تحریک تحفظ ختم نبوت کا ایک اہم سوال

   
۴ دسمبر ۲۰۱۷ء

گزشتہ دنوں ڈسکہ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ”ختم نبوت کانفرنس“ سے خطاب کا موقع ملا، جس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ عقیدہ ختم نبوت مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے، جس کا تعلق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اور ان کے مقام و عظمت سے ہے۔ اس لیے دنیا کا ہر مسلمان اس کے حوالے سے بہت حساس اور جذبہ حمیت سے سرشار ہے اور اس میں کسی قسم کی لچک اس کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔

عقیدہ ختم نبوت پر گفتگو کے مختلف دائرے ہیں:

  1. ایک دائرہ اعتقادی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر نبوت اور وحی مکمل ہو چکی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت و رسالت کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ اس لیے کسی کو نبوت ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے اور جس نے بھی اس کے بعد اب تک نبوت کا دعویٰ کیا یا آئندہ کرے گا وہ جھوٹا ہے اور وہ اور اس کے ماننے والے دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ علماء کرام نے ہر دور میں اس عقیدے پر بحث کی ہے، دلائل دیے ہیں اور جھوٹے مدعیان نبوت کے دلائل کا جواب دیا ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے جب نبوت کا دعویٰ کیا اور اپنی نبوت کے حق میں دلائل دینے کی کوشش کی تو حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ، حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ اور امیر شریعت حضرت عطاء اللہ شاہ بخاریؒ جیسے اکابر علماء کرام نے اس کا جواب دیا اور علمی دلائل کے ساتھ عقیدہ ختم نبوت کو ایک بار پھر دنیا کے سامنے واضح کیا۔
  2. اس کا ایک دائرہ تاریخی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور نبوت کے جھوٹے دعوے کے ساتھ مختلف گروہ کھڑے کیے، ان کے ساتھ امت نے کیا معاملہ کیا اور انہوں نے اپنے جھوٹ کے فروغ کے لیے کیا کیا جتن کیے، ان کو بیان کیا جائے۔ بہت سے علماء کرام نے اس موضوع پر کام کیا اور ایسے سیکڑوں افراد کے حالات و واقعات سے امت کو آگاہ کیا۔ جن میں مولانا ابو القاسم محمد رفیق دلاوری کی تصنیف ”ائمہ تلبیس“ بہت جامع کتاب ہے، جو دو جلدوں میں ہے، اردو میں ہے اور اس میں سیکڑوں جھوٹے مدعیانِ نبوت کو بے نقاب کیا گیا ہے۔
  3. تیسرا دائرہ سماجی اور معاشرتی ہے کہ جھوٹے مدعیان نبوت اور ان کے پیروکار مسلمانوں کے ساتھ ایک سوسائٹی میں رہتے ہیں تو ان کا معاشرتی درجہ کیا ہے اور ان کے ساتھ مسلمانوں کے معاملات کی نوعیت کیا ہے؟ اس پر شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے سب سے زیادہ توجہ دی اور اس بات کو واضح کیا کہ نئی نبوت اور وحی کے ساتھ ایک مذہب اختیار کرنے والوں کا مسلمانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، وہ ملت اسلامیہ کا حصہ نہیں ہیں اور معاشرتی طور پر ان کا شمار مسلمانوں سے الگ کیا جانا ضروری ہے۔

    مسلمانوں کے اپنے دورِ اقتدار اور مسلم حکومتوں کے ادوار میں تو یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوا تھا، اس لیے کہ خلفاء کرام خود ایسے لوگوں کے بارے میں فیصلے کی اتھارٹی رکھتے تھے اور حضرت صدیق اکبرؓ سے لے کر ہر دور میں اسلامی خلفاء نے فیصلے صادر کر کے ایسے گروہوں کے معاملات طے کر دیے تھے، لیکن مرزا غلام احمد قادیانی نے برطانوی حکومت کے دور میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام نے اسے دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا تھا۔ لیکن چونکہ دستوری اور قانونی طور پر ان کی معاشرتی حیثیت کا فیصلہ حکومتِ وقت نے کرنا تھا، اس لیے علامہ محمد اقبالؒ نے حکومت برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکاروں کو مسلمانوں کے ساتھ شمار کرنے کی بجائے انہیں مسلمانوں سے الگ ایک غیر مسلم کمیونٹی کا درجہ دیا جائے۔ اس پر اس وقت کے ایک بڑے قومی لیڈر پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ علامہ محمد اقبالؒ کی تفصیلی خط و کتابت بھی ہوئی تھی، جو مطبوعہ صورت میں موجود ہے اور جدید تعلیم یافتہ حضرات کے لیے قادیانیت کو سمجھنے کی غرض سے وہ بہت مفید دستاویز ہے۔

    علامہ محمد اقبالؒ کے اسی موقف پر قیامِ پاکستان کے بعد مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام نے اپنے اس متفقہ موقف کی بنیاد رکھی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں قادیانیوں کو دیگر غیر مسلم اقلیتوں کی طرح ایک غیر مسلم اقلیت کا درجہ دے کر اس کے مطابق ان کو ملک کا شہری تسلیم کر لیا جائے اور انہیں شہری حقوق دے دیے جائیں۔

  4. جبکہ قادیانیوں کے حوالے سے گفتگو کا چوتھا دائرہ سیاسی ہے کہ ایک مسلمان ریاست میں ان کے سیاسی اور شہری حقوق کیا ہیں؟ اور آج کے دور میں بین الاقوامی اداروں اور انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی لابیوں میں یہی پہلو سب سے زیادہ زیرِ بحث ہے۔ ۱۹۷۴ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا تو اگرچہ یہ منتخب پارلیمنٹ اور قوم کا متفقہ فیصلہ تھا، مگر قادیانیوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کو ماننے کی وجہ سے مسلمانوں سے الگ تو ہیں، لیکن مسلمانوں سے الگ شمار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ دنیا بھر کے ان مسلمانوں کو جو مرزا غلام احمد قادیانی پر ایمان نہیں لاتے، غیر مسلم قرار دیتے ہیں اور خود مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں۔ گویا ان کا موقف یہ ہے کہ انہیں تو مسلمان سمجھا جائے، مگر ان کے مذہب میں شامل نہ ہونے والوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔

اس وجہ سے وہ مسلمان کہلانے اور اسلامی اصطلاحات و شعائر استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ خود کو مردم شماری اور ووٹروں کی لسٹوں میں مسلمان لکھوانے پر مسلسل بضد رہے، اس لیے ۱۹۸۴ء میں ایک اور قانون کے ذریعہ انہیں پابند کر دیا گیا کہ وہ اسلام کا نام اور مسلمانوں کی اصطلاحات استعمال نہیں کریں گے اور ایسا کرنے کی صورت میں انہیں قانون کی گرفت اور سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسے قادیانیوں نے اپنے شہری اور سیاسی حقوق کی پامالی قرار دے کر بین الاقوامی اداروں کا دروازہ کھٹکھٹایا اور واویلا کیا کہ پاکستان میں ان کے انسانی حقوق اور شہری آزادیاں ختم کر دی گئی ہیں۔

اس سلسلے میں ایک واقعاتی حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۸۴ء کے امتناع قادیانیت قانون کے بعد جب قادیانیوں نے جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن سے رجوع کیا اور حکومت پاکستان کے خلاف درخواست دائر کی تو حکومت پاکستان کی طرف سے اس درخواست کے جواب میں پاکستان کی پوزیشن کو واضح کرنا جنیوا میں متعین پاکستانی سفیر کی ذمہ داری تھی، جو سوء اتفاق سے اس وقت ایک قادیانی سفارت کار مسٹر منصور احمد تھے۔ یہ بات اس مرحلے میں ہمارے علم میں آ گئی تھی اور مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ مجھے ساتھ لے کر اس وقت کے ڈپٹی اٹارنی جنرل سید ریاض الحسن گیلانی صاحب سے ملے تھے اور ان کے مشورے سے وفاقی وزیر مذہبی امور راجہ محمد ظفر الحق سے مل کر درخواست کی تھی کہ جنیوا انسانی حقوق کمیشن میں قادیانیوں کی اس درخواست کا جواب دینے کے لیے حکومت پاکستان کی طرف سے علماء کرام اور قانونی ماہرین کا گروپ بھیجا جائے اور اسے جنیوا میں پاکستان کے قادیانی سفیر مسٹر منصور احمد کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔ راجہ صاحب محترم نے اس بات سے اتفاق کیا تھا، مگر ہم ابھی صلاح مشورے کے مرحلے میں تھے کہ جنیوا انسانی حقوق کمیشن نے قادیانیوں کی درخواست پر فیصلہ صادر کر دیا کہ پاکستان میں قادیانیوں کے انسانی اور شہری حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ چنانچہ انسانی حقوق کمیشن کا یہ فیصلہ اس وقت سے بین الاقوامی اداروں اور مغربی حکومتوں کے پاس قادیانیوں کے بارے میں حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک بڑا ہتھیار ہے، جسے قادیانی گروہ بڑی مہارت کے ساتھ استعمال کر رہا ہے۔

میں اس موقع پر یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم نے عوامی سطح پر قادیانی گروہ کے مکر و فریب کو بے نقاب کرنے کے لیے بہت محنت کی ہے، بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں، مناظرے ہوتے رہے ہیں اور خطابت کا بازار ہر دور میں گرم رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پارلیمنٹ اور عدلیہ میں بھی بہت منظم جدوجہد ہوئی ہے، جس کے مثبت نتائج ہمارے سامنے ہیں، مگر بین الاقوامی اداروں میں قادیانیوں کے مکر و دجل کو واضح کرنے اور مسلمانوں کا موقف دلیل و منطق کے ساتھ پیش کرنے کی طرف ہم نے توجہ نہیں دی اور اس سلسلے میں ہماری کارکردگی بالکل صفر ہے، جس کی وجہ سے بین الاقوامی میدان آج قادیانیوں کے ہاتھ میں ہے۔ ہم اس معاملے میں عالمی اداروں کے مسلسل دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں اور بین الاقوامی لابیوں کی طرف سے تحفظ ختم نبوت کے دستوری و قانونی فیصلوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ میرے نزدیک آج سب زیادہ ضرورت عالمی فورم پر اس مسئلے کو واضح کرنے کی ہے اور میں وکلاء برادری میں کھڑا ہو کر ان سے اس سلسلے میں پیش رفت کی درخواست کر رہا ہوں۔

اس کے ساتھ ہی ایک بات اور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں ڈسکہ میں کھڑا ہوں، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شہر سیالکوٹ، وزیر آباد اور گوجرانوالہ سے یکساں فاصلہ رکھتا ہے اور ان تینوں شہروں کا سنگم ہے، اس لیے قادیانیوں کے بارے میں سیالکوٹ کے علامہ اقبالؒ، وزیر آباد کے مولانا ظفر علی خانؒ اور گوجرانوالہ کے صاحبزادہ سید فیض الحسنؒ کا تذکرہ کروں گا، جنہوں نے اس محاذ پر قائدانہ کردار ادا کیا تھا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ آج کی تحریک ختم نبوت میں علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ، پیر سید مہر علی شاہ گولڑویؒ، مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ اور سید مظفر علی شمسی کی نمائندگی تو موجود ہے، مگر علامہ اقبالؒ اور مولانا ظفر علی خانؒ کی نمائندگی کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ بہت بڑا خلا ہے، جس کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔

چنانچہ ڈسکہ بار ایسوسی ایشن کی اس ”ختم نبوت کانفرنس“ میں حاضری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں یہ سوال اور تقاضا ڈسکہ کی وکلاء برادری کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی جدوجہد میں علامہ اقبالؒ اور مولانا ظفر علی خانؒ کی نمائندگی کون کرے گا؟ یہ سوال تحریک ختم نبوت کا ایک بڑا سوال ہے، امید ہے کہ ڈسکہ کی وکلاء برادری اس پر سنجیدگی سے غور کرے گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اپنا اپنا کردار صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter