’’خلافتِ راشدہ اسٹڈی سنٹر‘‘ کے زیر اہتمام ہفتہ وار نشست سے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ کچھ عرصہ سے ہماری اس ہفتہ وار نشست میں ’’اسلام کا نظامِ خلافت‘‘ کے عنوان سے گفتگو چل رہی ہے۔ ان دنوں چونکہ ملک بھر میں خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مختلف قسم کے پروگرام ہو رہے ہیں اس لیے اسی سلسلہ میں چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔
حضرت صدیق اکبرؓ اسلامی تاریخ کے سب سے پہلے خلیفہ ہیں اور اس لحاظ سے سب سے بڑے آئیڈیل اور مثالی حکمران بھی ہیں، اس لیے ان کے دورِ خلافت کے چار پانچ پہلوؤں کا ذکر کروں گا:
- پہلی بات یہ کہ حضرت صدیق اکبرؓ کی خلافت کیسے قائم ہوئی تھی؟
- انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً اپنا جانشین نامزد نہیں کیا تھا۔ اشارات تو بہت موجود ہیں، مثلاً یہ کہ اپنی جگہ مسجد نبویؐ میں نمازیں پڑھانے کے لیے انہیں مقرر کیا تھا، مگر واضح طور پر خلافت کے لیے ان کی نامزدگی نہیں ہوئی تھی۔
- حضرت ابوبکرؓ نے خود خلافت کا دعوٰی نہیں کیا تھا بلکہ ایک مشاورتی اجتماع میں ان کا نام پیش کیا گیا تھا اور مجلس نے بحث و مباحثہ کے بعد ان پر اتفاق کر لیا تھا۔
- اسی طرح حضرت ابوبکرؓ نے اپنی خلافت اور حکومت کے لیے طاقت اور قبضہ کا راستہ بھی اختیار نہیں کیا تھا۔
اقتدار حاصل کرنے کے عام طور پر یہی تین طریقے اس دور میں معروف تھے، ان میں سے کوئی بھی استعمال نہیں ہوا تو اقتدار کیسے حاصل ہو گیا؟ سادہ سی بات ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کو یہ اقتدار امتِ مسلمہ کی اجتماعی صوابدید پر عمومی مشاورت کے نتیجے میں حاصل ہوا تھا اس لیے خلافت کے لیے ان کے انتخاب کی بنیاد یہی تھی۔
- دوسری بات یہ کہ حضرت صدیق اکبرؓ کی حکومت کا دائرہ کیا تھا؟
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو بخاری شریف کی روایت کے مطابق ’’بحیرہ‘‘ یعنی مدینہ منورہ کی ساحلی پٹی پر اس علاقہ کے مسلمان اور غیر مسلم قبائل کے ساتھ باہمی معاہدہ کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ریاست و حکومت قائم ہوئی تھی، جو آٹھ دس سال میں پورے جزیرۃ العرب تک پھیل گئی تھی اور اس میں بحرین، یمن، نجران اور نجد بھی شامل ہو چکے تھے۔
حضرت ابوبکرؓ نے اس پورے علاقہ کی حکومت سنبھالی تھی اور اس دائرہ میں جہاں بھی بغاوت ہوئی انہوں نے اپنی ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے جنگیں لڑیں جو مرتدین اور مدعیانِ نبوت کے خلاف جہاد کی صورت میں تھیں اور اس کے نتیجے میں اس پورے خطے میں حضرت ابوبکرؓ کی خلافت و حکومت کی رٹ بحال ہو گئی تھی۔
- تیسری بات یہ کہ حضرت صدیق اکبرؓ نے خلافت سنبھالتے ہی پہلی تقریر میں خلافت و حکومت کی نظریاتی بنیادوں کا اعلان فرما دیا تھا کہ ’’اقودکم بکتاب و سنۃ نبیہ‘‘ میں تمہیں کتاب و سنت کے مطابق چلاؤں گا۔ اور یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر کتاب و سنت کے مطابق حکومت کروں تو میری اطاعت تم پر واجب ہے اور اگر اس سے ہٹ جاؤں تو میری اطاعت تم پر واجب نہیں ہے۔ یعنی اسلامی ریاست میں حکومت اور شہریوں کے درمیان وفاداری اور کمٹمنٹ کی بنیاد قرآن و سنت ہے۔
اس کے ساتھ ہی ان کا طریق کار یہ تھا کہ کوئی مسئلہ درپیش ہونے پر قرآن کریم سے راہنمائی لیتے تھے، اگر قرآن کریم میں وضاحت نہیں ملی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد یا عمل یاد ہوتا تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے، اور اگر خود معلوم نہ ہوتا تو صحابہ کرامؓ سے پوچھتے تھے کہ اس مسئلہ کے حوالے سے کسی کو حضورؐ کا کوئی فیصلہ یا یا عمل یاد ہو تو وہ بیان کریں، پھر اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔ لیکن اگر قرآن و سنت میں کوئی حکم نہ ملتا تو پھر مشاورت کے ذریعے فیصلہ کرتے تھے۔ اس مشاورت کے دو دائرے ہیں۔ علمی مسائل اور علمی ماحول میں اہلِ علم کے ساتھ مشورہ ہوتا تھا، جبکہ عوامی امور میں تمام متعلقین کے ساتھ مشورہ کر کے فیصلہ فرماتے تھے۔ گویا حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کی نظریاتی اور دستوری بنیاد قرآن کریم ، سنتِ رسولؐ ، اور مشاورت کے تین اصولوں پر قائم تھی۔
- چوتھی بات یہ ہے کہ حضرت ابوبکر نے قرآن و سنت کے مطابق حکومت چلانے کا وعدہ کرتے ہوئے عوام کو یہ کہہ کر احتساب کا حق دیا تھا کہ ’’ان استقمت فاعینونی وان انا زغت فقمونی‘‘ اگر میں سیدھا چلوں تو میرا ساتھ دو اور اگر ٹیڑھا چلنے لگوں تو مجھے سیدھا کر دو۔ یہ ’’سیدھا کر دو‘‘ عوام کا حقِ احتساب ہے جو ہر شہری کو حاصل تھا اور خلافت کی ایک اہم بنیاد ہے جو نہ صرف خلیفہ اولؓ بلکہ خلفاء راشدینؓ کے دور میں اور بعد میں بھی موجود تھی اور اس کی بیسیوں مثالیں تاریخ کا حصہ ہیں۔
- جبکہ پانچویں بات یہ ہے کہ بیت المال سے وظائف کی تقسیم میں حضرت ابوبکرؓ نے منفرد اسلوب اختیار کیا تھا جو ان کے دورِ حکومت کا امتیاز ہے۔ بیت المال سے ضرورتمند اور مستحق شہریوں میں وظائف اور عطیات کی تقسیم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تو خود آپؐ کی صوابدید پر ہوتی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول اور تمام معاملات میں خود اتھارٹی تھے، مگر آپؐ کے وصال کے بعد اس سلسلہ میں کوئی ضابطہ طے کرنے کی ضرورت پیش آئی۔
امام ابو یوسفؒ نے ’’کتاب الخراج‘‘ میں بیان کیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اس سلسلہ میں صحابہ کرامؓ سے مشاورت کی تو حضرت عمرؓ کی رائے یہ تھی کہ بیت المال سے عطیات و وظائف کی تقسیم فضیلت کے درجات کے حساب سے ہونی چاہیے کہ ازواجِ مطہراتؓ، مہاجرینؓ، انصارؓ اور دیگر طبقات میں فضیلت کے جو درجات ہیں ان کے مطابق گریڈ سسٹم بنایا جائے اور وظائف و عطیات اس حساب سے دیے جائیں۔ مگر حضرت صدیق اکبرؓ نے اس رائے کو قبول نہیں کیا اور فرمایا کہ فضیلت کے درجات کا تعلق آخرت اور اجر و ثواب سے ہے ’’وھذہ معاش فالاسوۃ فیہ خیر من الاثرۃ‘‘ جبکہ یہ معیشت یعنی باہمی حقوق کا معاملہ ہے اس میں برابری ترجیح سے بہتر ہے۔ گویا خلیفہ اول سرکاری وسائل اور بیت المال سے وظائف و عطیات میں سب لوگوں کا حق برابر تسلیم کرتے تھے، چنانچہ انہوں نے اپنے دورِ خلافت میں سب کو برابری کی بنیاد پر وظیفے اور عطیات دیے اور کوئی درجہ بندی اور تفریق نہیں فرمائی تھی۔
اس طرح حضرت صدیق اکبرؓ کی خلافت سے ہمیں جو اصول ملتے ہیں وہ یہ ہیں کہ
- حکمرانی کا حق امت کی اجتماعی صوابدید سے ہو گا۔
- ریاست کی رٹ قائم کرنا اور اس کی سرحدوں کی حفاظت کرنا خلافت کی ذمہ داری ہے۔
- حکومت کا نظام قرآن و سنت اور مشاورت کی بنیاد پر چلایا جائے گا۔
- حکمرانوں اور حکومت کے احتساب کا عوام کو حق حاصل ہو گا، اور
- بیت المال اور ریاستی وسائل پر سب لوگوں کو برابر کا حق حاصل ہو گا اور کوئی طبقاتی یا گروہی ترجیح قائم نہیں کی جائے گی۔
خلافتِ صدیقیؓ کا یہ پانچ نکاتی دائرہ آج بھی امت مسلمہ کے لیے بلکہ پوری نسلِ انسانی کے لیے موجودہ بحرانوں سے نجات کے لیے راہنما راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے لیے مخلصانہ محنت کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔