جمہوری حکومت کی ’’ایک سالہ کارگزاری‘‘

   
۱۰ اگست ۱۹۷۳ء

(۱) قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب نے قومی اسمبلی میں جمعیۃ علماء اسلام بلوچستان کے امیر مولانا شمس الدین کی گمشدگی کے بارہ میں تحریک التواء پیش کرتے ہوئے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ شاید حکومت نے مولانا موصوف کو شہید کر دیا ہے، اسی لیے انہیں ان کے گھر سے گرفتار کرنے کے باوجود ان کے بارے میں مسلسل لاعلمی ظاہر کی جا رہی ہے۔

(۲) بلوچستان نیشنل عوامی پارٹی کے راہنما ڈاکٹر عبد الحئی بلوچ ایم این اے نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ یحییٰ حکومت نے امریکہ سے اذیت رسانی کے جو آلات منگوائے تھے، موجودہ حکومت انہیں سیاسی قیدیوں پر استعمال کر رہی ہے جس کے نتیجہ میں نیشنل عوامی پارٹی کے پانچ کارکن جیل میں ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں۔

(۳) کراچی میں تحریک استقلال کے دفتر پر سینکڑوں حملہ آوروں نے اس وقت حملہ کر کے سارا نظام درہم برہم کر دیا جب کہ تھوڑی دیر بعد تحریک کے سربراہ کارکنوں سے خطاب کرنے والے تھے۔ اور جب نوجوانوں نے اس کاروائی کی مزاحمت کی تو پولیس نے حملہ آوروں کو روکنے کی بجائے مزاحم نوجوانوں کو ننگا کر کے ان پر لاٹھیاں برسائیں۔

(۴) بلوچستان سے ہمارے نمائندہ خصوصی کی رپورٹ کے مطابق بگٹی حکومت نے سیاسی مخالفین کا راشن تک بند کر رکھا ہے۔ دیہات میں راشن لے جانے کی ممانعت ہے، جگہ جگہ چیکنگ پوسٹیں قائم ہیں، پردہ دار خواتین تک کی جامہ تلاشی ہوتی ہے، اور ایک سیر آٹا لے جانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ خصوصاً دیہاتی عوام کو سخت ترین پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

(۵) جمعیۃ علماء اسلام پنجاب کے راہنما مولانا منظور احمد چنیوٹی کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جبکہ جھنگ کے خطیب مولانا محمد فاروق کو طلب کر کے ڈپٹی کمشنر صاحب متنبہ فرما چکے ہیں کہ وہ حکومت کے خلاف کچھ نہ کہیں اور سیاسی تقریریں نہ کریں۔

یہ ہے ایک جھلک اس پارٹی کے کارناموں کی جو عوامی جمہوریت کے نام پر انتخابات لڑ کے برسرِ اقتدار آئی ہے اور جس کے منشور کے سرورق پر یہ درج ہے کہ ’’جمہوریت ہماری سیاست ہے‘‘۔ صدر مملکت نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں وفاقی حکومت کی ایک سالہ کارگزاری کی رپورٹ پیش کی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ صدر صاحب اس میں یہ تفصیل بھی عوام کو بتاتے کہ اس سال پولیس کے تشدد سے کتنے شہری ہلاک ہوئے، کتنے سیاسی کارکنوں کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے، کتنے لیڈر گرفتار ہوئے، متحدہ جمہوری محاذ کے کتنے جلسوں کو درہم برہم کیا گیا، اپوزیشن اور خصوصاً نیپ جمعیۃ کے ساتھ کتنی بار وعدے کر کے خلاف ورزی کی گئی، اور ارکان اسمبلی کے ضمیر خریدنے کے مقدس کام پر کتنی رقم خرچ ہوئی؟ آخر یہ ’’عظیم کارگزاری‘‘ بھی تو آپ ہی کی ہے، رپورٹ پیش کرنے لگے تھے تو اسے مکمل ہی کر لیتے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہدایت مرحمت فرمائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter