(بزمِ شیخ الہند کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ بزمِ شیخ الہندؒ گوجرانوالا کا شکر گزار ہوں کہ وقتاً فوقتاً اپنے بزرگوں کی یاد میں اور اپنے ماضی کو دہرانے میں کچھ نہ کچھ تقریبات اور پروگراموں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں آج کے موضوع پر کہ دارالعلوم دیوبند کا ۱۸۶۶ء میں ۳۰ مئی کو آغاز ہوا تھا، اس مناسبت سے دارالعلوم کی علمی، تعلیمی، دینی، تہذیبی اور فکری خدمات پر اس گفتگو کا اہتمام ہوا ہے، یہ ایک بہت لمبا موضوع ہے، کئی سیمینارز کو محیط ہے، لیکن بہرحال حاضری کے لیے دو چار باتیں عرض کرنا چاہوں گا، اس مناسبت سے کہ ہم دارالعلوم دیوبند کے تذکرے کے لیے بیٹھے ہیں۔
اور یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی بھی ہے، اللہ پاک نے قرآن کریم میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات میں سے بہت سے بزرگوں کا تذکرہ کر کے ایک جملہ فرمایا ’’اولئک الذین ھدی اللہ فبھداھم اقتدہ‘‘ (الانعام ۹۰) یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ پاک نے ہدایت دی تھی اور وہ ہدایت پر قائم رہے، آپ بھی ان کی پیروی کریں۔ یہ اللہ رب العزت نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ہے کہ جو گزرے ہوئے بزرگ ہوں، جنہوں نے دین اور حق پر زندگی گزاری ہو اور حق پر دنیا سے چلے گئے ہوں، وہ مقتدا ہوتے ہیں، پیشوا ہوتے ہیں، آئیڈیل ہوتے ہیں۔ ان کی پیروی کا قرآن پاک بھی کہتا ہے اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد گرامی ہے ’’من کان مستنًّا فلیستنّ بمن قد مات‘‘ جو آدمی کسی کو آئیڈیل بنانا چاہتا ہے کہ میں نے اس کے پیچھے چلنا ہے، تو جو گزر چکے ہیں ان میں سے بنائے، ’’فان الحی لا تؤمن علیہ الفتنۃ‘‘ زندہ آدمی کسی وقت بھی کسی بھی آزمائش کا شکار ہو سکتا ہے۔
یہ ہمارے جو بزرگ حق پر محنت کرتے ہوئے گزر گئے اور ان کی زندگی حق پر استقامت کی علامت اور اس کی دلیل ہے، ان بزرگوں کا تذکرہ کرتے رہنا، ان کی یاد کو تازہ کرنا، ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنا، اور خود کو ان کی اقتدا کے دائرے میں محصور رکھنا، یہ ہدایت کا بنیادی تقاضا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اپنے بزرگوں کی یاد تازہ رکھنے کی، ان کا ذکر کرتے رہنے کی، ان سے رہنمائی حاصل کرنے کی، اور ان کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
۱۸۶۶ء میں دارالعلوم دیوبند مدرسہ عربیہ کے نام سے ۱۸۵۷ء کی اس شکست و ریخت کے بعد قائم ہوا تھا، جس پر مختصر ترین تبصرہ اگر کیا جائے تو شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن قدس اللہ سرہ العزیز کے مطابق (وہ تھا) جس کا ذکر حضرت مولانا مناظرہ حسن گیلانیؒ نے ’’احاطۂ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن‘‘ میں کیا ہے۔ مولانا مناظر حسن گیلانیؒ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کچھ بزرگوں کی تلقین پر میں نے حضرت شیخ الہندؒ کی سرگرمیوں کے بارے میں ان سے پوچھا کہ حضرت آپ کی سیاسی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں، پروگرام کیا ہے، ایجنڈا اور ٹارگٹ کیا ہے؟ حضرت شیخ الہندؒ نے ایک جملہ فرمایا کہ استاد محترم مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور ان کے رفقاء نے یہ مدرسہ بنایا تھا ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کی ناکامیوں کی تلافی کے لیے۔
۱۸۵۷ء ہمارے زوال کا نقطۂ عروج تھا یعنی ہم بالکل زیرو پوائنٹ پہ چلے گئے تھے، زوال میں انتہا کو پہنچ گئے تھے، ہر چیز چھن گئی تھی، ہمارا اقتدار بھی چھن گیا تھا، سیاست بھی چھن گئی تھی، علم بھی چھن گیا تھا، نظام بھی چھن گیا تھا، قانون بھی چھن گیا تھا، ہم ہر حوالے سے زیرو پوائنٹ پہ چلے گئے تھے۔ تو گویا حضرت شیخ الہندؒ کے ارشاد کو میں یوں تعبیر کرتا ہوں کہ ہم برصغیر کی امتِ مسلمہ پسپائی کی انتہا کو پہنچ گئے تھے، نئے سرے سے زندگی کا آغاز کرنا تھا، تو اس نئے سرے سے زندگی کے آغاز کا ایک بڑا ذریعہ دینی حوالے سے دارالعلوم دیوبند تھا۔ دارالعلوم دیوبند نے مختلف دائروں میں مسلسل خدمات سرانجام دی ہیں، یہ صرف تعلیمی تحریک نہیں تھی۔ ۱۸۵۷ء کی ناکامیوں کی اگر آپ فہرست بنانا چاہیں تو مشکل ہو جائے گا، اور ان میں سے کس کس تلافی کو پُر کرنے کے لیے دیوبند نے کوشش کی ہے، وہ ایک مستقل موضوع ہے۔
ایک تو یہی تعلیمی ہے کہ ۱۸۵۷ء سے پہلے یہاں تعلیم میں درسِ نظامی کا عام رواج تھا، جس میں قدیم تعلیم بھی ہوتی تھی، جدید تعلیم بھی ہوتی تھی، معقولات بھی ہوتے تھے، منقولات بھی ہوتے تھے۔ انگریز نے سارا نظام بدل دیا، قانون بدل دیا، زبان بدل دی۔ اور نظام چلتا ہے قانون اور زبان کے دائرے میں، تو تعلیم بھی بدل گئی۔ ۱۸۵۷ء کے بعد فتاویٰ ہندیہ منسوخ کر دیا تھا، برٹش لاء لے آئے تھے، فارسی زبان ختم کر دی تھی، انگریزی زبان لے آئے تھے۔ زبان اور قانون بدلنے سے تعلیم کے تقاضے بدل گئے تھے۔ تو تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند کے ہمارے اکابر بزرگوں نے یہ فیصلہ کیا۔ دیکھیں، میں اس نکتے کو واضح کرنا چاہوں گا کہ قانون اور زبان بدلنے سے تعلیم کے تقاضے سارے یکسر بدل جاتے ہیں۔ اب ان کو فقہ کی ضرورت نہیں تھی، فارسی کی ضرورت نہیں تھی، فقہ اور قرآن پاک کو سمجھنے کے لیے عربی کی ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے نیا سسٹم بنایا تھا، نئے سسٹم کے تقاضے تھے، انگریزی کو لے آئے، برٹش لاء کو لے آئے اور اپنا نظامِ تعلیم اس بنیاد پر مرتب کیا۔
ملک کے عمومی تعلیمی ماحول سے عربی، فارسی، قرآن پاک، حدیث، فقہ یہ مضامین خارج ہو گئے۔ اللہ پاک بصیرت دیتے ہیں ہر زمانے میں اور بصیرت ہی اصل چیز ہوتی ہے۔ اللہ پاک نے کچھ بزرگوں کو یہ بصیرت دی، انہوں نے سوچا کہ اگر عربی نہ پڑھائی گئی، قرآن پاک کی تعلیم نہ ہوئی، حدیث و سنت کی تعلیم نہ ہوئی، فقہ و شریعت کی تعلیم نہ ہوئی، تو دو تین نسلوں میں معاملہ صاف ہو جائے گا، یہ اسپین بن جائے گا۔ اسباب کی دنیا میں برصغیر کو، جنوبی ایشیا کو، اندلس سے اسپین کا سفر کرنے سے کسی چیز نے روکا؟ ہمارے یہاں کے دینی دانشوروں نے، قومی دانشوروں نے یہ سوچا کہ ہمیں اپنی زبان کو بھی باقی رکھنا ہے، تعلیم کو بھی باقی رکھنا ہے، تہذیب کو بھی باقی رکھنا ہے۔
یہ چومکھی لڑائی تھی۔ عربی اور فارسی ہماری دینی و علمی زبانیں تھیں اور اردو ہماری قومی زبان تھی۔ میں یہاں یہ کہنا چاہوں گا کہ عربی اور فارسی کے تحفظ کی محنت کی ہے دیوبند نے اور اس کے متعلق مدارس نے۔ لیکن یہاں نا انصافی ہو گی اگر یہ اعتراف نہ کیا جائے کہ اردو کے تحفظ کی جدوجہد کی ہے سرسید احمد خان مرحوم نے اور ان کی پوری ٹیم نے کہ اردو باقی رہے، یہ کریڈٹ ان کا ہے کہ اردو اور اس کے متعلقات باقی رہیں۔ میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ دو کیمپ تھے ہمارے:
- دیوبند کے کیمپ نے عربی زبان کی تعلیم کی، قرآن و سنت کی تعلیم کی، اور اسلامی تہذیب کی حفاظت کی ہے،
- اور علی گڑھ نے اردو زبان کا تحفظ کیا ہے اور مسلم تہذیب کے احساس کو باقی رکھا ہے کہ ہم ہندوؤں سے الگ ہیں۔ دو قومی، جداگانہ قومیت۔
دیوبند نے تین چار محاذوں پہ کردار ادا کیا ہے۔ ایک تو تعلیم میں درسِ نظامی کا وہ نصاب جو اورنگزیب کے زمانہ سے شروع ہوا تھا وہ باقی رکھا، اور الحمد للہ پورے جنوبی ایشیا میں اب بھی قائم ہے۔ جب یہ مدرسے شروع ہوئے تھے ۱۸۶۶ء میں تو دو چار بڑے مدرسے تھے۔ مراد آباد کا مدرسہ قاسمیہ تھا، سہارنپور میں مدرسہ مظاہر العلوم تھا، ہاٹ ہزاری کا مدرسہ معین الاسلام تھا، دارالعلوم دیوبند تھا، اور اگر اس میں شامل کروں تو اس کے تھوڑے عرصے کے بعد لاہور میں جامعہ فتحیہ جو بنا ہے ۱۸۷۵ء میں، دیوبند کے مدرسے کے نو سال بعد، وہ بھی الحمد للہ آج تک چل رہا ہے، اور اب میں بھی اس کا ایک مدرس ہوں، جامعہ فتحیہ، اچھرہ، لاہور ، اس نسبت سے کہ یہ ہمارے قدیم ترین مدارس میں ہے اور ہمیں اپنے ماضی سے تعلق رکھنا چاہیے۔ خیر، اس وقت پانچ سات مدرسے تھے، اگر گنے جائیں تو۔ الحمد للہ میں نے ہاٹ ہزاری بھی دیکھا ہے، دیوبند میں متعدد بار حاضری ہوئی ہے، مظاہر العلوم بھی دیکھا ہے۔ ان مدارس کی زیارت کی ہے، ان کی برکات سے مستفید ہوا ہوں، لیکن باقی بڑے مدارس میں نہیں جا سکا۔
اس طرز پر چلنے والے مدارس کا نیٹ ورک کیا تھا؟ میں مدرسے کی تعبیر یوں کیا کرتا ہوں، میرے بچپن تک تو یہ ماحول تھا کہ مسجد کی چٹائیاں، محلے کی روٹیاں، پڑھانے والے امام صاحب، اکٹھے ہونے والے طلبہ۔ مسجد میں سوتے تھے، محلے والے روٹی کھلا دیتے تھے، مولوی صاحب پڑھا دیتے تھے، طالب علم پڑھ لیتے تھے، یہ ہمارا مدرسہ تقریباً ایک صدی تک اس صورت میں رہا ہے۔ جس کو مفکرِ اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں تعبیر کیا کہ ہمارے بزرگ گراس لیول پہ چلے گئے تھے، راڈار کی رینج سے نیچے چلے گئے تھے، ایک سو سال تک ہم راڈار کی رینج سے نیچے رہے، اور جب جڑ پکڑ لی تب دنیا کو پتہ چلا کہ یہ بھی ایک نظام ہے۔
الحمد للہ اب ذکر ہو رہا ہے تو میں تحدیثِ نعمت کا طور پر عرض کروں گا، میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر قدس اللہ سرہ العزیز نے ۱۹۴۱ء، ۱۹۴۲ء میں دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث کیا تھا۔ ۱۹۴۲ء کے آخر میں، ۱۹۴۳ء میں گکھڑ میں، جو گوجرانوالہ کا ایک قصبہ ہے، وہاں آ گئے تھے۔ میں نے وہ مدرسہ دیکھا ہے اپنے بچپن میں۔ ہر مدرس کی ایک پہچان ہوتی ہے کہ یہ معقولات کا اچھا مدرس ہے، یہ میراث کا اچھا مدرس ہے، یہ ترجمہ بہت اچھا پڑھاتا ہے، یہ اصولِ فقہ بہت اچھی پڑھاتا ہے۔ ہر مدرس کی کوئی نہ کوئی شناخت ہوتی ہے، حضرت والد صاحب کے شناخت نحو میں تھی، نحو کے امام سمجھے جاتے تھے اپنے زمانے میں، نئے مدرسین میں۔ پڑھنے والے آ جاتے تھے، چھوٹی سی مسجد میں پچیس تیس طلبہ میں نے دیکھے ہیں۔ والد صاحب پڑھا دیتے تھے، وہ پڑھ لیتے تھے، محلے والی روٹی کھلا دیتے تھے، یہ مدرسہ تھا تقریباً ۱۹۴۳ء سے لے کر ۱۹۵۲ء تک۔ ۱۹۵۲ء میں جامعہ نصرۃ العلوم بنا ہے، یہ درمیان کے نو دس سال (یہ سلسلہ رہا)۔
میں نے وہ مدرسہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، استاد کی کوئی الگ تنخواہ نہیں ہوتی تھی، وہی امام مسجد کے طور پر، طلباء آ کر پڑھ رہے ہیں۔ تو یہ اس مخلصانہ محنت کے ساتھ، جس کو مولانا علی میاں صاحبؒ فرماتے ہیں کہ راڈار کی رینج سے نیچے چلے گئے تھے، جب ان مدارس نے اپنا وجود دنیا کو دکھایا ہے تو دنیا دنگ بیٹھی ہے کہ یہ کیا ہوا ہے۔ برصغیر کا ہمارا تعلیمی نظام ایک ہی ہے، انڈیا ، بنگلہ دیش ، پاکستان ، برما ، بھوٹان، سِکم، نیپال وغیرہ تقریباً ہمارا سسٹم ایک ہی ہے۔ اگر تعداد گنی جائے تو بڑے محتاط اندازے کے مطابق چھوٹے بڑے مدارس کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہوگی۔ یہ محنت ہے، خلوص ہے، یہ ان لوگوں کی للہیت ہے۔ اور یہ تاریخ کا ایک مستقل موضوع ہے کہ انہوں نے بالکل زمین پہ بچھ کر کام کیا، اور ایسا کام کیا کہ آج، میں اسے اسلام کی نشاۃِ ثانیہ نہیں کہا کرتا کہ اسلام تو ہمیشہ رہے گا، بلکہ مسلمانوں کے نشاۃِ ثانیہ کا یہی موٹروے ہے، یہی روڈ میپ ہے ان شاء اللہ العزیز، آج دنیا بھی محسوس کر رہی ہے۔
اس پر ایک بات تو یہ کہ ہمارے تعلیمی نظام میں تبدیلیاں آئی ہیں اور مزید ہم کرتے بھی جا رہے ہیں لیکن ٹائٹل ہمارا وہی درسِ نظامی ہے جو ۱۸۵۷ء سے پہلے بھی تھا، ۱۷۵۷ء سے پہلے بھی تھا، اورنگزیب کے زمانے میں چلا تھا۔ بعض لوگوں کے خلوص میں کتنی برکات ہوتی ہیں کہ آج ملّا نظام الدین سہالوی رحمۃ اللہ علیہ کا درسِ نظامی برصغیر میں کہاں کہاں نہیں ہے۔ وہ فرنگی محل کا مدرسہ جو بنا، ایک لاولد فرنگی فوت ہو گیا، اس کی کوٹھی اورنگزیب نے ملّا نظام الدینؒ کو دے دی، ، انہوں نے مدرسہ بنا لیا، آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ درسِ نظامی کا سسٹم برصغیر میں قدم قدم پر ہے۔
اور دیوبند کا ایک بڑا محاذ تہذیبی تھا کہ اپنی وضع قطع، اپنی شکل و صورت، اپنا لباس اور اپنی روایات، الحمد للہ یہ محاذ قائم ہے۔ بلکہ اگر کچھ دوست ناراض نہ ہو جائیں تو تہذیب کے تحفظ کی جنگ لڑنے والے بھی اپنی تہذیب قائم نہیں رکھ سکے تھے۔ میں ان کی اس جنگ کا اعتراف کرتا ہوں کہ مسلم تہذیب الگ ہے، ہندو تہذیب الگ ہے اور فرنگی تہذیب الگ ہے۔ اپنی تہذیب کی انہوں نے جنگ لڑی ہے اور کامیاب لڑی ہے۔ لیکن شخصی حد تک وہ تہذیب اور وہ معاشرت الحمدللہ دیوبند نے ہی قائم رکھی ہے اور دیوبند کی طرز پر چلنے والے مدارس نے ہی وہ وضع قطع، وہ لباس، وہ چال ڈھال، وہ اٹھنا بیٹھنا، نشست و برخاست، سارا کچھ اب تک الحمدللہ وہی قائم رکھا ہے۔ اور جہاں کوئی جدت ہوتی ہے تو وہ محسوس ہوتی ہے کہ یار یہ ہمارے ماحول کیا ہو رہا ہے، ہمارا نظام تو یہ نہیں ہے۔ یہ ہماری روایات، ثقافت، تہذیب، تمدن، لباس، زبان، ماحول، گفتگو، یہ قائم ہے۔
دیوبند اور اس سے متعلقہ مدارس نے ایک کام اور کیا ہے جس کو دنیا آج محسوس کر رہی ہے کہ برصغیر کی سیاسی جدوجہد کو کھیپ مہیا کی ہے۔ سیاسی فکر کی آبیاری اگر کی ہے تو ان مدارس نے کی ہے۔ یہ بھی کمال کی حکمتِ عملی تھی کہ یہ مورچے نہیں بنے مگر نرسری رہے ہیں اور آج بھی یہ تعلیمی نرسری، فکری نرسری اور تربیتی نرسری ہیں۔ ایک واقعہ شیئر کرنا چاہوں گا جو والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا بھی ہے اور ہمیں سناتے بھی تھے۔ والد صاحب اور چچا جان حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ جب دارالعلوم دیوبند میں پڑھتے تھے، اکٹھے ایک سال انہوں نے دورہ کیا۔ اس سال شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے بخاری شریف کا آغاز کیا تو وہ گرفتار ہو گئے۔ اب طلباء کا استاد گرفتار ہو اور استاد بھی مولانا حسین احمد مدنیؒ ہوں تو طالب علم آرام سے بیٹھیں گے؟ والد صاحب بتاتے ہیں کہ وہاں طلباء نے ہنگامے شروع کر دیے۔ تعلیم بند ہو گئی، بائیکاٹ ہو گیا، ہڑتالیں ہو گئیں، جلوس نکلنا شروع ہو گئے۔ وہ جو جلوس نکلتے تھے تو اس نیٹ ورک کی قیادت والد صاحبؒ کرتے تھے سرفراز سرحدی کے نام سے۔ کہتے ہیں کہ ہمارا ایک نظم بنا تھا طلبہ کا، بنگال، افغان، کشمیری، نیپالی وغیرہ کے ان سارے مسلم طلبہ کی ایک مشترکہ کمیٹی بنی تھی، اس کمیٹی کی قیادت والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ نے کی تھی، یہ انہوں نے لکھا ہے۔ مجھے کوئی پوچھتا ہے نا کہ تمہارے اندر یہ تحریکی ذوق کہاں سے آیا ہے، میں کہا کرتا ہوں کہ والد صاحبؒ سے منتقل ہوا ہے۔
میں جو بات کر رہا ہوں کہ مدرسے کو مورچہ نہیں بننے دیا۔ اچھا، جب بات بڑھ گئی اور خطرہ پیدا ہو گیا کہ دارالعلوم دیوبند کو نقصان پہنچے گا، والد صاحبؒ کہتے ہیں کہ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مفتئ اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی اللہ قدس اللہ سرہ العزیز تشریف لائے، ہمیں بٹھایا اور سمجھایا کہ بیٹا، ٹھیک ہے آپ جذبات کا اظہار کریں لیکن مدرسے کو داؤ پر نہ لگائیں۔ میں دیوبند کا مزاج عرض کر رہا ہوں کہ اپنا کام کریں، جذبات کا اظہار کریں، آپ کی حمیت ہے، غیرت ہے، لیکن مدرسے اور تعلیم کو داؤ پر نہ لگائیں۔ والد صاحبؒ کہتے ہیں کہ ہم نے پھر آپس میں فیصلہ کیا اور حضرت مفتی کفایت اللہ صاحبؒ کی مداخلت پر ہم نے ہڑتال ختم کی، لیکن اتنا کچھ ہم کر چکے تھے کہ اس سال دارالعلوم کے سالانہ امتحان نہیں ہو سکے تھے اور ہمیں اگلے سال امتحان دینا پڑا تھا۔
میں نے بنیادی بات یہ کی ہے کہ دیوبند اور ان سے متعلقہ مدارس تعلیمی مرکز رہے ہیں، تہذیبی مرکز رہے ہیں، تربیتی مرکز رہے ہیں، سیاسی شعور کی نرسری رہے ہیں، لیکن مورچے کبھی نہیں بنے۔ اس لیے یہاں بھی جب کسی مدرسہ کے مورچہ بننے کی بات آتی ہے تو میں ہمیشہ مخالف ہوتا ہوں کہ نہیں بھئی نہیں، یہ مورچے نہیں ہیں، یہ تعلیمی مرکز ہیں، فکری تربیت کے مرکز ہیں،الحمدللہ۔
میں یہ کہا کرتا ہوں کہ آپ دیکھ لیں، بر صغیر کی جو سیاسی تحریکات ہیں ان میں تحریکِ آزادی سب سے بڑی تحریک ہے۔ مسلم قیادت کہاں سے آئی ہے؟ یہ علماء تھے۔ اور جو علماء نہیں تھے وہ بھی علماء کے نام سے سامنے آئے ہیں۔ مولانا محمد جوہرؒ ہمارے بہت عظیم لیڈر ہیں اور علی گڑھ کے گریجویٹ ہیں، لیکن ہم حضرت مولانا محمد علی جوہر رحمہ اللہ تعالیٰ کہہ کے ان کے سامنے سر جھکاتے ہیں۔ حضرت مولانا شوکت علی، حضرت مولانا ظفر علی خان رحمہم اللہ تعالیٰ، یہ علی گڑھ کے گریجویٹ ہیں۔ مولانا ظفر علی خانؒ وزیر آباد کے تھے۔ وزیر آباد والوں نے ایک سیمینار کیا مولانا ظفر علی خان مرحوم و مغفور کی یاد میں، تو مجھے بھی بلا لیا۔ میں نے کہا کہ وزیرآبادیو! تم نے ایک لڑکا بھیجا تھا علی گڑھ میں گریجویٹ بننے کے لیے، وہ ہتھے چڑھ گیا شیخ الہندؒ کی تحریک کے، اور مولانا ظفر علی خان بن کر واپس آیا تھا۔
یہ سارے بڑی عظمت کے لوگ تھے، لیکن جو بات میں کہہ رہا ہوں کہ اس تحریکِ آزادی کو مسلم دنیا میں جو قیادت فراہم ہوئی ہے، وہ یا تو مولوی تھے، یا پھر انہیں مولوی کا ٹائٹل اختیار کرنا پڑا تھا۔ اور یہ کس کا فیض ہے؟ مدارس کا۔ تحریکِ پاکستان کو دیکھ لیں کہ بنیادی پشت پناہی کس نے فراہم کی ہے؟ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے، حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ نے ، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے۔ دوسرے مکاتبِ فکر کے علماء بھی ہیں، حضرت مولانا عبد الحامد بدایونیؒ ہیں بریلوی حضرات میں سے، اہل حدیث حضرات میں سے مولانا ابراہیم میر سیالکوٹیؒ ہیں، مولانا داؤد غزنویؒ ہیں۔ یعنی علماء نے سپورٹ فراہم کی ہے تحریکِ پاکستان کو۔ اس کے بعد جتنی تحریکات بھی آپ دیکھ لیں، تحریکِ ختمِ نبوت دیکھ لیں، تحریکِ نظامِ مصطفٰیؐ دیکھ لیں، تحریکِ نفاذِ شریعت دیکھ لیں، یہ دینی مدارس کی فکری تربیت کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے تحریکوں کو قیادت فراہم کی ہے۔
میں نے عرض کیا ہے کہ یہ مختلف دائرے تھے۔ موجودہ صورتحال کیا ہے؟ میں ایک رپورٹ کا حوالہ دیا کرتا ہوں، آج بھی دوں گا، پندرہ بیس سال پہلے کی بات ہے، برطانیہ کے ایک بڑا اخبار ہے ’’دی انڈیپنڈنٹ‘‘ اس نے ایک فیچر شائع کیا شر کے مراکز کے عنوان سے۔ اب مغرب شر کسے کہتا ہے؟ مغرب آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی کو شر کہتا ہے، ہم آسمانی تعلیمات سے انحراف کو شر کہتے ہیں۔ میں کہا کرتا ہوں کہ سماج کے لیے مغرب اور ہمارے نقطۂ نظر میں بنیادی فرق یہ ہے جس کو وہ شر کہتے ہیں اس کو ہم خیر کہتے ہیں، اور جس کو ہم شر کہتے ہیں اس کو وہ خیر کہتے ہیں ۔ اس لیے ایڈجسٹمنٹ کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ خیر اور شر میں مفاہمت نہیں ہوا کرتی۔ اس رپورٹ کا عنوان تھا شر کے مراکز، اور اس کا تجزیہ یہ تھا کہ دنیا میں جو فنڈامینٹلزم ہے یہ کس نے پیدا کیا ہے۔ اس وقت فنڈامینٹلزم کی اصطلاح تھی، یہ دہشت گردی کی اصطلاح بعد میں آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے دینی مدارس نے فنڈامینٹلزم کو فروغ دیا ہے۔ رپورٹ کے اوپر دو تصویریں لگی ہوئی ہیں ، ایک دارالعلوم دیوبند کے دارالحدیث کی اور دوسری بستی نظام الدین کے تبلیغی مرکز کی۔ میں نے اس پر باقاعدہ برمنگھم کی عالمی ختم نبوت کانفرنس میں تقریر کی کہ میں ’’دی انڈیپنڈنٹ‘‘ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ انہوں نے صورتحال کی صحیح نشاندہی کی ہے کہ مغرب کی مادر پدر آزاد سولائزیشن کا اصل ٹکراؤ کس سے ہے۔ لوگوں نے مذمت کی لیکن میں نے شکریہ ادا کیا کہ تم نے بہت اچھا کیا ہے جو یہ واضح کیا ہے کہ ہماری اصل لڑائی کس سے ہے۔ اور ایک جملہ کا میں نے اضافہ کیا کہ انہوں نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ شر کے یہی دو مراکز ہیں، ایک مینوفیکچرر ہے اور دوسرا ڈسٹری بیوٹر ہے۔ یہ میں اپنی زبان میں عرض کر رہا ہوں، ممکن ہے میری زبان کچھ غیر محتاط ہو گئی ہو۔
بہرحال دیوبند نے اور دیوبند کے ساتھ چلنے والے قافلے نے ہمارے عقیدے کا تحفظ کیا ہے، ہماری تہذیب کا تحفظ کیا ہے، علوم کا تحفظ کیا ہے، ہمیں سیاسی آزادی اور دینی حمیت عطا کی ہے، ہمیں مستقبل کے امکانات اور خدشات کو سامنے رکھنے کا حوصلہ و شعور بخشا ہے، اور آج ہم اس مقام پہ کھڑے ہیں، ان شاءاللہ العزیز یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔