دہشت گردی کے الزام کا بے نام وارنٹ

   
دسمبر ۲۰۰۱ء

روزنامہ جنگ لاہور ۲۱ نومبر ۲۰۰۱ء کے مطابق دولتِ قطر کے امیر شیخ حماد بن خلیفہ الثانی نے گزشتہ روز متحدہ عرب امارات کی مشاورتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی اور اپنے ملک کو آزاد کرانے کی جدوجہد کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں بلیک لسٹ کی جانے والی ’’حزب اللہ‘‘ اور دیگر تنظیمیں گیارہ ستمبر کی دہشت گردی میں ملوث نہیں تھیں، انہیں بلیک لسٹ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ انہوں نے دہشت گردی اور اسلام کے درمیان کسی تعلق کو بھی مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ عرب اور اسلامی ممالک نے اسی بنا پر یہ اصولی موقف اختیار کیا ہوا ہے کہ دہشت گردی اور اپنے ملک کو قبضے سے آزاد کرانے کے لیے عوام کی جانب سے کی جانے والی جدوجہد میں واضح فرق ہے۔ قطر کے امیر نے لبنانی تنظیم حزب اللہ اور اپنے ممالک کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی دیگر حریت پسند تنظیموں کو امریکہ کی جانب سے بلیک لسٹ کرنے کے اقدام کی مخالفت کی ہے۔

دوسری طرف امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے واشنگٹن میں فلپائنی صدر سے اپنی ملاقات میں انہیں پیشکش کی ہے کہ فلپائن کے مسلم اکثریتی علاقہ ’’مورو‘‘ کی آزادی کے لیے مسلح جنگ لڑنے والے ’’ابوسیاف گروپ‘‘ سے نمٹنے کے لیے امریکہ فلپائن کی حکومت سے تعاون کے لیے تیار ہے۔

اور بھارت میں امریکی سفیر رابرٹ بلیک ویل نے دہلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد صرف دہشت گرد ہوتے ہیں، انہیں مجاہدِ آزادی نہیں کہا جا سکتا۔ روزنامہ جنگ لاہور ۲۲ نومبر ۲۰۰۱ء کے مطابق امریکی سفیر نے واضح طور پر کہا کہ امریکہ اور بھارت کے خلاف دہشت گردی ختم ہونے تک جنگ جاری رہے گی اور کشمیری تنظیموں کے اثاثے منجمد کر دیے جائیں گے۔

گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد جب امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کر کے اس کے لیے متحدہ محاذ بنانے کا اعلان کیا تھا تو عالمی سطح پر مطالبہ کیا گیا تھا کہ پہلے دہشت گردی کی تعریف متعین کی جائے، اور دہشت گردی اور جدوجہدِ آزادی کے درمیان فرق کو واضح کیا جائے۔ امریکہ، اقوامِ متحدہ اور مغربی لیڈروں میں سے کسی نے اس مطالبہ کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ’’دہشت گردی‘‘ کی تعریف متعین کر کے اور آزادی کی تحریکات کو مستثنٰی کر کے خود کو محدود نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اور اس بات کو مبہم رکھ کر دہشت گردی کے الزام کا بے نام وارنٹ اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے تاکہ اس پر جس کا نام چاہے لکھ لیں اور اسے دہشت گرد قرار دے کر اس پر چڑھ دوڑیں۔ چنانچہ ان کی یہ حکمتِ عملی فلسطین، کشمیر اور مورو کے حوالے سے سامنے آ چکی ہے اور رفتہ رفتہ پورے عالمِ اسلام کی تحریکاتِ آزادی کے بارے میں ان کے عزائم کھلتے جا رہے ہیں۔

ہمارے خیال میں امیرِ قطر نے دہشت گردی اور جدوجہدِ آزادی میں فرق کے حوالے سے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے، اور عرب ممالک اور اسلامی ممالک کے جس موقف کا ذکر کیا ہے، اس کے اظہار کا وقت وہ تھا جب وہ امریکہ کے متحدہ محاذ میں شامل ہونے کا فیصلہ کر رہے تھے، اور اقوامِ متحدہ میں دہشت گردی کے خلاف امریکی کاروائی کو جواز کی سند دینے کی قرارداد کی حمایت کر رہے تھے۔ اس وقت اگر عرب ممالک اور مسلم ممالک اس موقف پر ڈٹ جاتے اور اس کے لیے عالمی سطح پر لابنگ کر کے اپنے موقف کو منوانے کی سنجیدہ محنت کرتے تو یہ بات منوائی جا سکتی تھی۔ مگر یہ موقع گنوا دینے کے بعد اب قطر کے امیر کو دہشت گردی اور جدوجہدِ آزادی کا فرق یاد آ رہا ہے، جبکہ اقوامِ متحدہ اور خود مسلم ممالک کی منظوری کے ساتھ ’’دہشت گردی کے الزام کا بے نام وارنٹ‘‘ امریکہ کے ہاتھ میں ہے اور اس پر نام درج کرنے کا تمام تر اختیار وائٹ ہاؤس کے پاس ہے، اس لیے

اب پچھتائے کیا ہوت
جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
   
2016ء سے
Flag Counter