ملی و ملکی حالات اور پاکستان شریعت کونسل کا سالانہ اجلاس

   
تاریخ : 
۲۱ جولائی ۲۰۱۷ء

پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس شوریٰ کا سالانہ اجلاس ۱۳ جولائی ۲۰۱۷ء کو مرکز حافظ الحدیث درخواستیؒ حسن ابدال میں حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں ملک کے مختلف حصوں سے علماء کرام نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ جبکہ مولانا عبدا لرؤف فاروقی، مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی، مولانا عبد القیوم حقانی، مولانا قاری جمیل الرحمان اختر، مولانا محمد رمضان علوی، مولانا عبد الخالق، مولانا ثناء اللہ غالب، مولانا عبد الرؤف محمدی، مولانا عبد الرزاق، مفتی محمد نعمان احمد، قاری محمد نعیم سعدی، قاری عبید اللہ عامر، جناب صلاح الدین فاروقی، پروفیسر حافظ منیر احمد اور دیگر رہنماؤں نے مختلف امور پر اظہارِ خیال کیا۔

راقم الحروف نے ملکی و عالمی صورتحال پر مجلس شوریٰ کے شرکاء کو بریفنگ دی اور تفصیلی تبادلۂ خیالات کے بعد مرکزی مجلس شوریٰ کی طرف سے متعدد مسائل پر مندرجہ ذیل اظہار خیال کیا گیا۔

  • ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پریشان کن صورتحال اختیار کرتی جا رہی ہے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے استعماری ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے ملک کو سیاسی خانہ جنگی کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ ریاستی اداروں کے درمیان محاذ آرائی کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے اور قومی وحدت کو خطرات سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ اس صورتحال پر ملک کے تمام محب وطن سیاسی و دینی حلقوں کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے اور قوم کو اس فکری و سیاسی خلفشار سے نجات دلانے کے لیے مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔
  • عالم اسلام، بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورتحال کے حوالہ سے اضطراب بڑھتا جا رہا ہے، مسلم امہ کےمسائل کو حل کرنے کے لیے عالمی طاقتوں پر انحصار کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے اور مسلم حکمرانوں اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی خاموشی اور لاتعلقی پورے عالم اسلام کو بے چین کیے ہوئے ہے۔ نیز حرمین شریفین کے تقدس کو درپیش خدشات کے ساتھ ساتھ خلیجی ریاستوں کے درمیان بڑھتی ہوئی باہمی محاذ آرائی نے معاملات کو مزید الجھا دیا ہے۔ ان حالات میں پاکستان شریعت کونسل دنیا بھر کے مسلم حکمرانوں بالخصوص پاکستان، ترکی، کویت اور انڈونیشیا کی حکومتوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ مسلم امہ کے باہمی تنازعات کو حل کرانے کے لیے مؤثر او رمتحرک کردار ادا کریں، او آئی سی کا سربراہی اجلاس فوری طور پر طلب کیا جائے اور مشرق وسطیٰ کے تنازعات کو عالمی طاقتوں کے حوالے کر دینے کی بجائے انہیں باہمی مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کی راہ ہموار کی جائے۔ اور اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کو یہ موقع فراہم کرنے سے گریز کیا جائے کہ وہ ان تنازعات کو فلسطین اور بیت المقدس پر اپنے ناجائز تسلط کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کر سکیں۔ اجلاس مشرق وسطیٰ میں مسلم ممالک کے باہمی تنازعات کے تمام فریقوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ باہمی معاملات و تنازعات کو حل کرنے کے لیے مسلح تصادم سے مکمل گریز کریں اور باہمی مذاکرات کے ذریعہ ان امور و تنازعات کا حل نکالیں۔
  • اجلاس میں وفاقی شرعی عدالت میں سودی نظام کے حوالہ سے زیر بحث کیس کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور انسداد سود کمیٹی اسلام آباد کے کنوینر مولانا محمد رمضان علوی نے کمیٹی کی سرگرمیوں کی رپورٹ پیش کی۔ اجلاس میں طے پایا کہ وفاقی شرعی عدالت میں سودی نظام کے خاتمہ کا مقدمہ لڑنے والے گروپوں سے مکمل تعاون کے ساتھ ساتھ اس میں پاکستان شریعت کونسل کے بطور فریق شامل ہونے کے امکانات کا جائزہ لیا جائے گا اور مولانا محمد رمضان علوی کی سربراہی میں کام کرنے والی کمیٹی اس سلسلہ میں پیش رفت کرے گی۔
  • اجلاس میں جناب صلاح الدین فاروقی نے پاکستان کی دینی تحریکوں اور دینی جماعتوں کے مطبوعہ ریکارڈ کو جمع کرنے کے سلسلہ میں اپنی سرگرمیوں کی رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ وہ مولانا صالح محمد حضروی کے ساتھ مل کر یہ کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان میں اب تک چلنے والی دینی تحریکات کے حوالہ سے تاریخی ریکارڈ کو ایک جگہ جمع کر کے اسے مرتب کرنے کا اہتمام کیا جائے ۔ وہ اس حوالہ سے بہت سا ریکارڈ اکٹھا کر چکے ہیں۔ اجلاس میں ان کی اس محنت کو سراہتے ہوئے کہا گیا کہ یہ بہت اہم اور ضروری کام ہے جس کو مکمل کرنے کے لیے ملک بھر کے جماعتی اور مسلکی احباب کو ان سے بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔ جناب صلاح الدین فاروقی نے اس کے بارے میں ملک بھر کے احباب سے اپیل کی ہے کہ جس دوست کے پاس ہفت روزہ ترجمان اسلام، ہفت روزہ خدام الدین اور دیگر دینی جرائد کے پرانے شمارے موجود ہوں یا دینی تحریکات کے بارے میں مطبوعہ یا خط و کتابت کی شکل میں مواد موجود ہو، وہ ان سے فون ۰۳۲۲۵۴۴۹۴۸۲ پر رابطہ کریں تاکہ یہ مطبوعہ مواد یا اس کی فوٹو کاپی حاصل کرنے کی ترتیب بنائی جا سکے۔
  • اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے سلسلہ میں حکومت کی بے اعتنائی پر افسوس کا اظہار کیا گیا اور ایک قرارداد کے ذریعہ کہا گیا ہے کہ دستوری طور پر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں قانون سازی کے لیے پیش کرے۔ لیکن کونسل کی طرف سے مکمل اور جامع سفارشات و تجاویز حکومت کے حوالے کیے جانے کے باوجود اس سے مسلسل گریز کیا جا رہا ہے۔ قرارداد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنی دستوری ذمہ داری کو پورا کرے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو منتخب اسمبلیوں میں پیش کر کے قانون سازی کا اہتمام کرے۔
  • اجلاس میں ان اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ ریاست آزاد جموں و کشمیر میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر جج صاحبان کے ساتھ شرعی قاضیوں کے اشتراک سے اسلامی قوانین کے نفاذ کا جو نظام ایک عرصہ سے کامیابی کے ساتھ جاری ہے اسے ختم کرنے یا غیر مؤثر بنانے کی سرکاری سطح پر کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان شریعت کونسل نے اس سلسلہ میں آزاد کشمیر کے دینی حلقوں کے مطالبات کی مکمل حمایت کرتے ہوئے حکومت آزاد کشمیر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس طرز عمل پر نظر ثانی کرے اور قضاء شرعی کے نظام کو ختم کرنے کی بجائے اسے صوبائی اور وفاقی سطح پر بھی مکمل کرنے کا اہتمام کرے۔
  • اجلاس میں ملک کی فرقہ وارانہ صورتحال کا بھی جائزہ لیا گیا اور ایک قرارداد میں کہا گیا ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی کے اسباب و عوامل اور خاص طور پر بیرونی دخل اندازی کے بارے میں حقائق کو سامنے لانا ضروری ہے۔ اور پاراچنار، کوئٹہ اور دیگر مقامات کے واقعات کے اسباب و محرکات اور معروضی حقائق سے عوام کو آگاہ کرتے ہوئے بیرونی دخل اندازی کے سدباب کے لیے مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ فرقہ واریت کے حوالہ سے بیرونی دخل اندازی کسی طرف سے بھی ہو، قطعی طور پر قابل قبول نہیں ہے اور اس کا بلا امتیاز سدباب ضروری ہے۔ اجلاس میں پارہ چنار، کوئٹہ، احمد پور شرقیہ اور دیگر مقامات کے حالیہ سانحات و حادثات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جاں بحق ہونے والوں کے خاندانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا گیا اور مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔

اجلاس کے بعد پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی کی طرف سے ’’عید ملن پارٹی‘‘ کے عنوان سے مرکز حافظ الحدیث درخواستیؒ میں ظہرانہ دیا گیا جس میں اجلاس کے شرکاء کے علاوہ علاقہ کے علماء کرام اور کارکنوں کی بڑی تعداد میں شریک ہوئی۔

   
2016ء سے
Flag Counter