مسئلہ قادیانیت کے تین پہلو

   
مجلس صوت القرآن، لاہور
۱۵ اپریل ۲۰۱۲ء

۲۱ اپریل کو شالامار چوک لاہور میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام ’’ختمِ نبوت کانفرنس‘‘ منعقد ہو رہی ہے جس میں مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام اور دینی و سیاسی رہنما خطاب کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس سلسلہ میں لاہور کے مختلف حصوں میں کانفرنس کی تیاری کے لیے علاقائی سطح پر اجتماعات منعقد ہو رہے ہیں۔ ۱۵ اپریل کو سبزہ زار اسکیم کے بلاک ایل میں سابق ایم این اے چودھری محمد ارشاد ڈوگر کی رہائش گاہ کے وسیع لان میں مجلس صوت القرآن کے زیر اہتمام ایک اجتماع منعقد ہوا جس میں راقم الحروف کو عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت اور اس کے لیے جدوجہد کی ضرورت کے موضوع پر کچھ معروضات پیش کرنے کے لیے کہا گیا، اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے:

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مجھے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے حوالے سے کچھ عرض کرنے کے لیے کہا گیا ہے، اس کے دو پہلو ہیں: ایک یہ کہ اسلام میں عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت اور مسلمانوں کے اس سلسلہ میں جذبات و احساسات کا دلائل اور تاریخ کے تناظر میں ذکر کیا جائے۔ اور دوسرا یہ کہ آج کے دور میں عقیدۂ ختم نبوت کے بارے میں اس عقیدہ کے منکرین کی طرف سے جو چیلنج درپیش ہے اسے واضح کیا جائے اور مسلمانوں کو اس کی طرف توجہ دلائی جائے۔ میں آج کی گفتگو میں اس دوسرے پہلو پر چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔

جنوبی ایشیا کے کسی حصہ میں عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے اس پہلو پر جب بات ہوتی ہے تو قادیانیت کا تذکرہ لازمی سمجھا جاتا ہے کیونکہ گزشتہ کم و بیش سوا سو برس سے قادیانیت ہی کو عقیدۂ ختم نبوت سے انکار کے عنوان سے پہچانا جاتا ہے اور اسی کے ساتھ علمائے اسلام اور دینی جماعتوں کی کشمکش جاری ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام نے متفقہ طور پر انہیں اور ان کے پیروکاروں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا اور اعلان کیا کہ نئی نبوت کے دعویٰ کے ساتھ وجود میں آنے والے اس گروہ کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ مسلمانوں کے اس اجتماعی موقف کو پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے ۱۹۷۴ء میں دستوری ترمیم کے ذریعے ملک کے دستور کا حصہ بنا دیا اور مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکاروں کو ملکی دستور و قانون کی رو سے غیر مسلم اقلیتوں میں شامل کر دیا۔ جبکہ قادیانیوں نے اس فیصلے کو قبول کرنے سے نہ صرف انکار کر رکھا ہے بلکہ دنیا بھر میں وہ پاکستانی پارلیمنٹ کے اس متفقہ اور جمہوری فیصلے کے خلاف لابنگ اور پروپیگنڈا کے ذریعے مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسے منسوخ کرانے کے لیے ہر سطح پر اپنا پورا زور لگا رہے ہیں۔

میں اس تناظر میں مناسب سمجھتا ہوں کہ قادیانیت کے مسئلہ پر مختصر گفتگو کروں تاکہ جو لوگ واقف نہیں ہیں انہیں اس مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ ہو جائے۔ مسئلہ قادیانیت کے تین پہلو ہیں۔ ایک علمی و دینی، دوسرا سماجی اور تیسرا سیاسی۔ جبکہ قادیانیت کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ان تینوں پہلوؤں کو سامنے رکھنا ضروری ہے:

  1. مذہبی، علمی اور دینی پہلو تو یہ ہے کہ قادیانیت کے آغاز اور مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی میں ہی حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ اور حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ جیسے اکابر اہلِ علم نے اس کا نوٹس لیا اور دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ مکاتب فکر کے تمام علماء نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا اعلان کیا۔ جبکہ عوامی سطح پر امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور دیگر علمائے کرام نے اس سلسلہ میں عوامی بیداری کی مہم چلائی۔ علمائے برصغیر کا یہ فتویٰ اور فیصلہ صرف ان کا نہیں ہے بلکہ پوری دنیائے اسلام کے تمام دینی مکاتب فکر اور علمی مراکز کا متفقہ فیصلہ ہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کا کوئی بھی مسلمہ مذہبی حلقہ ایسا موجود نہیں ہے جو اس فیصلے سے اتفاق نہ رکھتا ہو اور اس کی کھلے بندوں تصدیق اور تائید نہ کرتا ہو۔ قادیانیوں نے یہ کہہ کر اس فیصلہ کی اہمیت کو ہر دور میں کم کرنے کی کوشش کی ہے کہ مختلف مکاتب فکر ایک دوسرے کو بھی کافر کہتے ہیں اور ایسے فتووں کی کوئی اہمیت نہیں۔ لیکن ہر موقع پر مسلمان مکاتب فکر کے علمائے کرام نے باہم مل کر اس کی دوٹوک وضاحت کی ہے کہ ان کے آپس کے فتووں کی نوعیت مختلف ہے اور قادیانیوں کے خلاف ان سب کا متفقہ فتویٰ بالکل مختلف نوعیت کا ہے جو پوری امت مسلمہ کے متفقہ اور اجماعی فیصلے کی حیثیت رکھتا ہے جس سے انکار کی کسی کے لیے گنجائش نہیں ہے۔
  2. مسئلہ کا دوسرا پہلو سماجی ہے جس کی طرف مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے توجہ دلائی اور پھر دلائل کے ساتھ اس کو پوری طرح واضح کیا کہ نئی نبوت کا ٹائٹل امت کو تقسیم کرنے کا باعث ہوتا ہے، اس لیے کہ نبی کسی بھی مذہب میں آخری اتھارٹی ہوتا ہے اور نبی کے بدل جانے سے مذہب بدل جایا کرتا ہے۔ اس کی تھوڑی سی وضاحت میں کرنا چاہوں گا کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور توراۃ پر ایمان رکھنے والے یہودی کہلاتے ہیں، لیکن ان دونوں پر ایمان رکھنے کے باوجود حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور انجیل پر ایمان لانے والے یہودی کہلانے کے حقدار نہیں ہیں بلکہ ایک الگ اور نئے مذہب ’’مسیحیت‘‘ کے پیروکار تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اور جس طرح حضرت موسٰیؑ، حضرت عیسٰیؑ، توراۃ اور انجیل سب پر ایمان رکھنے کے باوجود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم پر ایمان لانے والے نہ یہودی تسلیم کیے جاتے ہیں اور نہ ہی مسیحی کہلانے کے حقدار ہیں، بلکہ ایک نئے مذہب کو قبول کرنے کے باعث مسلمان کہلاتے ہیں۔

    چنانچہ اسی طرح حضرت محمدؐ اور قرآن کریم پر ایمان کا دعویٰ رکھنے کے باوجود قادیانی حضرات بزعم خود ایک نئے نبی مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کی نئی وحی پر ایمان لانے کی وجہ سے مسلمان کہلانے کے حقدار نہیں ہیں اور ان کی حیثیت ایک نئے اور الگ مذہب کے پیروکار کی ہے۔ اسی لیے ان سے مطالبہ کیا جا رہا ہےکہ جس طرح عیسائیوں نے یہودیوں سے الگ تشخص اختیار کیا ہے، اسی طرح وہ بھی مسلمانوں سے الگ تشخص اختیار کریں اور اپنے مذہب کا نام اور اس کی علامات کو مسلمانوں کے مذہبی شعائر سے الگ کریں۔ کیونکہ الگ اور نیا مذہب رکھتے ہوئے مسلمانوں کا ٹائٹل اور اسلام کے مخصوص مذہبی شعائر کو استعمال کرنے سے اشتباہ پیدا ہوتا ہے اور اس سے مسلمانوں کا اپنے مذہبی تشخص کی حفاظت کا حق مجروح ہوتا ہے۔

    علامہ محمد اقبالؒ نے برطانوی دورِ حکومت میں مطالبہ کیا تھا کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے ایک الگ مذہب کا پیروکار شمار کیا جائے اور غیر مسلم اقلیت کا درجہ دے کر ان کا معاشرتی تشخص مسلمانوں سے الگ کیا جائے۔ علامہ محمد اقبالؒ کی اسی تجویز کی بنیاد پر ۱۹۷۴ء میں پاکستانی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا متفقہ اور جمہوری فیصلہ صادر کیا تھا۔

  3. مسئلہ کا تیسرا پہلو سیاسی ہے اور اس کی طرف بھی سب سے پہلے علامہ محمد اقبالؒ نے ہی توجہ دلائی تھی۔ انہوں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ’’قادیانیت یہودیت کا چربہ ہے‘‘۔ اس کی وضاحت میں اگر مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے ان ریمارکس کو دیکھ لیا جائے تو بات پوری طرح سمجھ میں آجاتی ہے، جس کا تذکرہ بھٹو مرحوم کے قید کے ایام میں ان کی نگرانی کرنے والے فوجی افسر کرنل رفیع نے اپنی یادداشتوں میں کیا ہے کہ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے کہا کہ قادیانی گروہ پاکستان میں وہی حیثیت حاصل کرنے کے درپے ہے جو امریکہ میں یہودیوں کو حاصل ہے کہ ملک کی کوئی پالیسی ان کی مرضی کے بغیر طے نہ ہو۔ امریکہ اور یورپ میں یہودیوں کی دخل اندازی بلکہ مغرب کی پالیسیوں پر ان کے کنٹرول کو اقبالؒ ہی نے یوں تعبیر کیا تھا کہ:
    فرنگی کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے

    آج دنیا کا ہر باشعور شخص اس سے آگاہ ہے کہ امریکہ میں سیاست، معیشت اور میڈیا تینوں پر یہودیوں کا کنٹرول ہے اور تھنک ٹینکس بھی انہی کے زیر اثر ہیں، اس لیے امریکہ کی قومی اور بین الاقوامی پالیسیوں پر ان کی اجارہ داری ہے۔ حالانکہ امریکی آبادی میں یہودیوں کا تناسب بمشکل ایک فیصد ہوگا۔ بھٹو مرحوم نے اس حقیقت کو بجا طور پر سمجھا تھا اور اس کی نشاندہی کی کہ پاکستان میں یہی پوزیشن حاصل کرنے کے لیے قادیانیوں کی شروع سے کوشش جاری ہے اور آج بھی وہ عالمی استعمار کی پشت پناہی کے ساتھ اس کے لیے منظم طریقے سے کام کر رہے ہیں۔

اس لیے میں تمام مسلمانوں سے یہ گزارش کروں گا کہ وہ اس معروضی صورتحال کا اچھی طرح ادراک کریں کہ قادیانیت کا مسئلہ مذہبی، علمی اور دینی ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی اور سیاسی مسئلہ بھی ہے اور اس سے امت مسلمہ کی وحدت، پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کو مسلسل خطرات درپیش ہیں۔ بالخصوص آج کے اس عالمی تناظر میں بہت زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کہ قادیانیوں کو عالمی سیکولر لابیوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے اور پاکستان کے اندر قادیانیوں کے عزائم کو کامیاب بنانے کے لیے بین الاقوامی سطح پر منظم مہم چلائی جا رہی ہے، اس لیے عقیدۂ ختم نبوت اور قادیانیوں کے بارے میں دستور پاکستان کے فیصلے کا مسلسل پہرہ دینے کی ضرورت ہے اور یہ صرف علمائے کرام کی نہیں بلکہ امت کے تمام طبقات کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

(روزنامہ پاکستان، لاہور ۔ ۲۱ اپریل ۲۰۱۲ء)
2016ء سے
Flag Counter