مذہب اور ریاست: مغربی اور مسلم تاریخ کے تین بنیادی فرق

   
۲۹ اپریل ۲۰۰۰ء

محترمہ بے نظیر بھٹو نے گزشتہ دنوں آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایک مباحثہ میں مسلمان مقرر کے طور پر خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہا ہے وہ اگرچہ ان کی طرف سے کوئی نئی بات نہیں اور اس سے قبل بھی وہ متعدد مواقع پر ’’نیو سوشل کنٹریکٹ‘‘ کے عنوان سے یہ سب کچھ کہہ چکی ہیں لیکن اسلام اور مغرب کے درمیان روز افزوں اور تیزی سے بڑھتی ہوئی کشمکش کے حالیہ تناظر میں اس کی اہمیت پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ مباحثہ کا عنوان تھا کہ ’’اس ایوان کی رائے میں اسلام اور مغرب کے درمیان بقائے باہم ممکن نہیں‘‘۔ اس موضوع پر خطاب کرتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو نے جو بات بطور اصول کہی وہ یہ ہے کہ:

’’مغرب نے چرچ اور ریاست یا مذہب اور ریاست کے درمیان جنگ بہت پہلے جیت لی تھی لیکن عالم اسلام ابھی یہ جنگ نہیں جیت سکا اور یہی اس کی خامیوں، کمزوریوں اور ناکامیوں کا سب سے اہم سبب ہے۔‘‘

گویا محترمہ بے نظیر بھٹو کے نزدیک عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مسلم دنیا اپنی اجتماعی زندگی میں مذہب اور مسجد کے کردار سے دستبردار نہیں ہو سکی اس لیے وہ موجودہ مشکلات سے دوچار ہے، اور اگر مسلمان یورپ کی طرح مذہب کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کر دیتے تو وہ بھی مغربی اقوام کی طرح ترقی یافتہ ہوتے، خوشحال ہوتے اور زندگی کے جدید وسائل اور اسلوب سے بہرہ ور ہوتے۔

اس پر یہ سوال اگرچہ اپنی جگہ موجود ہے کہ ترکی نے تو مذہب کو گزشتہ پون صدی سے اپنی اجتماعی زندگی سے بے دخل کر رکھا ہے اور اس بے دخلی کو طاقت کے زور پر قائم رکھنے کی بدستور کوشش جاری ہے حتیٰ کہ ترکی کے موجودہ صدر جناب سلیمان ڈیمرل نے قرآن کریم کی دو سو تین آیات کو (معاذ اللہ) ناقابل عمل قرار دے دیا ہے لیکن اس کے باوجود ترکی نہ یورپی یونین میں شامل ہو سکا ہے اور نہ ہی جدید ترقی، وسائل اور خوشحالی میں اسے شرکت نصیب ہوئی ہے۔ لیکن اس سے قطع نظر محترمہ بے نظیر بھٹو کی اطلاع کے لیے ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ انہیں ان اسباب کا بھی جائزہ لینا چاہیے جن کی وجہ سے یورپ نے چرچ اور مذہب کو اجتماعی معاملات سے بے دخل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے جبکہ عالم اسلام میں اس قسم کی سوچ رکھنے والے عناصر اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے اور نہ ہی آئندہ کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ہمارے نزدیک تین بنیادی اسباب ہیں جن کی وجہ سے مسلم دنیا میں مذہب اور مسجد کا تعلق عام معاشرہ اور اجتماعی زندگی سے منقطع نہیں ہو سکا اور ان اسباب کی موجودگی میں ایسا ہونا ممکن بھی نہیں ہے۔

  1. پہلا سبب یہ ہے کہ یورپ کی مذہبی قیادت کے پاس انجیل کی تعلیمات اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ارشادات اصلی حالت میں موجود نہیں تھے جس کی وجہ سے چرچ مذہبی معاملات میں پہلے سے طے شدہ کسی اصول کا پابند نہیں رہا تھا اور چرچ کی رائے کو ہر معاملہ میں حرف آخر کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی، اسی وجہ سے ٹکراؤ کی فضا پیدا ہوئی۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے پاس قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اصلی اور محفوظ حالت میں موجود ہیں جس کی وجہ سے مسجد اور مولوی کی حیثیت مطلق العنان اور خودمختار ادارے کی نہیں رہی اس لیے مسجد اور معاشرہ میں ٹکراؤ کا کوئی امکان نہیں ہے۔
  2. دوسرا سبب یہ ہے کہ یورپی معاشرہ میں جاگیرداری اور بادشاہت کے مظالم کے خلاف جب عوامی بغاوت منظم ہوئی تو چرچ نے غریب آدمی کا ساتھ دینے کی بجائے بادشاہ اور جاگیردار کا ساتھ دیا اور ظالم گروہوں کے ظلم و جبر کو مذہبی تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے کامیاب عوامی بغاوت میں بادشاہت اور جاگیرداری کے ساتھ چرچ کا بوریا بستر بھی لپیٹ دیا گیا۔ جبکہ مسلم معاشرہ میں مسجد اور مولوی کی یہ پوزیشن نہیں ہے، خود ہمارے ہاں جنوبی ایشیا میں مسجد نے آزادی کے مرکز اور مولوی نے جنگ آزادی کے کارکن کا کردار ادا کیا، عوام کے ساتھ مل کر ان کی آزادی کے لیے بے پناہ قربانیاں پیش کیں اور استحصالی طبقوں کا ساتھ دینے کی بجائے غریب عوام میں رہنے کو ترجیح دی، اس لیے عوام کے دلوں میں مسجد اور مولویوں کے خلاف وہ جذبات نہیں ہیں جو یورپ میں چرچ اور پادری کے خلاف پیدا ہوگئے تھے۔
  3. تیسرا سبب یہ ہے کہ یورپ میں سائنسی دور آیا تو چرچ سائنسی انکشافات کے خلاف فریق بن گیا، سائنس دانوں کو خدائی کاموں میں دخل دینے والے ملحدین قرار دے کر ان کے خلاف فتوے دیے گئے اور بہت سے سائنس دانوں کو چرچ کے فتویٰ پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جس کی وجہ سے جدید ترقی، سائنسی علم اور نئے افکار کے ساتھ چرچ کی محاذ آرائی اور مخاصمت کا ماحول بن گیا اور چرچ کو شکست خوردہ فکر اور فلسفہ کا نمائندہ قرار دے کر مسترد کر دیا گیا۔ جبکہ مسلم علماء نے سائنس اور اس کے انکشافات کے خلاف محاذ آرائی نہیں کی بلکہ اس موضوع پر کتابیں لکھی گئیں اور مقالات پیش کیے گئے کہ سائنس کا مذہب سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے بلکہ وہ مذہبی مسلمات کی مؤید ہے۔ حتیٰ کہ مسلم علماء نے خلا کی طرف انسان کے سفر کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزۂ معراج کی تائید قرار دیا، ہوائی جہاز کو حضرت سلیمانؑ کے معجزاتی ہوائی تخت کی تائید بتایا جو ہوا میں اڑتا تھا اور جس پر بیٹھ کر حضرت سلیمانؑ مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر لیا کرتے تھے، اور ہوا کے ذریعے پیغام رسانی کو حضرت عمر بن الخطابؓ کی اس کرامت کی تائید سمجھا جس کے ذریعے انہوں نے مدینہ منورہ سے ہزاروں میل دور محاذ جنگ پر حضرت ساریہؓ کو جنگ کی صورتحال سے آگاہ کیا تھا۔ اس لیے اسلام اور سائنس کے درمیان تصادم اور ٹکراؤ کی وہ فضا پیدا نہ ہو سکی جو یورپ میں چرچ اور سائنس دانوں کے درمیان صدیوں تک میدان کارزار بنی رہی۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کا یہ ارشاد بجا ہے کہ عالم اسلام میں مسجد اور ریاست، یا مذہب اور ریاست کے درمیان تعلق منقطع کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی لیکن انہیں یہ توقع ہے کہ آئندہ شاید ایسا ہو جائے اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنے مذکورہ خطاب میں عالم اسلام کی موجودہ صورتحال کو ایک ارتقائی مرحلہ قرار دیا ہے۔ لیکن ہم بصد ادب محترمہ سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ وہ اس خام خیالی کو ذہن سے جتنی جلدی ممکن ہو نکال دیں کیونکہ ایسا ہونا ممکن نہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اسلام ایک زندہ، طاقتور، توانا اور متحرک فلسفۂ حیات ہے جس نے یونانی فلسفہ کو شکست فاش دینے کے بعد سائنس کو بھی اپنے مقابل صف آرائی کا موقع نہیں دیا اور اب مغرب کے سیکولر فلسفہ سے اس کی آخری اور فیصلہ کن محاذ آرائی ہے جس میں اسلام کی فتح اور غلبہ کے امکانات صبح روشن کی طرح ہویدا ہوتے جا رہے ہیں۔ اس لیے شکست خوردہ مغربی فلسفہ کے دامن میں پناہ لینے کی بجائے اسلام کے سایۂ عاطفت میں آجائیں کہ اب اس کے سوا اور کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter