درسِ نظامی اور دورِ حاضر کے چیلنجز

   
۱۸ و ۱۹ ستمبر ۲۰۱۰ء

بیرون ملک سفر سے واپسی پر غیر حاضری کے دوران آنے والی ڈاک چیک کی تو اس میں ایک استفتاء بھی تھا، جس میں دینی مدارس کے نصاب و نظام کے حوالے سے کچھ سوالات کیے گئے ہیں۔ میں عام طور پر کسی استفتاء کا جواب نہیں دیا کرتا، بلکہ اسے جامعہ نصرۃ العلوم کے دارالافتاء کے سپرد کر دیتا ہوں، مگر چونکہ سوالات میرے خیال میں استفتاء کے دائرے کے نہیں تھے، بلکہ عمومی بحث و مباحثے سے متعلق تھے، اس لیے عنوان سے اختلاف کے باوجود ان سوالات پر کچھ گزارشات پیش کر رہا ہوں۔

البتہ اس کے ساتھ یہ عرض کرنا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں علمی و فکری مباحثوں اور استفتاء و افتاء کے معاملات کچھ اس طرح گڈمڈ ہو گئے ہیں کہ الجھنوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور کنفیوژن بڑھنے لگی ہے۔ میری طالب علمانہ رائے میں فتوے کا دائرہ مختلف ہے اور علمی و فکری بحث و مباحثے کا دائرہ اس سے بالکل الگ ہے۔ فتوے کا دائرہ یہ ہے کہ کسی شخص یا گروہ کو کسی مسئلے پر عملدرآمد میں اشکال ہے یا اسے اس مسئلے کا صحیح طور پر علم نہیں ہے تو وہ کسی معتمد اور ذمہ دار مفتی صاحب سے دریافت کر کے اس کی علمی صورت کا تعین کرے اور اس پر اطمینان سے عمل کرے، جبکہ فکری و علمی مباحثے استدلال اور بحث و تمحیص کے ذریعے کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لیے ہوتے ہیں اور بسا اوقات یہ مدتوں جاری رہتے ہیں۔ ان میں مختلف آراء کی گنجائش ہوتی ہے، نئے نئے نکات سامنے آتے ہیں اور مختلف علمی صورتوں کی طرف راہ نمائی ملتی ہے۔ اس قسم کے مباحثوں میں اگر کوئی فریق ”فتویٰ“ کے عنوان سے فیصلہ سنانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا نفسیاتی تاثر یہ ہوتا ہے کہ اب حتمی فیصلہ آ گیا ہے اور مزید بحث و تمحیص کی گنجائش نہیں رہی۔ یہ بات بحث و مباحثے کے ذوق کے منافی تو ہے ہی، مگر ڈرتے ڈرتے یہ بھی عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ اسلوب علمی دیانت کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ نہیں ہے۔ عمومی علمی مباحث کو استفسار، موقف اور رائے کے دائرے میں رکھنا ہی مناسب ہوتا ہے، کیوں کہ ان کا اصل دائرہ یہی ہے۔ اس لیے ان سوالات کے عنوان کو استفتاء کی بجائے استفسار سے تبدیل کر کے ان کے جواب میں کچھ معروضات پیش کر رہا ہوں۔

یہ استفسار اسلام آباد سے خبیب فاؤنڈیشن کے جناب محمد عارف صاحب نے بھجوایا ہے اور اس میں درج ذیل چار سوالات کیے گئے ہیں:

  1. درس نظامی سے قبل مسلمانوں کا نظامِ تعلیم کیا اور کیسے تھا؟
  2. موجودہ درس نظامی کا نصاب وقت کی ضرورت کو پورا کر رہا ہے یا اس میں ترمیم و اضافے کی ضرورت ہے؟
  3. اگر یہ نصاب قابلِ ترمیم و اضافہ ہے تو آپ کے نزدیک اس کی ترمیم و اضافے کی کیا صورت ہو گی؟
  4. عصری علوم کو مدارس کے نصاب میں داخل کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر ضرورت ہے تو عصری تعلیم کہاں تک ہونی چاہیے اور اس کا طریقہ کار کیا ہو؟

پہلے سوال کے حوالے سے عرض ہے کہ ہر دور میں نصابِ تعلیم اس دور کی ضروریات کے مطابق مختلف رہا ہے اور اربابِ دانش نے اپنے اپنے دور اور علاقے کی ضروریات اور تقاضوں کو سامنے رکھ کر اسے ترتیب دیا ہے۔ مسلم معاشروں کا حکمرانی کے دور کا نصاب مختلف تھا اور محکومی کے دور کا نصاب مختلف ہو گیا تھا، مثلاً جنوبی ایشیا میں مغل حکمرانوں کا دور مسلم حکمرانی کا دور تھا، دفتری زبان فارسی تھی، عدالتی نظام فقہ حنفی پر مبنی تھا اور عدالتی زبان بھی فارسی تھی، قرآن و سنت اور فقہی علمی ذخیرے کی زبان عربی تھی۔ جبکہ علمی گفتگو میں معقولات کی حکمرانی تھی، جس کی اساس یونانی حکمت و فلسفہ پر تھی، اس لیے حکومت، عدلیہ، دینی حلقوں اور عوام کی ضروریات یکساں تھیں۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ ایک ہی طرز کا نصابِ تعلیم رائج تھا، جس میں فارسی اور عربی زبان، قرآن و سنت اور فقہ اسلامی، معقولات اور ریاضی وغیرہ کی ضرورت شامل تھیں اور اسی کی ایک ترقی یافتہ شکل درس نظامی کا نصاب تھا۔

درس نظامی علماءِ فرنگی محل کے سرخیل ملا نظام الدین سہالویؒ کی طرف منسوب ہے کہ اس کا بنیادی ڈھانچہ انہوں نے طے کیا تھا اور اس میں معقولات کا غلبہ تھا، کیوں کہ اس دور کا علمی اسلوب و محاورہ معقولات سے عبارت تھا۔ مگر انہی کے ہم عصر حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے بھی ایک نصابِ تعلیم رائج کیا، جس میں منقولات کو بالادستی حاصل تھی اور انہوں نے قرآن و حدیث تک براہ راست رسائی کو بنیاد بنا کر منقولات اور معقولات کے اس تناسب کو تبدیل کر دیا تھا، جس کا اس دور میں عمومی رواج تھا۔ درس نظامی میں عصری ضروریات اور دفتری و عدالتی تقاضوں کو سامنے رکھا گیا تھا، جبکہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے ہاں دینی، فکری اور روحانی ترجیحات کو فوقیت حاصل تھی۔ لیکن مغل اقتدار ختم ہونے اور انگریزوں کی عملداری قائم ہونے کے بعد عدالتی نظام اور دفتری زبان کو تبدیل کر دیا گیا تو تعلیمی نصاب و نظام کے اہداف و مقاصد کا دائرہ بالکل مختلف ہو گیا، دفاتر اور عدالتوں میں عربی اور فارسی کا داخلہ ممنوع قرار پایا اور دفتر و عدالت کی ضرورت کی تکمیل کے لیے الگ نظامِ تعلیم کی ضرورت محسوس ہوئی، جو ظاہر ہے کہ برطانوی حکومت کے مقاصد اور پروگرام میں شامل نہیں تھی، اس کے لیے پرائیویٹ سطح پر دینی تعلیم کا نظام شروع کیا گیا، جس کا نقطہ آغاز دارالعلوم دیوبند ہے اور آج جنوبی ایشیا میں اس نظام کے دائرے میں کام کرنے والے دینی مدارس و مکاتب کی تعداد ہزاروں میں نہیں، بلکہ بلامبالغہ لاکھوں میں ہے۔

دارالعلوم دیوبند نے ملا نظام الدین سہالویؒ اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے نصابوں کو جمع کیا اور ایک متوازن امتزاج کے ساتھ نئے تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی، جس کا بنیادی ہدف دین کے ساتھ مسلمانوں کا تعلق باقی رکھنا، ان کے عقیدے و ثقافت کا تحفظ اور دینی علوم کا بحفاظت اگلی نسلوں تک منتقل کرنا قرار پایا۔ عصری تقاضوں کے دو اہم شعبوں دفتر اور عدالت تک چونکہ ان علوم اور زبانوں کی رسائی ہی نہیں تھی، اس لیے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے اہداف سے خارج ہو گئے۔ اس طرح جنوبی ایشیا کے مسلمان تعلیم و تربیت کے نصاب کے حوالے سے دو حصوں میں بٹ گئے:

  1. دفتری اور عدالتی ضروریات اور اجتماعی زندگی کے دیگر شعبے مثلاً سائنس، ٹیکنالوجی، طب، ریاضی، انجینئرنگ اور قانون وغیرہ اسکول و کالج کے دائرے میں چلے گئے،
  2. جبکہ دینی اور تہذیبی تقاضوں کو دینی مدارس نے اپنی ذمہ داری قرار دے لیا۔

یہ تقسیم خودبخود ہوتی چلی گئی اور محکومی کے دور میں اس کے سوا اور کوئی چارہ کار بھی نہیں تھا۔ مگر ہمارا اصل المیہ نوآبادیاتی دور سے نکل کر آزاد اسلامی ممالک کے ظہور اور ان میں مسلم حکومتوں کے قیام کے بعد شروع ہوتا ہے کہ بظاہر آزاد مسلم حکومتوں کے مسلمان حکمرانوں نے سیاسی تبدیلی اور اقتدار کی منتقلی کے باوجود دینی اور تہذیبی مقاصد کو ریاستی نظامِ تعلیم کا حصہ نہ بنا کر اس تقسیم کو برقرار رکھنا ضروری سمجھا۔ اس لیے کہ دینی اور تہذیبی مقاصد کو ریاستی نظامِ تعلیم سے الگ رکھنے سے ان کی ضرورت و اہمیت تو ختم نہیں ہو جاتی اور نہ ہی دنیا کے کسی بھی حصے کی مسلم سوسائٹی اپنے دینی اور تہذیبی تشخص اور ضروریات سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہے، اس لیے یہ تقسیم اب تک باقی ہے اور اس کی ذمہ داری ان مسلم حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے دینی اور تہذیبی مقاصد و اہداف کو روایتی نظام تعلیم کا حصہ نہ بنانے کی پالیسی بدستور اختیار کر رکھی ہے اور مسلمان عوام اپنی دینی اور تہذیبی ضروریات کی تکمیل کے لیے دینی تعلیم و تربیت کے پرائیویٹ نظام کو ناگزیر تصور کرتے ہوئے اسے باقی رکھے ہوئے ہیں۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نصابِ تعلیم کی بنیاد ہر دور میں اس دور کے تقاضوں، معروضی حالات اور ملی و قومی ضروریات پر ہوتی ہے، اس لیے اسلامی تاریخ میں ہر دور اور ہر علاقے کے تعلیمی نصابوں میں تنوع اور فرق موجود رہا ہے، جو ظاہر ہے کہ آئندہ بھی رہے گا۔

درس نظامی کا موجودہ نصاب وقت کی ضروریات کو کہاں تک پورا کر رہا ہے؟ اس سوال کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں وقت کی ضروریات کا تعین کرنا ہو گا، مثلاً:

  • مسلم معاشرے میں مسجد اور مکتب و مدرسہ کو برقرار رکھنے کے لیے امام، حافظ، قاری، خطیب، مدرس، مفتی اور مؤذن وغیرہ کی ضرورت ہے اور لاکھوں مساجد و مدارس کو ان کی ضرورت کے یہ افراد درس نظامی کا موجودہ نصاب و نظام ہی مہیا کر رہا ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ نظام موجود نہ رہے تو خاکم بدہن یہ مدارس و مساجد ویران ہو جائیں گے۔
  • عام مسلمانوں کے عقیدے و ثقافت کی حفاظت اور مختلف اطراف سے اٹھنے والے اعتقادی، فکری اور ثقافتی فتنوں سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے دینی مدارس کا یہی نظام متحرک و فعال ہے۔
  • عام مسلمانوں کو حلال و حرام، جائز و ناجائز، فرض و واجب اور کفر و الحاد کی مختلف صورتوں سے آگاہ کرنے اور خبردار رکھنے کی ذمہ داری بھی درس نظامی کے اسی نظام نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے اور وہ اسے پوری طرح سرانجام بھی دے رہا ہے۔
  • اسلامی عقائد و روایات اور مسلم کلچر و ثقافت پر غیر مسلموں کے مذہبی و علمی اعتراضات اور شکوک و شبہات کے جواب میں بنیادی علمی کام درس نظامی کے موجودہ نظام و نصاب ہی کے ذریعے کام ہو رہا ہے۔ اگرچہ اس کے دائرے اور اسلوب دونوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، لیکن جتنا کچھ ہو رہا ہے، ۱۰ برس/ اس کا بیشتر حصہ درس نظامی کے نصاب و نظام کے حوالے سے ہی انجام پا رہا ہے۔
  • اس کے ساتھ ہی وہ کام جن کی لوگوں نے ان دینی مدارس سے توقعات وابستہ کر رکھی ہیں اور وہ ان میں نہیں ہو رہے، ان پر بھی ایک نظر ڈال لینا مناسب معلوم ہوتا ہے، مثلاً:

    • بیورو کریسی، عدلیہ، معیشت اور دیگر قومی شعبوں کے لیے اسلامی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور رجالِ کار کی تیاری اور فراہمی اصلاً ریاستی نظامِ تعلیم کی ذمہ داری ہے، لیکن وہ چونکہ اس سلسلے میں کوئی مثبت کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، اس لیے عام مسلمانوں نے دینی مدارس سے ہی اس کی توقع بھی وابستہ کر رکھی ہے۔ یہ کام بہرحال دینی مدارس میں نہیں ہو رہا، جس کی وجہ یہ کام ان کے بنیادی اہداف اور فرائض میں شامل نہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے لیے مطلوبہ اسباب و وسائل کا فقدان اور یہ معروضی حقیقت بھی ہے کہ ان مقاصد کے لیے دینی مدارس کے تیار کردہ رجال کار کو مروجہ نظام اور سسٹم قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
    • ابلاغ کے ذرائع آج کے دور میں جو تنوع، وسعت اور اثرانگیزی اختیار کر چکے ہیں، ان ذرائع کو اسلام کی دعوت و تبلیغ، تعلیم و تربیت اور اسلامی اقدار و ثقافت کے دفاع کے لیے استعمال کرنا اور اس کے لیے مطلوبہ معیار کے رجالِ کار فراہم کرنا بہرحال دینی مدارس کی ذمہ داری ہے، مگر یہ کام بھی ان مدارس میں مجموعی طور پر نہیں ہو رہا ہے، بلکہ اس کی ضرورت کا احساس بھی بیشتر حلقوں میں موجود نہیں ہے۔
    • اسلامی عقیدہ و ثقافت، نظام و قوانین اور اقدار و روایات پر آج کے مغربی فلسفہ و تہذیب کے حوالے سے جو اعتراضات سامنے آ رہے ہیں اور عالمی سطح پر اسلامی عقائد و قوانین کو جس طرح ہدف تنقید بنا کر خود مسلمانوں کی نئی نسل کو شکوک و شبہات میں مبتلا کیا جا رہا ہے، اس کا صحیح ادراک ابھی تک ہمارے مدارس کے ماحول میں موجود نہیں ہے اور اس فکری ارتداد کے سد باب کے لیے رجالِ کار کی تیاری ہمارے بنیادی اہداف میں شامل نہیں ہو پائی، جس کی طرف ہمارے شیخ محترم حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے اپنے رسالہ ”ردۃ ولا ابابکر لہا“ میں نصف صدی قبل علمی حلقوں کو توجہ دلائی تھی۔
    • دینی مدارس کے اساتذہ، طلبہ اور متعلقین کے محدود دائرے سے ہٹ کر غیرمتعلقہ اکثریت تک دین کی بنیادی تعلیم کا دائرہ بڑھانے اور سوسائٹی کی اس غالب اکثریت کی ضرورت، دلچسپی اور برداشت کے دائرے میں دینی تعلیم کا ہلکا پھلکا نظام فراہم کرنا بھی دینی مدارس کی ذمہ داری ہے، جس کی طرف اب کچھ نہ کچھ توجہ بھی دی جا رہی ہے، مگر جس وسیع پیمانے پر اس کی ضرورت ہے، اس کے لیے کوئی منصوبہ بندی دینی مدارس کے وفاقوں کی طرف سے دیکھنے میں نہیں آ رہی، وغیر ذالک۔

    تیسرا سوال دینی مدارس کے نصاب میں ترمیم و اضافے کی ضرورت کے بارے میں ہے۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ ترمیم و اضافے کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے اور آئندہ بھی ہر دور میں رہے گی، اس لیے کہ حالات میں تبدیلی اور نئی ضروریات کے سامنے آنے پر یہ ترمیم و اضافہ ناگزیر ہو جاتا ہے۔ خود درس نظامی کا یہ نصاب بھی اپنی اصل شکل میں موجود اور رائج نہیں ہے اور اس میں اب تک بیسیویں بار ترامیم ہو چکی ہیں۔ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند نے بھی اسے من و عن اصلی شکل میں اختیار نہیں کیا تھا، بلکہ اس کے ساتھ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے مرتب کردہ نصاب کو ایڈجسٹ کیا تھا۔ اس لیے اصل مسئلہ ترمیم و اضافے کی ضرورت کا نہیں، اس کے اہداف و مقاصد کا ہے۔

    اس وقت دینی مدارس کے نصاب میں ترمیم و اضافے کی جو تجاویز سامنے آ رہی ہیں، وہ دو الگ الگ بلکہ متضاد و متعارض حلقوں کی طرف سے پیش کی جا رہی ہیں:

  1. ایک حلقے کی طرف سے ترامیم اور اضافوں کا مطالبہ اس حوالے سے کیا جا رہا ہے کہ دینی مدارس کا الگ تشخص اور جداگانہ تعلیمی کردار ختم کر کے انہیں ریاستی نظام میں ضم کر دیا جائے، جیسا کہ صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دورِ حکومت میں بہاولپور کی مرکزی دینی درسگاہ جامعہ عباسیہ کو اسلامی یونیورسٹی کا درجہ دے کر جامعہ۔ ۔ ۔ ۔ کے نام سے اس کے نصاب میں عصری تعلیم اور درس نظامی کو جمع کیا گیا تھا، مگر رفتہ رفتہ دینی تعلیم کا عنصر کم ہوتا گیا اور درس نظامی کی عظیم درسگاہ جامعہ عباسیہ جدید تعلیم کی ”اسلامی یونیورسٹی“ میں مکمل طور پر بدل گئی۔

    اس قسم کی ترمیم و اضافے کو تو کسی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ یہ ترمیم و اضافہ دینی مدارس کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے نہیں، بلکہ انہیں سرے سے ختم کرنے کے لیے ہے اور اس سلسلے میں دینی مدارس کے وفاق دینی مدارس کے نصاب و نظام، جداگانہ تشخص، امتیازی کردار اور مالی و انتظامی خود مختاری کے تحفظ کے حوالے سے جو مضبوط موقف ابھی تک رکھتے ہیں، وہ بجا اور درست ہے اور اسے مکمل حمایت اور تعاون فراہم کیا جانا چاہیے۔

  2. مگر ایک حلقہ دینی مدارس کے خیر خواہوں اور ہمدردوں کا بھی ہے، جو ان کے جداگانہ تشخص اور خود مختاری کی مکمل حمایت کرتے ہوئے ان سے تعلیمی کردار کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے ترمیم و اضافہ کی بات کر رہا ہے۔ اس حلقے کی بات کو پہلے حلقے کی بات سے الگ کر کے دیکھنا ہو گا اور وفاقوں کی قیادتوں کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا، مثلاً مقاصد و اہداف کے حوالے سے جن امور کا ہم نے سطورِ بالا میں تذکرہ کیا ہے کہ انہیں دینی مدارس کے دائرہ کار میں شامل ہونا چاہیے، مگر وہ ابھی تک اس میں شامل نہیں ہیں، ترامیم و اضافہ جات کی ایسی تجاویز دینی مدارس کی سنجیدہ توجہ کی مستحق ہیں۔

باقی رہی یہ بات کہ عصری علوم میں سے کون سے علوم دینی مدارس کے نصاب میں شامل ہونے چاہئیں؟ اس پر گفتگو سے پہلے اس اصطلاح کے بارے میں اپنے ایک ”ذہنی تحفظ“ کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔ وہ یہ کہ اگر ”عصری علوم“ سے مراد وہ علوم ہیں جن کی آج کے زمانے کو ضرورت ہے تو مجھے اس اصطلاح سے اتفاق نہیں ہے۔ کیا دینی علوم کی آج کے دور کو ضرورت نہیں ہے؟ اور ہم دینی مدارس میں جو کچھ پڑھا رہے ہیں، کیا وہ عصری ضروریات کے دائرے سے خارج ہے؟ کم از کم میں اس تصور کو ذہنی طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ اسی طرح کی ایک اصطلاح ”قومی تعلیمی دھارا“ بھی ہے، ہمارے حکمران بار بار کہتے ہیں کہ ہم دینی مدارس میں اصلاحات کر کے انہیں ”قومی دھارے“ میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک سابق وزیر تعلیم نے اس قسم کا بیان دیا تھا تو میں نے ان سے سوال کیا تھا کہ کیا دینی مدارس قومی دھارے میں شامل نہیں ہیں؟ اور وہ جو تعلیم دے رہے ہیں، کیا وہ قومی ضروریات کے دائرے سے باہر کی چیز ہے؟ اس قسم کی اصطلاحات کے ذریعے غیر محسوس طریقے سے ہمارے ذہنوں میں دین اور دنیا کی دوئی اور عصری تقاضوں میں دینی تعلیم کے شامل نہ ہونے کے تاثر کو پختہ کیا جا رہا ہے، اس لیے ہمیں اس سے ہٹ کر متبادل اصطلاحات تلاش کرنی چاہئیں۔

مبینہ عصری علوم میں سے وہ علوم و فنون جن کے شامل کرنے سے دینی مدارس کا بنیادی ہدف تبدیل ہو جائے ہیں اور ان کا جداگانہ تعلیمی تشخص کمزور ہو، مثلاً وہ امام، خطیب، مدرس، حافظ، قاری اور مفتی تیار کرنے کی بجائے ڈاکٹر، انجینئر، وکیل اور سائنس دان تیار کرنے میں مصروف ہو جائیں، ایسے علوم و فنون کا داخلہ تو دینی مدارس کی حدود میں ممنوع ہی رہنا چاہیے۔ ان علوم و فنون کے لیے بہت سے ادارے موجود ہیں، جو اپنا کام بہتر انداز میں کر رہے ہیں اور انہیں دینی مدارس کی سپورٹ کی ضرورت نہیں ہے۔

البتہ ایسے علوم و فنون جو مبینہ طور پر عصری کہلاتے ہیں اور دینی مدارس کی کارکردگی، تاثیر اور افادیت کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہیں، مثلاً کمپیوٹر، ٹیکنالوجی، صحافت، جدید زبانیں، مغربی فلسفہ و ثقافت سے تعارف، نفسیات، پبلک ڈیلنگ اور معاصر ادیان و افکار سے واقفیت وغیرہ تو ایسے علوم و فنون کا حصول ہماری دینی ضروریات کا حصہ ہے۔ دینی مدارس کے نصاب و نظام میں ان کو کسی نہ کسی درجے میں بہرحال ایڈجسٹ کرنا چاہیے اور اس کے لیے دینی مدارس کی سطح پر الگ الگ طریق کار اختیار کرنے کی بجائے وفاقوں کی سطح پر اجتماعی حکمت عملی اور طریق کار طے کرنے کی ضرورت ہے۔ خدا کرے کہ ہم ایسا کر پائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter