گزشتہ روز اسلام آباد میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے عالمی سطح کے مذہبی راہنماؤں کا اجلاس ہوا جس میں صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے بھی شرکت کی۔ اس سیمینار کا اہتمام وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے راہنماؤں نے کیا اور اس میں پاکستان کے علاوہ بعض مغربی ممالک سے بھی مختلف مذاہب کے مذہبی پیشواؤں نے شرکت کی۔
صدر جنرل پرویز مشرف نے اس موقع پر اپنے روایتی موقف کا اظہار کیا اور مبینہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مذمت کرتے ہوئے دینی مدارس کو اجتماعی دھارے میں شامل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ جس پر اس سے قبل کئی بار ہم بات کر چکے ہیں کہ
- دہشت گردی اور انتہا پسندی کی کوئی تعریف یا معیار متعین کیے بغیر محض مغرب کے کہنے پر کچھ لوگوں کو دہشت گرد اور انتہاپسند قرار دے کر دباتے اور کچلتے چلے جانا، دراصل دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف جنگ نہیں بلکہ اس عنوان کی آڑ میں عالمِ اسلام کے دینی حلقوں کے خلاف مغرب کے ایجنڈے کی تکمیل ہے۔
- اور اسی طرح پاکستان کے دینی مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا مطلب انہیں ان کے جداگانہ دینی کردار اور امتیازی تعلیمی نظام سے محروم کرنا ہے جس کی موجودہ معروضی صورتحال میں کسی طرح بھی حمایت نہیں کی جا سکتی۔
البتہ مذکورہ سیمینار کے اصل موضوع کے حوالے سے ہم کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے خیال میں مختلف مذاہب کے دینی راہنماؤں کے درمیان رابطوں، اس کے لیے عالمی فورم کی تشکیل، اور مختلف سیمیناروں کے اہتمام کا تانا بانا دینی مدارس کے مختلف وفاقوں کے راہنماؤں کے ان دوروں کے دوران بنایا گیا ہے جس میں ہمارے وفاقوں کی قیادت نے امریکہ، جرمنی اور ناروے کے دانشوروں اور مذہبی راہنماؤں سے مختلف امور پر تبادلۂ خیالات کیا۔ اور اس موقع پر اس ضرورت کا احساس اجاگر ہوا کہ
- موجودہ عالمی کشمکش میں مذہب تشدد کے لیے استعمال ہو رہا ہے اس لیے مختلف مذاہب کے مذہبی راہنماؤں کو مل جل کر اس کی روک تھام کرنی چاہیے،
- اور مذہب کے اخلاقی اور مثبت پہلوؤں بالخصوص خدمتِ خلق اور انسانی حقوق کے حوالے سے مذہبی تعلیمات کو اجاگر کرنے کے لیے مشترکہ کوشش کرنی چاہیے۔
اسی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے مذہبی راہنماؤں کے مشترکہ عالمی فورم کی تشکیل مناسب سمجھی گئی ہے، اور اسی پس منظر میں اسلام آباد کے مذکورہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا ہے۔ ہمیں اس ایجنڈے کی ضرورت اور اہمیت سے انکار نہیں ہے کہ خدمتِ خلق، رفاہِ عامہ اور انسانی حقوق کے حوالے سے مذہبی تعلیمات کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، اور بحمد اللہ تعالیٰ اسلام کا دامن ان تعلیمات سے مالامال ہے۔ جبکہ اس بات میں بھی کلام کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اس امر کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آج کی عالمی کشمکش میں مذہب تشدد اور جبر کے لیے کس حد تک استعمال ہو رہا ہے؟ اگر ہو رہا ہے تو اس کے اسباب و عوامل کیا ہیں؟ اور ان کے سدباب کے لیے کیا طریق کار اختیار کرنا چاہیے۔
مگر ان سب باتوں سے اصولی طور پر اتفاق کے باوجود ہمارے نزدیک یہ ایجنڈا یکطرفہ اور ادھورا ہے، اور صرف مغرب کے اہداف اور مفادات کی نمائندگی کرتا ہے۔ جبکہ انسانی معاشرہ میں مذہب کے کردار کے حوالے سے اس سب کچھ کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے بھی زیادہ اس نکتہ پر بحث کی ضرورت ہے کہ انسانی سوسائٹی کے اجتماعی معاملات میں مذہب کے کردار کی نفی، اور مذہب کو صرف عقیدہ و عبادت اور اخلاقیات تک محدود کر دینے کے مغربی فکر و فلسفہ نے انسانی سوسائٹی پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟ اور انسانی آبادی کے ایک بڑے حصے کو اخلاقیات سے تہی دامن کر دینے کے ساتھ ساتھ خاندانی نظام کی تباہی میں اس مذہب بیزار فلسفہ نے کیا کردار ادا کیا ہے؟
ہمارے نزدیک یہ پہلو مذہبی راہنماؤں کے غور و خوض اور بحث و تمحیص کا سب سے زیادہ مستحق ہے، کیونکہ اگر مذہب کا انسانی سوسائٹی کی اجتماعیات سے کوئی تعلق ہے تو اجتماعیت کے تمام شعبوں میں اس کے کردار کی اہمیت موجود ہے۔ اور اگر انسانی اجتماعیات سے مذہب کا کوئی تعلق ہی تسلیم نہیں جا رہا تو پھر صرف انسانی حقوق کے مغربی تصورات، رفاہِ عامہ کے لیے مغربی سسٹم کے فروغ، اور عالمِ اسلام کے خلاف مغرب کی یلغار کے مذہبی ردعمل سے مغرب کو بچانے کے لیے مذہب کا استعمال، مذہب اور اس کی تعلیمات کے بدترین استحصال کے مترادف ہو گا۔
اس لیے اس سمت عملی پیشرفت کرنے والے مذہبی قائدین سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی ملاقاتوں، رابطوں اور بحث و مباحثہ میں مذہب کے غیر ضروری استعمال کے ساتھ ساتھ مذہب کے عدمِ استعمال کے نتائج و ثمرات کو بھی ایجنڈے میں شامل کریں۔ کیونکہ وہ اس صورت میں انسانی سوسائٹی کی موجودہ معروضی صورتحال میں مذہب کے صحیح کردار کا تعین کر سکیں گے۔