میاں محمد نواز شریف اور اسلام کی تشریح کا حق

   
جنوری ۱۹۹۷ء

روزنامہ جنگ لاہور ۲۰ دسمبر ۱۹۹۶ء کی ایک خبر کے مطابق پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے اپنی جماعت کے انتخابی امیدواروں کے ایک کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سیاسی اسلامی ٹھیکیداروں کے اسلام کے حق میں نہیں، کیونکہ ان کے نزدیک اسلام کا نفاذ مخلوق کی خدمت ہے، نہ کہ وہ اسلام جس کی تشریح اس کے نام نہاد ٹھیکیدار کرتے ہیں۔

اسلام کی تشریح کرنے والے روایتی دینی حلقوں کو ٹھیکیدار قرار دے کر اسلام کی تشریح کا حق خود اپنے لیے الاٹ کر لینا، اور پھر مخلوقِ خدا کی خدمت کے پر فریب نعرے کی آڑ میں اسلامی نظام کے باقی شعبوں کو پس پشت ڈال دینا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بلکہ یہ چند مخصوص اصطلاحات ہیں جو قیامِ پاکستان کے بعد سے وہ حلقے مسلسل استعمال کرتے آ رہے ہیں جو اسلام کو بطور اجتماعی نظام قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، لیکن ان میں اسلام سے انکار کا حوصلہ اور اخلاقی جرأت بھی نہیں، اس لیے وہ اسلام کا انکار کرنے کی بجائے اس کی تشریح کا حق خود حاصل کر کے اپنے تصورات اور پروگرام پر اسلام کا لیبل چسپاں کر دینا چاہتے ہیں۔

میاں نواز شریف خود ایک مذہبی گھرانے کے فرد ہیں اور نماز روزے کے پابند سمجھے جاتے ہیں، لیکن ان کی بعض مجبوریاں ہیں جنہوں نے انہیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے، مثلاً

  1. ایک مجبوری یہ ہے کہ وہ مسلم لیگ کے سربراہ ہیں اور مسلم لیگ کا ابتدا سے ہی اسلام کے بارے میں یہ طرزِ عمل چلا آتا ہے کہ اسلام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال تو کیا جائے لیکن عملی زندگی میں اسلام کا کوئی حکم ان کے ہاتھوں نافذ نہ ہونے پائے۔
  2. دوسری مجبوری یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف صاحب موصوف اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں پارلیمنٹ سے یہ بل پاس کرا چکے ہیں کہ ملک کا سیاسی نظام اور حکومتی ڈھانچہ قرآن و سنت کی راہنمائی سے مستثنیٰ ہو گا۔
  3. اور تیسری مجبوری یہ ہے کہ اقتدار کی لائن میں لگے رہنے کے لیے امریکہ کی خوشنودی ضروری ہے۔ اور وہ امریکہ کو خوش کرنے کے لیے یہ اعلان کر چکے ہیں کہ انہیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی تمام شرائط منظور ہیں جن میں سودی معیشت کو بہرحال برقرار رکھنے کی شرط بھی شامل ہے۔

اس پس منظر میں میاں صاحب موصوف کا مذکورہ بالا ارشاد ہمارے خیال میں ان کی سیاسی مجبوریوں کا ترجمان ہے۔ لیکن ہم میاں صاحب سے عرض کرنا چاہیں گے کہ ان گھسی پٹی باتوں کو دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اسلام کی تشریح اور قرآن و سنت کی تعبیر کے بارے میں مسلمان عوام ہمیشہ سے انہی لوگوں، حلقوں اور اداروں پر اعتماد کرتے چلے آ رہے ہیں جو قرآن و سنت کی تعلیمات سے بہرہ ور اور دینی علوم کی خدمت و اشاعت کے نظام سے وابستہ ہیں۔ ان پر ٹھیکیداری کی پھبتی کس کر انہیں اس خدمت اور اعتماد سے نہ پہلے محروم کیا جا سکا ہے اور نہ ہی آئندہ اس قسم کی کوئی نعرہ بازی اس پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter