تعارف ادیان و مذاہب: چند ضروری تقاضے

   
تاریخ: 
جون ۲۰۱۷ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہمارے ہاں ”تقابل ادیان“ کے عنوان سے مختلف مدارس اور مراکز میں کورسز ہوتے ہیں جن میں ادیان و مذاہب کے درمیان چند اعتقادی اختلافات پر مباحثہ و مناظرہ کی تربیت دی جاتی ہے، جو اپنے مقاصد کے اعتبار سے انتہائی ضروری ہے اور اس کی افادیت سے انکار نہیں ہے۔ مگر میری طالب علمانہ رائے میں یہ اس وسیع تر موضوع کے لحاظ سے انتہائی محدود اور جزوی سا دائرہ ہے جبکہ اس عنوان پر اس سے کہیں زیادہ وسیع تناظر میں گفتگو کی ضرورت ہوتی ہے۔

تقابلِ ادیان سے پہلے تعارفِ ادیان

اس سلسلہ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ تقابل سے پہلے تعارف ضروری امر ہے کہ جس گروہ سے آپ اختلاف کر رہے ہیں اس کا کم از کم اجمالی تعارف تو آپ کے سامنے ہو کہ:

  • اس کا آغاز کب ہوا تھا اور اس کی مختصر تاریخ کیا ہے؟
  • آپ کے ساتھ اس گروہ کے اختلافات کا بنیادی دائرہ کیا ہے؟
  • بڑے بڑے مختلف فیہ مسائل کون سے ہیں؟
  • اس گروہ کے ساتھ آپ کے سماجی اور معاشرتی تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟
  • اور اعتقادی اختلافات سے ہٹ کر آپ دونوں کے درمیان سیاسی، معاشرتی اور سماجی تنازعات کیا ہیں؟

اس مجموعی تناظر سے آگاہی کے بغیر چند اختلافی مسائل پر مباحثہ کرنا مناظرے کے ماحول میں تو یقینا فائدہ مند ہوتا ہے، لیکن آج کے عالمگیر ماحول میں اس گروہ کے صحیح معاشرتی مقام کی پہچان اور اس کے ساتھ معاملات و تنازعات کے تعین میں اس سے کوئی راہنمائی نہیں ملتی۔ مثلاً مسیحیت کے بارے میں دیکھ لیجئے کہ اس مذہب کے ساتھ اعتقادی مباحث میں (۱) توحید یا تثلیث (۲) کفارہ (۳) ابنیت مسیح (۴) حضرت عیسٰی علیہ السلام کا زندہ آسمانوں پر اٹھایا جانا وغیرہ مسائل یقینا اہمیت رکھتے ہیں لیکن عملی معاملات میں اس سے کہیں زیادہ اہم امور یہ ہیں کہ:

  • جناب نبی اکرمؐاور صحابہ کرامؓ کے دور میں مسیحی مسلم تعلقات کی نوعیت کیا تھی؟
  • رومیوں کے ساتھ مسلمانوں کی جنگوں کا تناظر کیا تھا؟
  • صلیبی جنگوں کا مقصد اور نتیجہ کیا تھا؟
  • خلافتِ عثمانیہ اور صلیبیوں کی کشمکش کا ماحول کیا تھا؟
  • بہت سے مسلمان ممالک پر چند مسیحی ممالک نے نوآبادیاتی قبضہ کیسے کر لیا تھا؟
  • مسلمانوں کے علوم و معارف کو تشکیک کا نشانہ بنانے کے لیے استشراق کی علمی و فکری تحریک کے اہداف و نتائج کیا تھے؟
  • اور اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں اور مسیحیت کے باہمی تعلقات و تنازعات کی صورتحال کیا ہے؟ وغیر ذلک۔

اعتقادی مباحث تو مسیحی دنیا نے ایک عرصہ سے ترک کر رکھے ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کے مقابلہ میں بہت سے دیگر ذرائع اور اسباب اختیار کیے ہوئے ہیں جو ہمارے تعلیمی موضوعات سے ہی خارج ہیں۔ یہی صورتحال یہودیت، ہندوازم، سکھ مت اور بدھ مت کے بارے میں بھی ہے۔ یہ وہ مذاہب ہیں جو آج کی موجود دنیا میں ہمارے معاصر ہیں اور ان کے ساتھ دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کو ہر وقت مسائل درپیش رہتے ہیں۔

مسلمانوں کے داخلی مذاہب

اسی طرح مسلمانوں کے داخلی مذاہب کا معاملہ بھی ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان کہلانے والی تقریباً دو ارب کے لگ بھگ آبادی کو جس گروہ بندی کا سامنا ہے، اور جن حصوں بخروں میں وہ اس وقت نہ صرف تقسیم بلکہ باہم برسرِ پیکار ہے اس کے پورے تناظر میں ہم اگر کہیں بات کرتے بھی ہیں تو وہ چند اعتقادی مباحث تک محدود ہوتی ہے۔ مجھے اس کی اہمیت و ضرورت سے کسی درجہ میں بھی انکار نہیں ہے لیکن یہ صرف ایک جزوی سا پہلو ہے جو ناکافی ہے۔ یہاں میں مثال کے لیے قادیانیت کا حوالہ دوں گا کہ ان کے ساتھ ہمارے اعتقادی مباحث میں (۱) ختم نبوت یا اجرائے نبوت (۲) رفع و نزول عیسیٰ علیہ السلام (۳) صدق و کذب مرزا جیسے مسائل یقینا بنیادی اور مرکزی نوعیت کے ہیں جن کا علماء و طلبہ کو پڑھانا ضروری ہے، لیکن:

  • قادیانی گروہ کا تعارف و پس منظر،
  • اس کے دو گروہوں میں فرق،
  • تحریکِ آزادی میں اس گروہ کا کردار،
  • پاکستان کے قیام اور تقسیمِ پنجاب میں اس کا کردار،
  • بین الاقوامی اداروں میں اس کی اسلام اور پاکستان کے خلاف مسلسل سرگرمیاں،
  • اور عالمی سطح پر اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ اس کا اشتراکِ عمل وغیرہ

بھی کم اہمیت کے امور نہیں ہیں جن کی طرف ہماری توجہ نہیں ہے۔ حالانکہ اس حوالے سے نہ صرف قادیانیت بلکہ ختم نبوت کا انکار کرنے والے دیگر معاصر گروہوں مثلاً بہائیت، ذکری مذہب اور نیشن آف اسلام وغیرہ سے بھی اسی درجہ کی آگاہی ضروری ہے۔

اختلاف کے مسلّمہ آداب

تیسرے نمبر پر میں توجہ دلانا چاہوں گا کہ اختلافات پر بحث و مباحثہ میں اختلافات کی درجہ بندی اور اختلاف کے مسلّمہ آداب کا ہمارے ہاں عام طور پر لحاظ نہیں رکھا جاتا۔

  • بعض اختلافات کفر و اسلام کے ہوتے ہیں مثلاً مسیحیت، یہودیت، ہندو ازم، سکھ مت، قادیانیت، بہائیت، نیشن آف اسلام وغیرہ۔
  • بعض اختلافات حق و باطل کے ہیں مثلاً خوارج، روافض، معتزلہ وغیرہ کے ساتھ، جن کا دائرہ پہلے دائرے سے یقینا مختلف ہے۔
  • بعض اختلافات خطا و صواب کے ہیں جیسا کہ احناف، شوافع، حنابلہ، مالکیہ اور ظواہر کے فقہی اختلافات، ان کا درجہ محض صواب و خطا کا ہے اور حق و باطل کے معرکہ کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
  • اس سے نیچے اختلافات کا ایک بہت بڑا دائرہ اولیٰ اور غیر اولیٰ کا ہے جسے صواب و خطا میں تقسیم کرنا بھی درست نہیں ہوتا۔

لیکن ہمارے مناظرانہ مباحث میں یہ سب دائرے اس طرح خلط ملط ہو گئے ہیں کہ بسا اوقات اولیٰ غیر اولیٰ کے مسائل میں ہم حق و باطل کے لہجے میں بات کر رہے ہوتے ہیں، اور خطا و صواب کا معرکہ تو کبھی کبھی کفر و اسلام کی باقاعدہ جنگ بن جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ان معاملات میں بے احتیاطی اور لاپروائی کے ایسے معاملات سامنے آتے ہیں کہ میرے جیسے کمزور لوگوں کو ایمان خطرے میں محسوس ہونے لگتا ہے۔ ایک بڑے خطیب صاحب جووفات پا چکے ہیں، اللہ ان کی مغفرت فرمائیں، آمین۔ وہ ایک بار کسی عوامی جلسہ میں مادہئ تولید کے پاک یا ناپاک ہونے کے اختلافی مسئلے پر اپنے مخالف فریق کے وہ لتے لے رہے تھے کہ ان کے قریب بیٹھے مجھے شرم آرہی تھی۔ انہوں نے ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں لتاڑنے کی خوب مہارت دکھائی۔ جلسہ سے فارغ ہونے پر جب کھانے کے لیے بیٹھے تو میں نے پوچھ لیا کہ حضرت! منی کے پاک ہونے کا یہ موقف، جسے آپ نے موضوع بحث بنایا ہوا تھا، متقدمین میں سے بھی کسی کا ہے؟ فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ یہ حضرت امام شافعیؒ، حضرت امام احمد بن حنبلؒ اور حضرت امام سفیان ثوریؒ کا موقف ہے۔ اس پر وہ چونکے۔ میں نے گزارش کی کہ کسی فقہی مسئلہ پر طعن و تشنیع کا توپ خانہ گاڑتے وقت یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ اس کا رخ کدھر ہے؟

ایسے مسائل میں خاص طور پر اساتذہ سے ہماری گزارش ہوتی ہے کہ اختلافات سکھاتے وقت ادب الاختلاف بھی پڑھایا کریں تاکہ ہمارے نوجوان علماء کو معلوم ہو کہ کس سے کس درجہ میں اختلاف کرنا ہے اور کس لہجے میں کرنا ہے۔ ”ادب الاختلاف“ پر متقدمین اور متاخرین علماء نے بہت کچھ لکھا ہے جسے باقاعدہ پڑھنے اور پڑھانے کی ضرورت ہے۔ جبکہ اس سلسلہ میں دو سال قبل کراچی کے ایک فاضل دوست ڈاکٹر سید عزیر الرحمان نے ماہنامہ ”تعمیر افکار“ کا پونے چھ سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل ضخیم نمبر شائع کیا ہے جو مسلکی اور فقہی اختلافات کی حدود و قیود اور آداب کے تقریباً تمام اہم پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ میرے خیال میں اعتقادی اور فقہی علوم پڑھانے والے اور ان مباحث کی تربیت دینے والے تمام مدرسین اور اساتذہ کو لازماً یہ رسالہ پڑھنا چاہیے جسے زوار اکیڈمی پبلیکیشنز، اے ۸۱/۴ ناظم آباد ۴ کراچی سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

زمانے کے ماحول سے واقفیت

اس وقت انسانی سوسائٹی میں ہمیں کن مذاہب، کن مسالک اور کن افکار سے واسطہ ہے؟ سوسائٹی تو گلوبل ہوتی جا رہی ہے اور مشرق، مغرب، شمال، جنوب میں کوئی فرق نہیں رہا، نہ معلومات کے حوالے سے اور نہ رابطوں کے حوالے سے۔ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس زمانے کی نشاندہی کی تھی ”یتقارب الزمان“ یہ آپؐ کی پیشین گوئیوں میں ہے جو آپؐ نے قیامت کی نشانیوں میں بیان فرمائی تھی کہ زمانے ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے، جس کا آسان ترجمہ ہم کیا کرتے ہیں کہ فاصلے سمٹ جائیں گے۔ آج کے دور میں زمینی فاصلے بھی اور زمانی فاصلے بھی سمٹ گئے ہیں اور مزید سمٹتے جا رہے ہیں۔ پہلے اونٹوں کا سفر ہوتا تھا، اب جہازوں کا ہوتا ہے۔ پہلے پیغام، خط و کتابت کے ذریعے پہنچایا جاتا تھا، اب واٹس اپ کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے اردگرد ماحول اور دنیا سے واقف ہونا چاہیے۔

قرآن کریم نے بھی یہی کیا تھا جب جناب نبی کریمؐ تشریف لائے اور مکہ مکرمہ میں آپؐ کی ایک جماعت بنی تو قرآن کریم کا اسلوب یہی رہا ہے کہ جزیرۃ العرب کے دائرے میں جن مذاہب سے عملی واسطہ تھا ان مذاہب کا بڑی تفصیل سے تعارف کروایا ہے۔ زیادہ تر مشرکین عرب تھے جو خود کو اسماعیلی یا قریشی کہتے تھے، ان کے اسلوب و عقائد، ان کی سماجی و تہذیبی روایات، ان کا خاندانی نظام، ان کا پورا سسٹم قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔ مدینہ منورہ جا کر یہودیوں سے واسطہ پیش آیا تو یہودیوں کا بھی قرآن کریم نے پورا تعارف کروایا ہے۔ ان کا پس منظر، ان کی تاریخ، ان کے عقائد اور ان کی گمراہیاں کھول کر بیان فرمائیں۔ تیسرے مسلمانوں کا واسطہ جزیرۃ العرب کے وسط میں تو نہیں ایک کونے میں نجران کے عیسائیوں سے تھا۔ نجران میں عیسائی بہت بڑی تعداد میں تھے اور بنو تغلب بھی عیسائی تھے۔ تو قرآن کریم نے عیسائیوں کا تعارف بھی کروایا ہے۔ تینوں حوالوں سے کہ ان کے عقائد کیا ہیں، ان کا تاریخی پس منظر کیا ہے، ان کی روایات و معمولات کیا ہیں، تہذیبی ماحول کیا ہے، اور چوتھے نمبر پر ان کی گمراہیاں بھی تفصیل سے بیان فرمائی ہیں۔

قرآن کریم کا اسلوب یہ بتا رہا ہے کہ اردگرد کے ماحول سے واقف ہونا چاہیے، خود عمل کرنے کے حوالے سے بھی اور تحریکات کے حوالے سے بھی۔ جزیرۃ العرب میں اس وقت سب سے کم واسطہ صابئین سے تھا لیکن قرآن کریم نے ان کا ذکر بھی کیا ہے، اگرچہ ان کی تفصیلات بیان نہیں کیں۔ اس تناظر میں ہر دور میں ضروری ہے کہ ہم اپنے ماحول سے واقف ہوں کہ جن مذاہب سے ہمیں سامنا ہے، ہمارا ان کا فرق کیا ہے؟ تنازعات کہاں ہیں؟ اتفاقات و اختلافات کہاں کہاں ہیں؟

ہمارے ہاں عام طور پر ایک مغالطہ ہے کہ ہم جب تقابلِ مذاہب کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ہاں چند مناظرانہ مسائل ہی تقابل مذاہب سمجھے جاتے ہیں۔ عیسائیوں سے بات ہوگی تو مناظرے کے دوچار مسائل موضوع بن جائیں گے اور اسی پر سارا وقت صرف ہو جائے گا۔ وہ ایک حصہ ہے لیکن کُل یہی کچھ نہیں ہے۔ یا مثلاً ہم قادیانیوں کی بات کریں گے تو چند مناظرانہ مسائل پر مباحثہ سمٹ کر رہ جاتا ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ بلکہ اس سے زیادہ ضروری ہے کہ ہم ان کے پس منظر سے واقف ہوں، تاریخ سے واقف ہوں، اور ان کا تعارف حاصل ہو۔

اس لیے میری ترتیب یہ ہوتی ہے کہ پہلے تعارف ادیان اور پھر تقابلِ ادیان، مناظرے کے طور پر نہیں بلکہ بریفنگ کے طور پر کہ ہمارا اور ان کا فرق کیا ہے۔ پہلے تعارف کہ یہ کون لوگ ہیں ان کی ابتدا کب ہوئی؟ یہ کہاں کہاں ہیں؟ کیا کر رہے ہیں؟ ہمارا ان سے فرق کیا ہے؟ اور یہ بات عرض کرتا ہوں کہ ان کے ساتھ اس وقت عالمی سوسائٹی میں ہمارے معاملات کی نوعیت کیا ہے، کہاں جھگڑا ہے، کہاں صلح ہے، کہاں ہم اکٹھے ہیں، کہاں الگ الگ ہیں، ہمارے عملی مسائل اس وقت کیا ہیں۔ یہ تین باتیں (۱) ان کا تعارف، (۲) ان کا مسلمانوں سے بنیادی معاملات کا فرق، (۳) اور تنازعات کی موجودہ صورتحال، (۴) مناظرہ چوتھے نمبر پر ہوتا ہے۔ میرا ذوق مناظرے کا نہیں ہے لیکن میں مناظرے مجادلے کی نفی نہیں کرتا، مناظرہ مجادلہ کیا جاتا ہے، کیا جانا چاہیے۔

مذاہب کی درجہ بندی

اس کے بعد مذاہب کی درجہ بندی بھی ضروری ہے۔ ہم جب تقابلِ مذاہب کی بات کرتے ہیں تو ہمارے نزدیک یہودی مسلم جھگڑا اور حنفی غیرمقلد جھگڑا ایک ہی لیول کا سمجھا جاتا ہے۔ ہمارا لہجہ دونوں جگہ ایک ہی سا ہوتا ہے، گفتگو کا انداز بھی ایک جیسا ہوتا ہے۔ درجہ بندی کے بغیر کسی مذہب سے بات کرنا بنیادی طور پر صحیح بات نہیں ہے۔ درجہ بندی کیا ہے؟ ایک درجہ بندی تو حضرت شاہ ولی اللہؒ نے کی ہے۔ شاہ صاحبؒ نے ”حجۃ اللہ البالغۃ“ میں درجہ بندی اس اسلوب سے بیان کی کہ (۱) ایک ہے مذاہب و ادیان عیسائی اور یہودی وغیرہ۔ (۲) شاہ صاحبؒ اہل اسلام میں درجہ بندی کرتے ہوئے اہل قبلہ کا دائرہ بناتے ہیں۔ اہل قبلہ میں قرآن کریم، جناب نبی کریمؐ، اور قبلہ کی بات کرنے والے سب کو شامل کرتے ہیں۔ ان میں اہل سنت تو ہیں ہی۔ مگر خوارج، معتزلہ، روافض اور کرامیہ جیسے اعتقادی فرقوں کو بھی اہل قبلہ میں شمار کرتے ہیں۔ (۳) تیسرے نمبر پر اہل سنت کے داخلی مذاہب، فقہاء کا دائرہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی وغیرہ۔ لیکن شاہ صاحبؒ کے زمانے میں بعض باتیں نہیں تھیں جو کہ اب ہو گئی ہیں۔ اس لیے میری ترتیب میں یہ ہوتا ہے کہ:

  1. سب سے پہلے تو ادیان و مذاہب، جو مستقل ہیں، مثلاً اس وقت آٹھ ارب کی آبادی میں ہم مسلمانوں کو مجموعی طور پر جن مذاہب سے واسطہ ہے ان میں یہودی، عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ مت اور مجوسی وغیرہ مستقل مذاہب ہیں۔
  2. اس کے بعد ہمیں واسطہ ہے منحرفین سے۔ یہ مستقل دائرہ بن گیا ہے منحرف مذاہب کا جیسے قادیانی، بہائی، نیشن آف اسلام، ذکری، رشادی وغیرہ جو نام اور ٹائٹل اسلام کا استعمال کرتے ہیں مگر نبوت و وحی کے نام پر نیا مذہب بنا لیا ہے۔ شاہ صاحبؒ کے زمانے میں یہ دائرہ نہیں تھا۔ یہ دونوں کفر و اسلام کے دائرے ہیں۔
  3. تیسرے نمبر پر جنہیں شاہ صاحبؒ اہل قبلہ کہتے ہیں جو نئی نبوت کی بات نہیں کرتے اور اسلام کی بنیادی باتوں کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن ان میں حق و باطل کا دائرہ ہے۔ ان میں اہل سنت اہل حق ہیں جبکہ خوارج، معتزلہ، روافض اہل باطل ہیں۔
  4. چوتھا دائرہ اہل سنت کے داخلی اختلافات کا ہے۔ اس دائرے میں تین ذیلی دائرے ہیں: ایک اعتقادی، دوسرا فقہی، تیسرا روحانی۔ ان تینوں کو الگ الگ سمجھنا ضروری ہے:
    1. اعتقادی تو یہ ہے کہ تمام اہل سنت کے عقائد تو ایک ہی ہیں البتہ تعبیرات میں فرق ہے۔ اس میں تین مستقل مکاتب ہیں: اشاعرہ، ماتریدیہ اور ظواہر۔ آج کے دور میں ظواہر کی جگہ سلفی یا اہل حدیث ہیں۔ ان میں کچھ متشددین ہیں اور کچھ معتدل، جو کہ ہر جگہ ہوتے ہیں۔
    2. دوسرا دائرہ فقہی احکام و مسائل کا ہے۔ احناف، شوافع، حنابلہ، مالکیہ، ظواہر۔ پانچ مکاتب فکر ہیں۔ پھر ایک خطا و صواب کا دائرہ ہے اور ایک اولیٰ و غیر اولیٰ کا دائرہ ہے۔
      • فقہاء کے آپس کے مسائل کی نوعیت خطا و صواب کی ہے۔ ہماری الجھن یہ ہے کہ ہم کسی وقت اولیٰ و غیر اولیٰ کے مسئلہ پر یا خطا و صواب کے مسئلہ پر بات کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہتھیار ہمارے پاس کفر و اسلام کے ہوتے ہیں۔ فقہاء (احناف، شوافع، حنابلہ، مالکیہ، ظواہر) کا آپس کا دائرہ خطا و صواب کا دائرہ ہے، حق و باطل کا دائرہ نہیں ہے۔ ہم مجتہد کے بارے میں اصولی بات یہ کرتے ہیں ”المجتھد یخطء و یصیب“۔ مثال کے طور پر ہم امام ابوحنیفہؒ کے مقلد ہیں ان کے فتوے کو دلیل پوچھے بغیر مانتے ہیں، لیکن یہ کہہ کر مانتے ہیں ”صواب یحتمل الخطاء“ اور اس کو حق و باطل کا عنوان نہیں دیں گے۔ حضرت امام شافعیؒ کے کسی فتویٰ کو ہم قبول نہیں کرتے تو یہ کہہ کر کہ ”خطاء یحتمل الصواب“ اور اس کو باطل نہیں کہیں گے۔
      • اس سے اگلا دائرہ اولیٰ و غیر اولیٰ کا ہے۔ ہمارے بیسیوں فقہی اختلافات اولیٰ و غیر اولیٰ پر جا کر منتج ہو جاتے ہیں۔ فقہی احکام میں بالخصوص ہم بعض اوقات بہت تشدد کر جاتے ہیں، ہمیں اپنے رویے پر غور کرنا ہوگا۔ میں حنفی ہوں اور الحمدللہ شعوری حنفی ہوں، متصلب حنفی ہوں، احناف کے دائرے کو سمجھتا بھی ہوں، پابندی بھی کرتا ہوں، عمل بھی کرتا ہوں، تلقین بھی کرتا ہوں۔ لیکن یہ عرض بھی کیا کرتا ہوں کہ حنفیت کے مجادلے میں صحیح ترجمان اور آئیڈیل امام طحاویؒ ہیں۔ حنفی اور غیر فقہی اختلاف کے اسلوب کو سمجھنے کے لیے میرے ذوق کے مطابق امام طحاویؒ سے بڑا کوئی آئیڈیل نہیں ہے۔ فقہی مجادلے میں امام طحاویؒ کی ”شرح معانی الآثار“ کی چند خصوصیات کا میں ذکر کیا کرتا ہوں، آپ نے اس کتاب کا کچھ حصہ پڑھا ہو گا، اس کے چند صفحات پر دوبارہ غور کریں۔ طحاوی کی تمہید کی تین چار سطروں میں انہوں نے ذکر کیا کہ فقہی مجادلے کی بنیاد انہوں نے کس پر رکھی ہے۔ امام طحاویؒ کہتے ہیں، احادیث مختلف ہیں۔ ایک ایک مسئلہ پر تین تین چار چار مختلف احادیث ملتی ہیں جس سے (۱) ملحدین غلط فائدہ اٹھاتے ہیں (۲) اور کمزور ایمان کے مسلمان شک کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ دو وجہیں بیان کی ہیں۔ امام طحاویؒ کہتے ہیں میں نے الحاد کو دور کرنے کے لیے اور مسلمانوں کے تذبذب کو رفع کرنے کے لیے یہ کتاب لکھی ہے۔ گویا فقہی مجادلہ کا بنیادی مقصد امام طحاویؒ کے ہاں اختلاف کو پھیلانا نہیں بلکہ سمیٹنا ہے، اور شکوک کو بڑھانا نہیں ہے بلکہ کم کرنا ہے۔ امام طحاویؒ نے یہ اسلوب اختیار کیا کہ ایک مسئلہ پر مثلاً تین اگر موقف ہیں تو تینوں کے دلائل الگ الگ بیان کریں گے۔ پہلے مخالفین کے دلائل بیان کریں گے، پوری دیانت داری سے بیان کریں گے، پھر اپنے نقطہ نظر سے اس میں کمزوری واضح کریں گے۔ پھر دوسرا موقف بیان کریں گے، ان کے دلائل بیان کریں گے، پھر اپنا موقف بیان کریں گے۔ پھر دلائل کا تقابل کریں گے۔ دلائل کے تقابل کی علمی بحث کے بعد اس کی درجہ بندی کریں گے کہ یہ ہمارے نزدیک جواز اور عدمِ جواز کا مسئلہ ہے، یا مکروہ اور غیر مکروہ کا مسئلہ ہے، یا اولیٰ اور غیرا ولیٰ کا مسئلہ ہے۔ اور جہاں اپنے دلائل میں کمزوری محسوس کریں گے وہاں اعتراف کریں گے کہ یہاں ہمارے دلائل کمزور ہیں۔
    3. اور تیسرا دائرہ روحانی ہے۔ صوفیاء کرام کا تزکیہ و اصلاح کا خانقاہی نظام بھی مسلم معاشرے کا حصہ چلا آ رہا ہے۔ ہمارے ہاں نقشبندی، قادری، چشتی اور سہروردی سلسلے روحانی تربیت کے حوالے سے مختلف مکاتب فکر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    چنانچہ اہل سنت کے داخلی دائروں میں اعتقادی تعبیرات کا مسئلہ ہو، یا فقہی احکام کا مسئلہ ہو، یا روحانی سلسلے کا آپس کا کوئی مسئلہ ہو، اس پر حق و باطل کی بات نہیں کریں گے بلکہ خطا و صواب کی بات کریں گے۔

2016ء سے
Flag Counter