ڈنمارک کے اخبار ”جیلنڈز پوسٹن“ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر مسلمانوں کے رد عمل کا دائرہ مسلسل وسیع ہوتا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی مسلم ممالک میں عوام اور ان کی حکومتوں کے درمیان اس حوالے سے فاصلہ بھی بڑھنے لگا ہے۔ مسلم حکومتوں کی خواہش اور کوشش ہے کہ ان خاکوں کے خلاف احتجاج تو ہو، مگر اس کا دائرہ اس قدر وسیع نہ ہو کہ مسلم حکومتوں اور مغرب کے درمیان شکوک و شبہات کی فضا قائم ہونے لگے اور ان میں باہمی تعاون کا جو نیٹ ورک موجود ہے وہ متاثر ہو جائے۔ مگر دینی حلقوں اور عوام کی کوشش یہ رخ اختیار کرتی جا رہی ہے کہ اس مسئلہ کے حوالے سے مغرب سے دو ٹوک بات ہو اور اسی مرحلہ پر اسے بتایا جائے کہ مغرب اور عالم اسلام کے درمیان فکری اور تہذیبی کشمکش کی حدود اب طے ہو جانی چاہئیں اور آزادئ رائے اور انسانی حقوق کے نام سے مسلم امہ کے خلاف مغرب کی فکری اور ثقافتی یلغار کو کسی جگہ بریک ضرور لگنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ احتجاج کرنے والوں اور مظاہروں کے لیے سڑکوں پر آنے والوں کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ مسلم سربراہ کانفرنس کا اجلاس فوری طور پر طلب کیا جائے اور مشترکہ طور پر لائحہ عمل طے کر کے مغرب سے دو ٹوک بات کی جائے۔ جبکہ ڈنمارک کی حکومت ابھی تک اس موقف پر قائم ہے کہ اسے ان خاکوں کی اشاعت پر افسوس ہے، لیکن وہ اظہار رائے کی آزادی کے حق کا احترام کرتی ہے اور مذکورہ اخبار کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
دوسری طرف ”جیلنڈز پوسٹن“ کے ثقافتی مدیر فلیمنگ روز نے ایک مضمون میں خود کو اس کارروائی میں حق بجانب قرار دیا ہے اور الٹا مسلمانوں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ”عدمِ برداشت“ کا شکار ہیں اور اسی ”عدمِ برداشت“ کو ختم کرنے کے لیے وہ اور اس کے ساتھی سرگرم عمل ہیں۔ ان حضرات کی طرف سے کہا گیا ہے کہ
”اسلام تنقید کو برداشت نہیں کرتا اور ہم عدمِ برداشت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔“
آج کے کالم میں ہم اس پہلو پر کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں تک تنقید کا تعلق ہے، یہ بات قطعی طور پر بے بنیاد ہے کہ اسلام تنقید برداشت نہیں کرتا، کیونکہ دلیل اور منطق کے حوالے سے جب بھی اسلام کی کسی بات پر اعتراض ہوا ہے یا تنقید کی گئی تو مسلمانوں نے نہ صرف اسے سنا ہے اور اس کا دلیل کے ساتھ جواب دیا ہے، بلکہ اگر کوئی بات قبول کرنے کے قابل ہوئی ہے تو اس میں بھی تامل سے کام نہیں لیا۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، جن میں سے ایک دو کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار مکہ کے نمائندہ سہیل بن عمرو کے درمیان مذاکرات ہو رہے تھے اور معاہدہ کی طے شدہ شرطیں لکھوائی جا رہی تھیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدہ کے آغاز میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھوائی اور معاہدہ کے متن کا آغاز یوں کیا کہ
”یہ وہ امور ہیں جو محمد رسول اللہ اور سہیل بن عمرو نمائندہ قریش کے مابین طے پائے ہیں۔“
معاہدہ لکھا جا چکا تھا اور دستخط سے قبل دوبارہ سنایا جا رہا تھا کہ سہیل بن عمرو نے اعتراض کیا کہ
”بسم اللہ کے ساتھ رحمٰن اور رحیم کا ذکر ہمارے ہاں معروف نہیں ہے اور یہ آپ کی اپنی اصطلاح ہے، جبکہ معاہدہ میں صرف مشترکہ باتوں کا تذکرہ ہوتا ہے، اس لیے یہ دونوں لفظ حذف کرنا ہوں گے۔ اسی طرح ہم آپ کو رسول اللہ نہیں مانتے، اس لیے معاہدہ میں آپ کا تذکرہ محمد بن عبد اللہ کے عنوان سے ہو گا۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے نمائندہ کے اس اعتراض کو تسلیم کیا اور رحمٰن، رحیم اور رسول اللہ کے الفاظ معاہدہ سے حذف کروا دیے۔ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے، جو معاہدہ لکھ رہے تھے، ایمانی غیرت کی وجہ سے ان مقدس الفاظ پر لکیر کھینچنے سے انکار کر دیا تھا، مگر اس کے باوجود وہ الفاظ حذف کر دیے گئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتراض اور تنقید کو نہ صرف برداشت کیا، بلکہ اسے قبول بھی کیا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ بخاری شریف میں مدینہ منورہ کے حوالے سے بھی مذکور ہے کہ ایک یہودی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل میں آیا اور آپ کو ”یا محمد“ کہہ کر مخاطب کیا، اس پر ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اسے دھکا دے دیا۔ اس صحابی رضی اللہ عنہ سے وجہ پوچھی گئی تو اس نے بتایا کہ اس نے ”یا رسول اللہ“ کہہ کر مخاطب کیوں نہیں کیا؟ اس یہودی نے جواب دیا کہ جب ہم آپ کو رسول اللہ مانتے ہی نہیں ہیں تو اس صفت کے ساتھ مخاطب کیسے کر سکتے ہیں؟ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر معاملے کو نمٹا دیا کہ میں محمد رسول اللہ بھی ہوں اور محمد بن عبد اللہ بھی ہوں۔
الغرض جہاں اعتراض کسی دلیل کی بنیاد پر ہوا ہے اور تنقید میں سنجیدگی پائی گئی ہے وہاں کسی نے اس کو رد نہیں کیا، بلکہ اس کا جواب دیا ہے یا اسے قبول کیا گیا ہے۔ البتہ توہین اور تنقیص کا مسئلہ جدا ہے اور اسے کسی دور میں بھی برداشت نہیں کیا گیا۔ چودہ سو سالہ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں نے قرآن کریم پر، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر اور اسلامی تعلیمات پر ہر دور میں سینکڑوں اعتراضات کیے ہیں اور سینکڑوں مسائل پر تنقید کی گئی ہے، ان اعتراضات اور ان کے جوابات کے حوالے سے ایک مستقل لٹریچر ہے، جو نہ صرف کتب خانوں کی زینت ہے، بلکہ مسلسل پڑھا جا رہا ہے۔ مسلمانوں نے کبھی اس پر ناک بھوں نہیں چڑھائی، بلکہ دلیل کا جواب دلیل سے دیا ہے، مکالمہ اور مباحثہ میں حصہ لیا ہے اور آج بھی علمی حلقوں میں یہ مباحثہ اور مکالمہ جاری ہے۔ مگر توہین اور تنقیص کو تنقید کے پردے میں چھپانے کی بات قبول نہیں کی جا سکتی، کیونکہ توہین اور تمسخر کسی حالت میں بھی قابلِ برداشت نہیں ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ میں ہمیں دونوں باتیں ملتی ہیں۔ حدیبیہ میں سہیل بن عمرو نے دلیل کی بنیاد پر بات کی تو اسے قبول کیا گیا، لیکن اس کے صرف دو سال بعد فتح مکہ کے موقع پر عبد اللہ بن خطل کو عام معافی سے مستثنیٰ قرار دے کر اس کے قتل کا حکم خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صادر فرمایا۔ حتیٰ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ عبد اللہ بن خطل جان بچانے کے لیے خانہ کعبہ کے غلاف کے پیچھے چھپا ہوا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے وہیں قتل کر دو۔ چنانچہ اسے وہاں سے گھسیٹ کر مسجد حرام میں ہی زمزم کے چشمہ کے قریب جہنم رسید کر دیا گیا۔ اس لیے کہ وہ گستاخ تھا اور اس کی مخالفت دلیل کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اہانت اور تحقیر پر مبنی تھی۔ اس لیے مسلمانوں نے اس معاملے میں حد فاصل کو ہمیشہ قائم رکھا ہے، جہاں اختلاف یا مخالفت دلیل کے ساتھ ہوئی ہے وہاں دلیل سے جواب دیا ہے، لیکن جہاں اہانت اور تحقیر کا پہلو پایا گیا ہے وہاں مسلمانوں نے ایسا کرنے والے کے ساتھ وہی معاملہ کیا ہے جو عبد اللہ بن خطل کے ساتھ کیا گیا تھا۔
اس کی ایک مثال ماضی قریب میں بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے کہ ایک ہندو دانشور پنڈت دیانند سرسوتی نے اپنی کتاب ”ستیارتھ پرکاش“ میں اسلام، قرآن کریم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر سینکڑوں اعتراضات کیے ہیں جن کا عملی طور پر جواب دیا گیا ہے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند کے ساتھ تو اس کا مناظرہ بھی ہوا تھا اور حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے ”حق پر کاش“ کے نام سے اس کا باقاعدہ جواب دیا ہے، مگر دیانند سرسوتی کو مسلمانوں کی طرف سے کسی غیظ و غضب کا نشانہ نہیں بننا پڑا، جبکہ اسی ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے ایک اور مصنف راج پال نے اپنی کتاب ”رنگیلا رسول“ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ گستاخی اور اہانت کے لہجے میں کیا تو اسے غازی علم دین شہید نے کیفر کردار تک پہنچا دیا۔
یہ اس بات کی تاریخی شہادت ہے کہ مسلمانوں نے تنقید اور توہین میں فرق ہمیشہ قائم رکھا ہے اور وہ اس فرق کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ البتہ مغرب میں یہ فرق ختم ہو گیا ہے اور مغرب کے دانش ور تنقید اور تنقیص کے معاملے کو خلط ملط کر کے تنقید کے نام پر تنقیص اور توہین کا حق مانگ رہے ہیں۔ آج بھی مغرب کا کوئی دانشور دلیل کے حوالے سے بات کرے، اسلام کی کسی بات پر تنقید کرے یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد اور عمل کو دلیل کی بنیاد پر ہدف تنقید بنائے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے اور ہم ماضی کی طرح اب بھی اس کا جواب دلیل سے دیں گے اور ہر علمی تنقید کا خندہ پیشانی سے سامنا کریں گے، لیکن تنقید کے نام پر توہین اور آزادئ رائے کے نام پر تحقیر کو برداشت نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ اور ان کی حمیت و غیرت کا مسئلہ ہے، جس میں کسی لچک یا نرمی کی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ اس موقع پر مغرب کے دانشوروں سے یہ پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ تمسخر، استہزا اور تحقیر کا سہارا لینے کی ضرورت اسے پیش آتی ہے جو دلائل کے ہتھیار سے محروم ہو گیا ہو، کیا مغرب کے ترکش میں دلیل نام کا کوئی تیر باقی نہیں بچا کہ وہ تحقیر و توہین کے بھونڈے حربوں پر اتر آیا ہے؟