہے؟

دوسری طرف وفاقی وزیر ڈاکٹر شیر افگن نے کہا ہے کہ متحدہ مجلس عمل کو اپنے اعلان کے مطابق اب اسمبلیوں سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی ایک اخبار میں پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کے استعفے کی خبر بھی شائع ہوئی ہے۔ خبر کے مطابق چودھری صاحب نے یہ کہتے ہوئے قومی اسمبلی کے سپیکر کو اپنا استعفیٰ پیش کیا ہے کہ اگر اس بل میں کوئی بات قرآن و سنت کے منافی ہے تو وہ اپنا استعفیٰ پیش کرتے ہیں، لیکن سپیکر نے یہ کہہ کر ان کا استعفیٰ چودھری صاحب کو واپس کر دیا ہے کہ جب اس کی ضرورت پیش آئی، تب وہ اسے پیش کریں۔

یہ تو اس بل کے حوالے سے سیاسی کشمکش کا پہلو ہے، جو حکمران جماعت اور ایم ایم اے کے درمیان جاری ہے اور دو چار روز تک اس کی حتمی صورت سامنے آ جائے گی۔ مگر سیاسی کشمکش سے ہٹ کر ہم علمی اور فنی پہلوؤں کے حوالے سے قومی اسمبلی کے منظور کردہ بل کا ابتدائی جائزہ پیش کر رہے ہیں اور چونکہ اس وقت اس کا مکمل متن ہمارے سامنے نہیں، اس لیے ہم صدر جنرل پرویز مشرف کے اس خطاب کو اس جائزے کی بنیاد بنا رہے ہیں، جو انہوں نے اس بل کی منظوری کے بعد قوم سے کیا ہے اور جس میں انہوں نے پوری قوم کو اس بل کی منظوری پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے تحفظِ حقوقِ نسواں بل کے اہم پہلوؤں کی وضاحت کی ہے۔

صدر محترم کا کہنا ہے کہ ہم نے حدود آرڈیننس کے باقی حصوں کو نہیں چھیڑا، بلکہ صرف زنا سے متعلقہ قانون کی اصلاح کی ہے اور حدود آرڈیننس کے باقی چار قوانین بدستور باقی رہیں گے۔ ہماری گزارش بھی اس حوالے سے یہی تھی کہ تحفظ حقوقِ نسواں بل میں صرف زنا سے متعلقہ قوانین اور دفعات کا تذکرہ ہے، اس لیے اسے ”تحفظِ حقوقِ نسواں“ سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے، اسے کوئی اور نام دے دیا جائے یا اس میں عورتوں کے ان حقوق و مسائل کا بھی تذکرہ کیا جائے، جو ہمارے معاشرے میں عورتوں کو معروضی طور پر درپیش ہیں۔ کیونکہ صرف زنا سے متعلقہ قوانین کو حقوق کے عنوان کے تحت پیش کرنے سے یہ تصور ابھرتا ہے کہ شاید زنا کا تعلق بھی حقوق سے ہے، حالانکہ اسلامی قوانین کی رو سے زنا حقوق کی فہرست میں نہیں، بلکہ جرائم کی فہرست میں شمار ہوتا ہے۔ البتہ مغرب کے قانون و فلسفہ حیات میں زنا اور ہم جنس پرستی کا تذکرہ حقوق کے ضمن میں ہوتا ہے، اس لیے بادی النظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس بل کے ذریعے زنا کو حقوق کے عنوان سے متعارف کرایا جا رہا ہے اور یہ مغرب کے فلسفہ و قانون کے حق میں لوگوں کے ذہنوں کو ہموار کرنے کی ایک کوشش دکھائی دیتی ہے۔

سلیکٹ کمیٹی کے مسودے میں زنا بالجبر اور زنا بالرضا میں فرق کیا گیا تھا اور زنا بالجبر کو حدود کے دائرے سے نکال کر تعزیری جرم بنا دیا گیا تھا، جس پر علمائے کرام نے اعتراض کیا تھا کہ قرآن و سنت میں حد کے نفاذ کے حوالے سے زنا بالجبر اور زنا بالرضا میں کوئی فرق نہیں ہے اور شرعی ثبوت فراہم ہونے کی صورت میں دونوں پر حد کی سزا نافذ ہو گی۔ اسلامی شریعت میں صرف اتنا فرق ہے کہ زنا بالرضا میں دونوں فریق شرعی حد کے مستوجب ہوں گے، مگر زنا بالجبر میں جبر کرنے والے پر حد لگے گی اور مجبور کیا جانے والا بری کر دیا جائے گا، لیکن سزا دونوں صورتوں میں حد ہی کی ہو گی، جو شادی شدہ ہونے کی صورت میں سنگسار کرنے اور غیر شادی شدہ ہونے کی صورت میں سو کوڑے لگانے کی ہے۔

علماء کی خصوصی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات میں اس بات سے اتفاق کر لیا گیا تھا اور طے پا گیا تھا کہ زنا بالرضا کی طرح زنا بالجبر کی صورت میں بھی شرعی ثبوت فراہم ہونے پر حد شرعی ہی کی سزا نافذ ہو گی۔ اس پر خصوصی علماء کمیٹی کے سات ارکان کے ساتھ چودھری شجاعت حسین، چودھری پرویز الٰہی اور قومی اسمبلی کی اس مسئلے پر قائم کی جانے والی سلیکٹ کمیٹی کے سربراہ سردار نصر اللہ دریشک کے دستخط بھی موجود ہیں۔

لیکن صدر جنرل پرویز مشرف کے مذکورہ خطاب سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ اس اتفاق رائے کو مسترد کرتے ہوئے زنا بالجبر کو حدود کے دائرے میں شامل نہیں کیا گیا، بلکہ زنا بالرضا کو بھی حد کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ اس خطاب میں صدر محترم کا کہنا یہ ہے کہ

”زنا بالرضا کے معاملے میں چار گواہوں کی شرط ختم کر دی گئی ہے اور ماہرینِ قانون اور پاکستان مسلم لیگ کے ارکان اسمبلی نے غور و خوض کے بعد ۴۹۶بی کی دفعہ متعارف کرائی ہے، جس کے تحت زنا بالرضا پر پانچ سال سزا ہو سکتی ہے۔“

اگر نئے قانون کی عملی شکل واقعی یہی ہے جو صدر محترم نے بیان فرمائی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زنا بالرضا کی صورت میں بھی حد شرعی کی سزا ختم کر کے پانچ سال قید کی تعزیری سزا نافذ کر دی گئی ہے، جس کے بعد زنا کی وہ سزا جو قرآن و سنت میں بیان ہوئی ہے اور چودہ سو سالہ اجماعی تعامل کی صورت میں پوری امت اسے زنا کی شرعی سزا سمجھتی آ رہی ہے کہ زنا کے مجرم کو شادی شدہ ہونے کی صورت میں سنگسار کیا جائے اور غیر شادی شدہ ہونے کی صورت میں سو کوڑے لگائے جائیں، اسے نئے مسودہ قانون میں مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے اور زنا بالجبر اور زنا بالرضا دونوں کو حدود سے نکال کر تعزیری قوانین بنا دیا گیا ہے۔

خصوصی علماء کمیٹی کے ساتھ جس دوسری بڑی بات پر اتفاق ہوا تھا اور مذکورہ بالا تینوں حضرات نے اس پر بھی دستخط کیے تھے، یہ تھی کہ سلیکٹ کمیٹی کے مسودے میں زنا بالرضا کی صورت میں مکمل ثبوت فراہم ہونے پر شرعی سزا کو برقرار رکھا ہے (جسے اب ختم کر دیا گیا ہے)، مگر حد کے درجے کا ثبوت مہیا نہ ہونے پر اس سے نچلے درجے کا جرم اسی کیس میں عدالت کے رو برو ثابت ہو جانے پر جو تعزیری سزائیں حدود آرڈیننس میں رکھی گئی تھیں، وہ سلیکٹ کمیٹی نے ختم کر دی ہیں، جو درست نہیں ہے۔ ان تعزیری سزاؤں کو دوبارہ شامل کیا جائے اور اس پر اتفاق رائے سے یہ طے پایا تھا کہ ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے فحاشی کے انسداد کے عنوان سے ایک نئی دفعہ بل میں شامل کی جائے گی۔

مگر صدر محترم کے خطاب اور اس حوالے سے سامنے آنے والی دیگر اخباری رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شق نئے مسودے میں شامل نہیں کی گئی۔ اس کا نقصان کیا ہو گا؟ اس کی بہت سی صورتوں میں سے صرف ایک کا تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ مغرب میں نوجوان لڑکا لڑکی نکاح کے بغیر اکٹھے رہتے ہیں اور ان کے درمیان ہر طرح کے تعلقات ہوتے ہیں اور اب تو یہ رجحان اس قدر بڑھ گیا ہے کہ خود مغربی دانش ور اس سے پریشان ہیں اور پوپ بینی ڈکٹ نے باقاعدہ لوگوں سے اپیل کی ہے کہ اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے، مگر اب تحفظ حقوقِ نسواں بل کے اس مسودے کے منظور ہو جانے اور قانون کی حیثیت اختیار کر جانے کے بعد اس عمل کو پاکستان میں بھی قانونی تحفظ حاصل ہو جائے گا۔ کیونکہ اگر کوئی مرد اور عورت شادی کے بغیر اکٹھے رہتے ہیں تو جب تک ان کے زنا کا باقاعدہ ثبوت فراہم نہیں ہو گا، انہیں اس عمل سے روکنے کے لیے کوئی قانون باقی نہیں رہا اور اب ملک میں کسی جوڑے کو شادی کے بغیر اکٹھے رہنے سے نہیں روکا جا سکے گا، بلکہ اس جرم کی نشاندہی کرنے والے کو الٹا قذف کی سزا بھگتنا پڑے گی۔ اس صورت میں اس مکروہ عمل کو مغرب سے بھی زیادہ مضبوط قانونی شیلٹر مہیا ہو جائے گا۔

صدر محترم نے اس بل کی منظوری پر خوشی کے اظہار کے ساتھ ملک میں اعتدال پسندوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بقول ان کے انتہا پسندوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور انہیں بتا دیں کہ اب ملک میں انتہا پسندوں کی نہیں چلے گی۔ اس کا مطلب ہماری سمجھ میں یہی آیا ہے کہ صدر صاحب اعلان فرما رہے ہیں کہ اب قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح اور کسی چیز کو اسلام کے مطابق یا خلاف قرار دینے میں علماء کی رائے کو قبول نہیں کیا جائے گا، بلکہ حکمران طبقہ اور ان کے ہمنوا دانشور جو تعبیر و تشریح کریں گے، اسی کو قرآن و سنت کی منشا قرار دے کر ملک میں بطور قانون نافذ کر دیا جائے گا۔

ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ صدر محترم کی اس خواہش کے پیچھے عزم اور خواہش کی کتنی ہی طاقت موجود کیوں نہ ہو، پاکستانی معاشرے کے زمینی حقائق اس کا ساتھ نہیں دیتے اور اس سلسلے میں صدر محترم اور ان کے ہمنواؤں کی خدمت میں صرف ایک مثال پیش کرنا کافی ہو گا کہ ان سے پہلے صدر جنرل محمد ایوب خان مرحوم نے اپنے دورِ جبر میں خواتین ہی کے حوالے سے ایک قانون ”مسلم فیملی لاء آرڈیننس“ نافذ کیا تھا۔ اس کی بعض شقوں پر ایک عالمِ دین حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ نے اختلاف کرتے ہوئے آرڈیننس کی غیر اسلامی شقوں کی نشاندہی کی تھی، مگر ان کے اختلاف کو نظر انداز کرتے ہوئے آرڈیننس نافذ کر دیا گیا تھا۔ اس واقعہ کو چالیس برس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، عائلی قوانین کی جن دفعات کو مولانا احتشام الحق تھانویؒ نے قرآن و سنت کے منافی قرار دیا تھا، ان دفعات کے حوالے سے قوم آج بھی علماء کے ساتھ ہے اور قانون و حکومت کی طاقت کے مسلسل استعمال کے باوجود وہ دفعات لوگوں کے لیے قابلِ قبول نہیں ہیں۔ صدر جنرل پرویز مشرف اگر اس سے زیادہ کوئی توقع قوم سے رکھتے ہیں تو انہیں اس معاملے میں نظر ثانی کر لینی چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter