جہاد افغانستان کے منطقی اثرات رفتہ رفتہ ظاہر ہو رہے ہیں کہ نہ صرف مشرقی یورپ نے روس کی بالادستی کا طوق گلے سے اتار پھینکا ہے بلکہ وسطی ایشیا کی ریاستیں بھی اپنی آزادی اور تشخص کی بحالی کے لیے قربانی اور جدوجہد کی شاہراہ پر گامزن ہو چکی ہیں اور فلسطین، کشمیر اور آذربائیجان کے حریت پسند مسلمان جذبۂ جہاد سے سرشار ہو کر ظلم و استبداد کی قوتوں کے خلاف صف آرا ہیں۔ جہاد کے اسی جذبہ سے کفر کی قوتیں خائف تھیں اور اسے مسلمانوں کے دلوں سے نکالنے کے لیے استعماری طاقتیں گزشتہ دو سو برس سے فکری، سیاسی اور تہذیبی سازشوں کے جال بن رہی تھیں لیکن اسلام کی زندہ و متحرک قوت اور جہاد کے ناقابل تسخیر جذبے نے افغانستان کی سنگلاخ وادیوں میں ایک ہی جھٹکے کے ساتھ اس سازش کا تار و پود بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ فلسطین میں انتفاضہ کی تحریک فلسطینی مسلمانوں میں آزادی کی تڑپ کے وجود کا احساس دلا رہی ہے، کشمیری حریت پسندوں کی مسلح جدوجہد نے دنیا کو بھولا بسرا مسئلہ کشمیر پھر سے یاد دلا دیا ہے اور آذربائیجان میں روسی ٹینکوں کا نشانہ بننے والے غیور مسلمانوں نے اپنے خون کے ساتھ تاریخ کی یہ حقیقت ایک بار رقم کر دی ہے کہ مسلمان کو اس غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ دیر کے لیے مغلوب تو کیا جا سکتا ہے لیکن اسے زیادہ دیر تک قابو میں رکھنا کسی بڑی سے بڑی طاقت کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔
حریت اور غیرت کے یہ شعلے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں مگر استبداد و استعمار کے علم بردار ان شعلوں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنا دامن بچانے کی فکر میں جہاد کی اس نئی عالمگیر لہر کے سرچشمہ ’’جہادِ افغانستان‘‘ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں اور واشنگٹن، ماسکو اور اسلام آباد جہادِ افغانستان کے منطقی اور نظریاتی نتائج کو روکنے کے لیے گٹھ جوڑ کر چکے ہیں لیکن یہ ان کی بھول اور تاریخ کے عمل سے بے خبری ہے۔ جہاد افغانستان کے منطقی اور نظریاتی اثرات پوری دنیا کو حصار میں لے رہے ہیں تو کابل کو مصنوعی سہاروں کے ساتھ ’’اثر پروف‘‘ رکھنا آخر کب تک ممکن ہوگا؟ماسکو، واشنگٹن اور اسلام آباد کو اس حقیقت کا بالآخر ادراک کرنا ہوگا کیونکہ اب اس کے سوا اور کوئی راستہ باقی نہیں رہ گیا۔