مسلم خواتین کی شاندار علمی خدمات

   
۱۲ ستمبر تا ۱۵ ستمبر ۲۰۰۸ء

گزشتہ ماہ ملک کے مختلف شہروں کے دینی مدارس میں ختم بخاری شریف کے آخری سبق کے حوالہ سے منعقد ہونے والی تقریبات میں شرکت اور آخری حدیث پر گفتگو کا موقع ملا۔ عام طور پر تو بخاری شریف کی آخری حدیث کے بارے میں معروضات پیش کیں، البتہ طالبات کے مدارس میں ان کے نصاب کی آخری حدیث، جو کتاب النکاح کی آخری روایت ہے، کے حوالہ سے گفتگو ہوئی۔ طالبات میں کی جانے والی گفتگو کا خلاصہ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے، لیکن یہ کسی ایک مجلس کی گفتگو نہیں ہے، بلکہ اس میں کم و بیش ایک درجن سے زائد مجالس میں ہونے والی گفتگو کا خلاصہ یک جا کیا گیا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سب سے پہلے ان طالبات اور ان کے اساتذہ اور اہل خاندان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں جو آج بخاری شریف میں اپنے نصاب کی آخری حدیث پڑھ رہی ہیں۔ یہ ان کے دورۂ حدیث کا آخری سبق بھی ہے اور ان کے چار سالہ درس نظامی کے کورس کا آخری سبق بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں علمِ حدیث کا ذوق نصیب فرمائیں اور اس پر عمل کی توفیق کے ساتھ ساتھ اس کی خدمت کے مواقع سے بھی بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

وفاق المدارس العربیہ کی طرف سے طالبات کے لیے مقرر کردہ نصاب میں طالبات کے لیے بخاری شریف میں ان کے نصاب کی آخری حدیث کتاب النکاح کی آخری حدیث ہے، جو بچیوں کے سامنے پڑھوں گا اور اس کے بارے میں کچھ عرض بھی کروں گا، لیکن اس سے پہلے تمہید کے طور پر کچھ گزارشات کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

پہلی بات یہ کہ چونکہ طالبات نے بخاری شریف اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری کتابیں پڑھی ہیں، اس لیے ان سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ خواتین اور طالبات کا حدیث پڑھنا اور پڑھانا کوئی اجنبی معاملہ نہیں ہے، بلکہ ہمیشہ سے یہ ہماری روایت چلی آ رہی ہے کہ خواتین کا ہر دور میں احادیثِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و روایت میں حصہ رہا ہے اور خواتین کی ایک بڑی تعداد حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنے اور پڑھانے میں شریک رہی ہے۔ ہمارے ایک فاضل دوست مولانا ڈاکٹر محمد اکرم ندوی نے، جو آکسفورڈ میں اسلامک سنٹر کے ریسرچ فیلو ہیں، علمِ حدیث کے ساتھ شغف رکھنے والی خواتین کے حالات جمع کیے ہیں اور اسماء الرجال کی طرز پر ان پر کام کیا ہے۔ مجھے کم و بیش ہر سال ان کے پاس آکسفورڈ میں جانے کا موقع ملتا ہے، ان کی ضخیم کتاب ”الوفاء فی اخبار النساء “ کے نام سے مرتب ہو چکی ہے، جو کم و بیش پانچ پانچ سو صفحات کی چالیس جلدوں پر مشتمل ہے اور اس میں ابتداء سے اب تک آٹھ ہزار کے لگ بھگ ایسی خواتین کے حالات و تراجم جمع کیے گئے ہیں جنہوں نے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھی ہے اور پڑھائی ہے، اپنے اساتذہ سے حدیث کی روایت حاصل کی ہے اور آگے اپنے تلامذہ تک اسے منتقل کیا ہے۔ یہ کتاب بیروت کے ایک مطبع کی طرف سے شائع کی جا رہی ہے۔ اس لیے اگر امت میں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم روایت کرنے والے مردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے تو خواتین کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے اور علم حدیث کے ساتھ ہر دور میں خواتین کا بھی برابر شغف رہا ہے۔ حدیث پڑھنے والی بچیوں اور بیٹیوں کے حوصلہ اور تسلی کے لیے میں ان میں سے دو بزرگ خواتین کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔

امام مالک رحمہ اللہ امت کے بڑے محدثین، بڑے فقہاء اور ائمہ میں سے ہیں، امام اہل سنت، امام مدینہ اور امام دار الہجرۃ کے القاب سے انہیں یاد کیا جاتا ہے، اہل السنت کے چار بڑے اماموں میں ان کا شمار ہوتا ہے، انہوں نے سالہا سال مدینہ منورہ میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حدیث نبویؐ کا درس دیا ہے اور ہزاروں علماء، فقہاء اور محدثین نے ان سے فیض حاصل کیا ہے۔ ان کا طریقِ درس بھی یہی تھا جو آج کل ہمارے ہاں مروج ہے کہ استاذ محترم اپنی مسند پر تشریف فرما ہوتے تھے، شاگرد ان کے سامنے اپنی کتابیں یا کاپیاں لے کر بیٹھ جاتے تھے، شاگردوں میں سے کوئی صاحب حدیث پڑھتے تھے جسے استاذ اور باقی تلامذہ سماعت کرتے تھے۔ استاذ محترم نے اگر کسی بات کی وضاحت کرنی ہے یا حدیث سے متعلقہ کوئی مسئلہ بتاتا ہے یا کسی غلطی کی اصلاح کرنی ہے تو ارشاد فرماتے تھے، ورنہ ایک شاگرد کے پڑھنے اور استاذ سمیت باقی سب کے سن لینے سے روایت مکمل ہو جاتی تھی۔

اس سلسلہ میں قاضی عیاض رحمہ اللہ نے ”ترتیب المدارک “ میں ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سے ایک بڑے شاگرد ہشام بن عمار رحمہ اللہ کو، جو بعد میں امامِ دمشق اور محدثِ شام کہلائے، ایک بار شوق ہوا کہ کچھ روایات استاذ محترم کی زبان سے بھی سننی چاہئیں۔ چنانچہ ایک بار جب استاذ محترم نے معمول کے مطابق سبق کے دوران انہیں حدیث پڑھنے کے لیے کہا تو انہوں نے عرض کیا کہ استاذ محترم! آج آپ کی زبان سے حدیثیں سننے کو جی چاہتا ہے۔ استاذ محترم نے غصے سے کہا کہ ”اقرأ“ پڑھو تو شاگرد نے پھر وہی گزارش کی۔ استاذ نے تیسری بار پڑھنے کے لیے کہا تو ہشام بن عمار رحمہ اللہ نے پھر اپنی درخواست دہرا دی۔ حضرت امام مالک رحمہ اللہ نے غصے سے اپنے ایک اور شاگرد سے کہا کہ ہشام کو پندرہ چھڑیاں مارو، اس نے ہشام رحمہ اللہ کی پشت پر پندرہ چھڑیاں ٹکا دیں۔ ہشام بن عمار رحمہ اللہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ استاذ محترم! آپ نے مجھے بلاوجہ چھڑیاں مروائی ہیں، میں نے کوئی غلط مطالبہ نہیں کیا تھا، اس لیے آپ کے ساتھ ان چھڑیوں کا حساب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہو گا، امام مالک رحمہ اللہ یہ بات سن کر گھبرا گئے۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اچھے لوگ تھے قیامت کا نام سن کر ہی گھبرا جایا کرتے تھے، ہمارے سامنے سے قیامت کے مناظر گزر جاتے ہیں، مگر ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اپنے شاگرد ہشام بن عمار رحمہ اللہ سے کہا کہ بیٹا! غلطی ہو گئی ہے، معاف کر دو۔ ہشام رحمہ اللہ نے کہا حضرت! معافی کی کوئی صورت نہیں ہے، اب تو حساب اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہی ہو گا۔ امام مالک رحمہ اللہ اور زیادہ گھبرائے اور فرمایا کہ بیٹا! معافی کی کوئی صورت ہے؟ ہشام نے عرض کیا کہ استاذ محترم! معافی کی ایک ہی صورت ہے کہ جتنی چھڑیاں مروائی ہیں اتنی حدیثیں سنائیں اور تب معاملہ ختم ہوا۔ لگتا ہے کہ ہشام بن عمار رحمہ اللہ استاذ محترم کے مزاج شناس تھے اور جانتے تھے کہ امام مالک رحمہ اللہ اس کے سوا حدیث سنانے والے نہیں ہیں، اس لیے انہوں نے عمداً یہ طریق کار اختیار کیا، تاکہ استاذ محترم کو احادیث سنانے کے ساتھ ساتھ ان سے کچھ احادیث کی سماعت بھی ہو جائے۔

حضرت امام مالک رحمہ اللہ کی اس مجلس درسِ حدیث کے بارے میں تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ ان کی مسند کے ساتھ ایک پہلو میں پردہ لٹکا ہوتا تھا، جس کے پیچھے ایک خاتون بیٹھی ہوتی تھیں۔ استاذ محترم اپنی مسند پر آ کر بیٹھ جاتے اور طلبہ ان کے سامنے بیٹھ کر احادیث کی قرأت کرتے، کسی جگہ پڑھنے میں کوئی غلطی ہوتی، جو عام طور پر ناموں میں ہی ہوا کرتی تھی، تو استاذ محترم ٹوک دیتے اور اصلاح فرماتے۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا کہ شاگرد سے نام میں یا حدیث کے کسی لفظ میں غلطی ہو گئی ہے اور استاذ کی توجہ نہیں ہوئی، ایسے موقع پر یہ خاتون دیوار پر یا تپائی پر ہاتھ مار کر ”تصفیق“ کے انداز میں خبردار کرتی، جس پر استاذ محترم اپنے شاگرد سے فرماتے کہ ”أعد“ دوبارہ پڑھو، وہ دوبارہ پڑھتا اور استاذ محترم غلطی کی اصلاح فرما دیتے۔

یہ خاتون جو اس درجہ کی محدثہ تھی کہ شاگردوں کو تو چیک کرتی ہی تھی، استاذ محترم کو بھی چیک کرتی تھی، امام مالک رحمہ اللہ کی اپنی بیٹی تھی، جس نے حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے والد محترم سے اس درجہ کسبِ فیض کیا تھا کہ خود ان کے درس پر بھی نظر رکھتی تھی، تو میں حدیث پڑھنے والی اپنی بیٹیوں سے عرض کرتا ہوں کہ اچھے دور میں علم حدیث میں ہماری خواتین کا اس اعلیٰ درجہ کا ذوق اور شغف ہوا کرتا تھا۔

میں ایک اور بزرگ محدثہ خاتون کا بھی تذکرہ کرنا چاہتا ہوں، جو ہمارے زمانۂ قریب میں گزری ہیں۔ یہ حضرت شاہ عبد الغنی محدث دہلوی رحمہ اللہ کی بیٹی ہیں، جو ”الشیخہ امۃ اللہ محدثہ دھلویہ“ کے نام سے متعارف ہیں، اپنے والد محترم کے ساتھ ہجرت کر کے حجاز مقدس چلی گئی تھیں۔ حضرت شاہ عبد الغنی محدث دہلوی رحمہ اللہ کی بیٹی تھیں، ان کی شاگرد تھیں اور ان کے علوم کی وارث و امین بھی تھیں۔ ایک سو سال سے زیادہ عمر پائی ہے، تقریباً پون صدی حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا درس دیا اور پاکستان کے قیام سے تین سال قبل ۱۹۴۵ء میں ان کا حجاز مقدس میں انتقال ہوا۔ ان کی شاگردی کا فخر کے ساتھ ذکر کرنے والوں میں ہمارے حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ اور حضرت مولانا قاری محمد طیب رحمہ اللہ جیسے بزرگ شامل ہیں، جبکہ ایک موقع پر حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے معاصرین میں ان سے زیادہ بھی کسی کو احادیث یاد ہیں؟ تو فرمایا کہ حجاز مقدس میں ایک خاتون تھیں، جن کو ان سے بھی زیادہ حدیثیں یاد تھیں۔ میرا خیال ہے کہ حضرت درخواستیؒ کا اشارہ بھی اسی خاتون کی طرف تھا۔ ماہنامہ بینات کراچی نے حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کے بارے میں جو خصوصی نمبر شائع کیا ہے، اس میں الشیخہ امۃ اللہ محدثہ دہلویہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی اس سند کا عکس شائع کیا گیا ہے، جو انہوں نے حضرت بنوریؒ کو روایتِ حدیث کی اجازت کے طور پر مرحمت فرمائی تھی۔

دورِ اول اور زمانہ قریب کی ان دو عظیم محدثہ خواتین کا تذکرہ میں نے حدیث نبویؐ کی تعلیم حاصل کرنے والی بچیوں اور طالبات کو حوصلہ دلانے کے لیے کیا ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہیں کر رہیں جو ہماری روایت کا حصہ نہ ہو، بلکہ حدیث نبویؐ کے علم میں مردوں کے ساتھ ساتھ ہماری خواتین کا حصہ بھی ہمیشہ رہا ہے۔ بلکہ میں اس مناسبت ہے ایک اور واقعہ کا بھی تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ چند سال قبل حیدر آباد دکن (بھارت) کے ایک دارالعلوم نے چند فاضلات کو افتاء کا کورس کروا کے خاتون مفتیوں کا ایک پینل بنا دیا، تاکہ خواتین براہ راست ان سے مسائل دریافت کر لیا کریں، اس لیے کہ خواتین جس اعتماد اور وضاحت کے ساتھ خواتین سے مسائل دریافت کر سکتی ہیں، مردوں سے نہیں کر سکتیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی ایسا ہوتا تھا، خواتین آتی تھیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسائل پوچھتیں۔ لیکن بہت دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ وہ ازواج مطہراتؓ اور امہات المؤمنینؓ میں سے کسی سے مسئلہ دریافت کرتیں، انہیں خود معلوم ہوتا تو بتا دیتیں، ورنہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ کر بتا دیتیں۔

دارالعلوم حیدر آباد نے مفتی خواتین کے اس پینل کو انٹرنیٹ کی ایک ویب سائٹ بھی مہیا کر دی کہ وہ اس کے ذریعہ خواتین کی شرعی معاملات میں راہ نمائی کریں اور دو یا تین مفتیات کا یہ پینل دارالعلوم کے بڑے مفتی صاحب کی نگرانی میں خدمت سرانجام دے رہا ہے۔ اس پر امریکا کے ایک بڑے اخبار ”واشنگٹن ٹائمز“ نے ایک فیچر رپورٹ شائع کی، جس میں دارالعلوم کا تعارف کرایا، مفتیات کا تذکرہ کیا، ان کے بعض فتووں کا حوالہ دیا اور اس ساری تفصیل کے بعد اس پر یہ ریمارکس دیے کہ ”مسلمان عورتوں کے بارے میں اپنی روایت سے ہٹ رہے ہیں۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں میں عورتوں کی تعلیم اور ان کے استاد اور مفتی وغیرہ بننے کی روایت اس سے قبل نہیں تھی اور اب مسلمانوں نے اس روایت سے ہٹ کر عورتوں کو پڑھانا اور انہیں علمی ذمہ داریاں سونپنا شروع کر دیا اور یہ کہہ کر اس رپورٹ میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ”مسلمانوں نے عورتوں کے بارے میں مغرب کی پیروی اختیار کر لی۔“

میں نے اس کے جواب میں ایک تفصیلی مضمون لکھا۔ ہمارے مضامین کی ”واشنگٹن ٹائمز“ تک تو رسائی نہیں، لیکن بہرحال میں نے اس مضمون میں عرض کیا کہ یہ تاثر بالکل بے بنیاد اور خلافِ واقع ہے کہ مسلمانوں میں عورتوں کی تعلیم اور ان کی علمی خدمات کی روایت نہیں رہی۔ حضرات صحابہ کرامؓ کے دور میں خواتین فتوے دیتی رہی ہیں، حافظ ابن القیمؒ نے دورِ صحابہ کی خواتین مفتیات کا ”زاد المعاد“ میں ذکر کیا ہے اور ان کی تعداد تئیس بتائی۔ ان میں سب سے بڑی مفتیہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ تھیں، جو حدیثِ نبوی کے چھ بڑے راویوں اور صحابہؓ کے سات بڑے مجتہدین میں شمار ہوتی ہیں۔ وہ مجتہدہ تھیں، مفسرہ تھیں، فقیہہ تھیں اور محدثہ تھیں۔ وہ نہ صرف یہ کہ فتویٰ دیتی تھیں، بلکہ اپنے معاصر مفتیوں کے فتاویٰ پر نقد کرتی تھیں اور ان کے مقابل اپنا فتویٰ صادر کرتی تھیں، جو مانا جاتا تھا۔ امام سیوطیؒ نے ان مسائل پر ”الاصابۃ فی ما استدركت عائشۃ علی الصحابۃ“ کے نام سے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے، جس میں حضرت عائشہؓ نے اپنے معاصر صحابہ کرامؓ کے فتاویٰ پر نقد کیا اور حضرت مولانا سید سلیمان ندوی نے ”سیرتِ عائشہؓ“ کے نام سے جو کتاب لکھی ہے، اس میں امام سیوطیؒ کا یہ رسالہ اردو ترجمہ کے ساتھ موجود ہے۔

اس لیے ”واشنگٹن ٹائمز“ کی اس رپورٹ کے جواب میں میں نے عرض کیا کہ یہ بات درست نہیں ہے کہ مسلمان عورتوں کے بارے میں اپنی روایات سے منحرف ہو رہے ہیں، بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ مسلمان عورتوں کے بارے میں اپنی روایات کی طرف واپس جا رہے ہیں۔ کیوں کہ گزشتہ صدی کے دوران ہم اپنی کمزوریوں، وسائل کی کمی یا دیگر وجوہ کی بنا پر عورتوں کی تعلیم کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دے سکے اور اب طالبات کے مدارس قائم کر کے عورتوں کو قرآن، حدیث نبویؐ اور فقہ اسلامی کی تعلیم دے کر اپنی سابقہ روایات کی طرف واپس جا رہے ہیں۔

یہاں ضمناً ایک اور بات کا تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ کے بارے میں ان کے ایک معاصر اور فقیہ صحابی حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کا بھی ارشاد گرامی ان کے تذکرہ میں موجود ہے کہ ”ہم صحابہ کرام پر کبھی کوئی ایسی مشکل پیش نہیں آئی جس کے بارے میں حضرت عائشہؓ کے پاس علم اور راہ نمائی نہ ملی ہو۔“ یہ حضرت عائشہؓ کے علمی مرتبہ و مقام اور ان کی راہ نمائی کے منصب پر بہت بڑی شہادت ہے۔ جبکہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے بھانجے اور شاگرد حضرت عروہ بن زبیرؒ، جو ان کے علمی جانشینوں میں بھی شمار ہوتے ہیں، فرماتے ہیں کہ ”میں نے اپنے دور میں (۱) تفسیر قرآن کریم، (۲) حدیث نبویؐ، (۳) فرائض و میراث، (۴) شعر و ادب، (۵) تاریخ و انساب، (۶) طب اور خطابت میں حضرت عائشہؓ سے بڑا کوئی عالم نہیں دیکھا۔“

اس لیے مجھ سے جب کوئی صاحب پوچھتے ہیں کہ طالبات کے مدرسہ کا نصاب کیا ہونا چاہیے تو میں عرض کرتا ہوں کہ جو کچھ حضرت عائشہؓ نے درسگاہ نبویؐ سے پڑھا ہے، وہ عورتوں کا تعلیمی نصاب ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نو سال کی عمر میں حرمِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آئیں اور وہ اٹھارہ برس کی عمر میں تھیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا، اس کے بعد نصف صدی کے لگ بھگ ان کی درسگاہ آباد رہی اور انہوں نے امت کے ایک بڑے حصے کو پڑھایا اور اہلِ علم کی رہنمائی فرمائی۔ انہوں نے زندگی کا وہ دور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں گزارا جو پڑھنے کی عمر ہوتی ہے۔ اس لیے انہوں نے جو کچھ حاصل کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں حاصل کیا۔

یہاں بعض حضرات مغالطہ کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اتنی چھوٹی عمر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح کیسے ہو گیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف نو سال کی لڑکی کو زوجیت میں کیسے لے لیا ؟ اس پر مغربی دنیا کا اعتراض ہے اور مغرب کے بہت سے دانش ور اس حوالہ سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں منفی باتیں لکھ دیتے ہیں۔ مغرب کے اس اعتراض سے مرعوب ہو کر ہمارے بعض اصحابِ علم بھی شش و پنج میں پڑ جاتے ہیں اور دور از کار تاویلات کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نو سال کی عمر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی کی روایت درست نہیں ہے، مگر میری طالب علمانہ رائے میں اس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

1. اول تو اس لیے کہ اس بات کو اس دور کے عرف و تعامل اور کلچر کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ اگر اس دور میں عام طور پر صغیرہ کا نکاح ہوتا تھا تو اس حوالہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کا کوئی موقع نہیں ہے۔ ہم بہت سے معاملات میں صرف اس لیے الجھن میں پڑ جاتے ہیں کہ اس دور کے واقعات کو آج کے عرف و تعامل کے پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب بات سمجھ میں نہیں آتی ہے تو اپنی غلطی پر نظر ثانی کرنے کی بجائے روایات سے انکار اور ان کی دور از کار تاویلات کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔

2. دوسری گزارش یہ ہے کہ میری طالب علمانہ رائے میں یہ بات اللہ تعالیٰ کی تکوینی حکمتوں سے تعلق رکھتی ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کی تعلیم و روایت کا وہ بڑا حصہ، جو ذاتی اور خاندانی زندگی اور چار دیواری کے اندر کے ماحول سے تعلق رکھتا ہے، حاصل کرنے اور اسے امت تک منتقل کرنے کے لیے ایک ایسی خاتون کی ضرورت تھی جو تعلیم حاصل کرنے کی عمر میں ہو اور اس نے کہیں اور سے کچھ بھی حاصل نہ کیا ہو۔ اس مقصد کے لیے نئی اور خالی کیسٹ یا سی ڈی درکار تھی، تاکہ تعلیم و تعلم کی صحیح عمر میں کسی اور ملاوٹ کے بغیر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور تعلیمات کو محفوظ کیا جا سکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم کے لیے اسی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا انتخاب کیا اور ان سے یہ خدمت لی۔

اس مقصد کے لیے جہاں ضروری تھا کہ تعلیم و تعلم کی عمر ہو اور کیسٹ عمدہ اور بالکل صاف ہو، وہاں یہ بھی ضروری تھا کہ علم کی یہ طالبہ محض شاگرد نہ ہو بلکہ بیوی ہو، تاکہ کسی بات کے سمجھنے اور پوچھنے میں کسی قسم کا کوئی حجاب باقی نہ رہے۔ چنانچہ یہ کام حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انتہائی عمدگی اور خوبی کے ساتھ کیا اور میں اپنی اس گزارش کی دلیل کے طور پر ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس عظیم علمی و دینی خدمت کو پیش کرنا چاہوں گا، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد سے شروع ہوئی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک مسلسل جاری رہی۔ اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس نوعمری کی شادی کو اس کے نتائج و ثمرات کے حوالہ سے دیکھا جائے تو کم از کم میرے ذہن میں تو اس کے بارے میں کسی درجہ میں کوئی اشکال باقی نہیں رہتا، بلکہ میں اسے اللہ تعالیٰ کی تکوینی حکمتوں میں شمار کرتا ہوں۔

اس کے بعد میں حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی طالبات کو بخاری شریف میں ان کے نصاب کی آخری حدیث سنانے سے قبل ایک بات اور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ محدثین کرامؒ کے ہاں قاعدہ یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد، عمل یا واقعہ کا ذکر آپ اپنی کسی گفتگو میں، تقریر میں، درس میں، مضمون میں یا بیان میں کرنا چاہتے ہیں تو اس کے ساتھ سند کا ذکر کرنا ضروری نہیں ہے، البتہ حوالہ دینا ضروری ہے کہ یہ حدیث کی کون سی کتاب میں ہے اور اس کا درجہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ محدثین کے ہاں اس حدیث کا سند کے اعتبار سے درجہ کیا ہے؟ لیکن آپ اگر کوئی حدیث سبق اور روایت کے طور پر پڑھ رہے ہیں یا سن رہے ہیں تو اس کے لیے سند کا ذکر کرنا یا سند کا معلوم ہونا ضروری ہے، سند کے بغیر حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بطورِ سبق یا روایت کے پڑھنا یا سننا محدثین کرامؒ کے نزدیک درست نہیں ہے اور چونکہ میں بخاری شریف کی یہ روایت اپنی بیٹیوں کے سامنے بطورِ سبق اور روایت پڑھ رہا ہوں، اس لیے اس سے قبل اپنی سند کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

میری بخاری شریف کی تعلیمی سند یہ ہے کہ میں نے بخاری شریف اپنے والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم سے پڑھی ہے، انہوں نے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ سے پڑھی ہے، انہوں نے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ سے پڑھی ہے، انہوں نے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہما اللہ سے پڑھی ہے، انہوں نے حضرت مولانا احمد علی سہارن پوری رحمہ اللہ سے پڑھی ہے، انہوں نے حضرت شاہ عبد الغنی محدث دہلویؒ سے پڑھی ہے، انہوں نے حضرت شاہ محمد اسحاق محدث دہلویؒ سے پڑھی ہے، انہوں نے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ سے پڑھی ہے۔ یہ ہماری سندِ حدیث کا ایک مرحلہ ہے، جو ہم سے امام ولی اللہ دہلویؒ تک ہے۔ دوسرا مرحلہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ سے امام بخاریؒ تک ہے، جو بخاری شریف کے اس نسخہ میں حضرت مولانا احمد علی سہارن پوریؒ کے تحریر کردہ مقدمہ میں مذکور ہے، جو نسخہ ہمارے ہاں متداول ہے۔ جبکہ تیسرا مرحلہ امام بخاریؒ سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک ہے، جو امام بخاری رحمہ اللہ نے ہر حدیث کے ساتھ الگ درج کیا ہے۔ اس طرح ان تین مراحل میں ہماری تعلیمی سندِ حدیث مکمل ہوتی ہے، جس کے ذریعہ بحمد اللہ تعالیٰ ہم بخاری شریف کی احادیث سندِ متصل کے ساتھ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔

یہ میری تعلیمی سند ہے، اس کے علاوہ اجازت کی اسناد بھی ہیں، جو متعدد شیوخ سے ہیں۔ مثلاً مجھے الشیخ الاستاذ ابو غدۃؒ، الشیخ المسند ابو الفیض محمد یاسین الفادانی المکیؒ، الشیخ المعمر المسند عبد اللہ بن احمد الناخبی الحضرمیؒ اور الشیخ الاستاذ ابو الحسن علی الندویؒ سے بھی ان کی تمام اسناد کے ساتھ روایتِ حدیث کی اجازت حاصل ہے۔ مگر میں جب بچیوں کے سامنے بخاری شریف کی حدیث پڑھتا ہوں تو الشیخ الاستاذ محمد یاسین الفادانی المکی الشافعیؒ کی سند بطورِ خاص میرے سامنے ہوتی ہے، اس لیے کہ اس میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ تک سند میں واسطے کم ہو جاتے ہیں اور اس لیے بھی کہ اس میں ایک عظیم محدثہ خاتون الشیخہ امۃ اللہ محدثہ دہلویہ بھی سند میں آتی ہیں، اس طرح کہ الشیخ المحدث عبد الغنی الدہلویؒ سے روایت کرتی ہیں۔ چنانچہ اس سند کے ساتھ میں بخاری شریف کا آخری سبق پڑھنے والی طالبات کے سامنے ان کے نصاب کی آخری روایت پڑھنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم، اللہم صل علی سیدنا محمد النبی الامی وآلہ واصحابہ و اتباعہ و بارک وسلم۔

”وبالسند المتصل منی الی الامام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ تعالیٰ قال: باب قول الرجل لصاحبہ ہل اعرستم اللیلۃ وطعن الرجل ابنتہ فی الخاصرۃ عند العتاب، حدثنا عبداللہ بن یوسف قال: أخبرنا مالك عن عبد الرحمٰن بن القاسم عن ابیہ عن عائشۃ قالت: عاتبنی أبوبكر وجعل یطعننی بیدہ فی خاصرتی فلا یمنعنی من التحرك الا مكان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و رأسہ علی فخذی۔“

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ڈانٹ ڈپٹ کی اور اپنے ہاتھ سے میرے پہلو میں مکے مارنے لگے، مگر مجھے ہلنے جلنے سے اس کے سوا کوئی بات نہیں روک رہی تھی کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے اور ان کا سر مبارک میری گود میں تھا۔

یہ ایک طویل روایت کا ایک ٹکڑا ہے، جو امام بخاری رحمہ اللہ نے کم و بیش گیارہ مقامات پر مختلف حوالوں سے ذکر فرمائی ہے اور اس سے مختلف مسائل مستنبط کیے ہیں۔ محدث کا کام حدیث کی سند اور متن بیان کرنا اور اس کا درجہ متعین کرنا ہوتا ہے کہ اس حدیث کی سند کیا ہے، اس کا متن کیا ہے اور اس کا درجہ کیا ہے؟ یہ تین کام محدث کرتا ہے، جبکہ اس سے آگے فقیہ کا کام شروع ہوتا ہے کہ وہ اس حدیث سے مسائل کا استنباط کرتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ اس حدیث سے کون کون سے مسائل مستنبط ہوتے ہیں۔ فقہاء کرام بسا اوقات ایک ایک حدیث سے بیسیوں مسائل مستنبط کرتے ہیں۔ بخاری شریف میں ایک مشہور روایت ہے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا والی، حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ”الاصابۃ“ میں لکھتے ہیں کہ اس ایک حدیث سے فقہاء کرام نے تین سو سے زیادہ مسائل نکالے ہیں۔ اس طرح محدثین اور فقہاء میں تقسیمِ کار ہے، لیکن امام بخاریؒ چونکہ محدث ہونے کے ساتھ ساتھ فقیہ بھی ہیں، اس لیے وہ دونوں کام کرتے ہیں۔ حدیث بھی بیان کرتے ہیں اور اس سے اخذ کیے جانے والے مسائل بھی بیان کرتے ہیں، بلکہ امام بخاریؒ پہلے مسئلہ بیان کرتے ہیں اور پھر اس کی دلیل کے طور پر حدیث لاتے ہیں۔ حتیٰ کہ مختلف مسائل کے ساتھ ایک حدیث کے الگ الگ حصے ذکر کرتے ہیں اور کبھی تو کسی ایک حدیث کو بخاری شریف میں مکمل طور پر تلاش کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور یہ بھی بخاری شریف کی مشکلات میں سے ہے۔ بہرحال یہاں امام بخاریؒ نے ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ذکر کیا ہے اور اس سے ایک مسئلہ مستنبط کیا ہے، وہ مسئلہ بیان کرنے سے قبل میں بخاری شریف کی دیگر روایات کو سامنے رکھتے ہوئے پوری حدیث کا خلاصہ بیان کر دیتا ہوں، تاکہ بات کو سمجھنے میں آسانی رہے۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں غزوہ بنی المصطلق میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی، دورانِ سفر ایک جگہ رات کو پڑاؤ کیا۔ صبح ہوئی تو کیفیت یہ تھی کہ لشکر والوں کے پاس پانی کا ذخیرہ ختم ہو چکا تھا اور قریب کوئی چشمہ بھی نہیں تھا، جس سے پانی حاصل کیا جا سکے۔ اس وقت تک تیمم کا حکم نہیں آیا تھا اور نماز کے لیے وضو ہی کرنا ہوتا تھا، اس لیے علی الصبح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ کا حکم دیا، تاکہ آگے چل کر کسی چشمے پر وضو کر کے نماز ادا کی جا سکے۔ لیکن روانگی سے قبل میں نے اپنا سامان وغیرہ دیکھا تو گلے میں ہار موجود نہیں تھا، جو میں اپنی بہن حضرت اسماءؓ سے مانگ کر لائی تھی۔

عورتوں کا مزاج ہے کہ سفر پر جاتے ہوئے اگر ہار، زیور، جوتے اور اچھے کپڑے پاس نہیں ہیں تو کسی سے مانگ کر پہن لیتی ہیں۔ یہ سلسلہ شروع سے ہے اور اب بھی ایسا ہوتا ہے اور یہ کوئی معیوب بات بھی نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں ایک روایت میری نظر سے گزری کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاتون کو دیکھا کہ اس کی گردن میں کچھ نہیں ہے تو فرمایا کہ عورت کی خالی گردن اچھی نہیں لگتی، اگر اپنے پاس نہ ہو تو کسی سے مانگ کر کچھ پہن لیا کرو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی سفر پر جاتے ہوئے بہن سے ہار مانگ لیا تھا، جو اس وقت گم ہو گیا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہار تلاش کر لیا جائے، کیونکہ مانگے کا ہار ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلے کو رک جانے اور ہار تلاش کرنے کا حکم دیا اور خود بھی ادھر اُدھر ہار کی تلاش میں مصروف ہو گئے۔

خاصا وقت گزر گیا مگر ہار نہ ملا، لوگوں کو پریشانی ہونے لگی کہ ہار مل نہیں رہا، پانی موجود نہیں ہے، قریب میں کوئی چشمہ بھی نہیں ہے، وضو اور نماز کا مسئلہ ہے اور سورج نکل آنے پر دھوپ اور گرمی کی پریشانی الگ ہو گی۔ یہ دیکھ کر کچھ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، جو لشکر میں موجود تھے اور ان سے عرض کیا کہ حضرت عائشہؓ کو آپ سمجھائیں کہ اگر ہار نہیں مل رہا تو جانے دیں، لوگوں کو پریشانی ہو رہی ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ بات سن کر حضرت عائشہؓ کے پاس گئے، جو اپنے اونٹ پر رکھے کجاوے میں موجود تھیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہار کی تلاش میں تھک کر کجاوے میں آرام کر رہے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب آئے تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں سر رکھ کر آرام فرما رہے تھے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آتے ہی مجھے ڈانٹ ڈپٹ کی اور میرے پہلو میں مکے مارنے لگے۔ بخاری شریف میں دوسری جگہ ہے کہ ”فأوجعنی“ مکے سخت تکلیف دہ تھے، مگر میں اس لیے حرکت نہیں کر رہی تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام میں خلل ہو گا۔

ذرا غور فرمائیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے والد محترم سے ڈانٹ ڈپٹ سہہ رہی ہیں اور مکے بھی کھا رہی ہیں، مگر ہل نہیں رہیں، اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند خراب ہو گی۔ آخر کس باپ کی بیٹی تھی؟ غار میں گود باپ کی تھی اور سر مبارک تو یہی تھا، وہاں مارنے والا سانپ تھا، مگر باپ بھی حرکت نہیں کر رہا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند میں خلل ہو گا۔ یہ بھی اسی باپ کی بیٹی ہے، تکلیف برداشت کر رہی ہے، مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام کی خاطر حرکت نہیں کر رہی۔

اتنے میں حضرت جبریل علیہ السلام وحی لے کر آ گئے کہ اگر وضو وغیرہ کے لیے پانی نہ ملے تو تیمم کر لیا کرو۔ قرآن کریم کی تیمم والی آیت اس موقع پر نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے وضو وغیرہ کے لیے پانی میسر نہ آنے کی صورت میں تیمم کی اجازت مرحمت فرما دی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سنائی تو وہ بہت خوش ہوئے کہ تھوڑی دیر پریشانی تو اٹھانی پڑی، لیکن اللہ تعالیٰ نے سہولت بہت بڑی دے دی ہے اور وضو کی جگہ پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی رخصت قیامت تک تمام مسلمانوں کو مل گئی۔ اسی خوشی میں ایک انصاری صحابی حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کجاوے کے پاس آئے اور بلند آواز سے پکار کر کہا ”اے ابوبکر کے خاندان! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے۔“ یعنی اس سے قبل بھی تمہاری وجہ سے ہم مسلمانوں کو بڑی برکتیں مل چکی ہیں اور تیمم کی یہ سہولت بھی تمہاری وجہ سے ملی ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلے والوں کو حکم دیا کہ تیمم کر کے نماز ادا کرو اور اس کے بعد کوچ کا حکم دیا، لیکن ہار ابھی تک نہیں ملا تھا۔ مگر جب کوچ کے لیے اونٹ کو اٹھایا تو ہار اس کے نیچے پڑا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بے نیازی کا اظہار تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنی بے نیازی کا اظہار فرماتے ہیں اور کبھی کبھی بڑی بے نیازی کے ساتھ اپنی بے نیازی کا اظہار فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کے ذریعہ بتایا کہ یہ میری مرضی ہے ہزاروں سال پہلے کی خبر دے دوں، ہزاروں سال بعد کی خبر دے دوں، آسمانوں سے اوپر کی خبر دے دوں، زمین کے نیچے کی خبر دے دوں، ہزاروں سال بعد کی خبر دے دوں اور سمندر کی گہرائی کی خبر دے دوں، لیکن نہ بتانا چاہوں تو اونٹ کے نیچے کی خبر نہ دوں۔ نیچے زمین پر ہار پڑا ہے، اوپر اونٹ بیٹھا، اس کے اوپر کجاوہ ہے اور کجاوے میں خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے ہیں، لیکن ہار کی تلاش ادھر ادھر چاروں طرف ہو رہی ہے۔

یہ تو اس واقعہ کا خلاصہ ہے جس کا ایک حصہ امام بخاریؒ نے اس روایت میں ذکر کیا ہے، مگر یہاں ایک طالب علمانہ سوال ہے کہ یہ روایت امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب النکاح کی آخری روایت کے طور پر بیان کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس واقعہ کا نکاح کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اور اسے کتاب النکاح میں بیان کر کے امام بخاری رحمہ اللہ کیا فرمانا چاہتے ہیں؟ ذرا غور فرمائیں تو بات واضح ہو جائے گی کہ امام بخاریؒ یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ جب ایک عورت کی شادی ہو جائے اور وہ اپنے گھر بار والی ہو جائے تو کیا ماں باپ کا تعلق اور حق اس سے منقطع ہو جاتا ہے یا اس کی نگرانی اور ڈانٹ ڈپٹ کے حوالہ سے ماں باپ کا حق لڑکی کی شادی کے بعد بھی باقی رہتا ہے؟ یہ بات آج کے عالمی تناظر میں بہت زیادہ اہمیت اور توجہ کے قابل ہے، اس لیے کہ مغرب کا فلسفہ، جو آج کا عالمی اور غالب فلسفہ کہلاتا ہے، اس کا کہنا یہ ہے کہ لڑکی اور لڑکا جب بالغ ہو جائیں تو ماں باپ کا روک ٹوک اور ان کے معاملات میں مداخلت کا حق ختم ہو جاتا ہے۔ وہ اب بالغ ہیں، خود مختار ہیں، وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں، ماں باپ کا کوئی حق نہیں کہ انہیں کسی بات سے روکیں، ان کے کسی معاملہ میں مداخلت کریں اور کسی مسئلہ میں ان کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ یا سختی کریں۔

(بقیہ حصہ دستیاب نہیں ہو سکا)

   
2016ء سے
Flag Counter