روزنامہ اسلام لاہور ۱۸ نومبر ۲۰۰۵ء کی رپورٹ کے مطابق حکومت پنجاب نے گوجرانوالہ میں متحدہ مجلس عمل کے ممبر قومی اسمبلی مولانا قاضی حمید اللہ خان اور ان کے رفقاء کے خلاف میراتھن ریس کو روکنے کے لیے مظاہرہ کرنے کے الزام میں درج مقدمہ واپس لے لیا ہے جس پر انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج طارق افتخار نے قاضی صاحب موصوف اور ان کے ۹۶ رفقاء کو باعزت بری کر دیا ہے۔
یہ مقدمہ ۳ اپریل ۲۰۰۵ء کو جناح سٹیڈیم گوجرانوالہ کے باہر میراتھن ریس کے پروگرام میں نوجوان لڑکیوں کی کھلے بندوں ریس کو روکنے کے لیے مبینہ طور پر ہنگامہ اور تشدد کرنے کے الزام میں درج کیا گیا تھا اور مولانا قاضی حمید اللہ خان اپنے متعدد رفقاء سمیت اس مقدمہ کے تحت گرفتار ہونے کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے تھے۔ قاضی صاحب کا موقف تھا کہ ایک اسلامی ریاست میں نوجوان لڑکیوں کی کھلے بندوں دوڑ لگوانا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ، اس لیے انہوں نے اسے رکوانے کے لیے پرامن مظاہرہ کیا تھا جسے پولیس کی ناروا مداخلت نے خوامخواہ تشدد کا رنگ دے دیا۔
ہم اس باعزت بریت پر قاضی صاحب موصوف اور ان کے رفقاء کو مبارک باد دیتے ہوئے حکومت پنجاب کے اس اقدام کی تحسین کرتے ہیں کہ اس نے یہ مقدمہ واپس لے کر عوام کے دینی جذبات کا احترام کیا ہے، ہمیں امید ہے کہ حکومت آئندہ ایسے اقدامات سے گریز کرے گی جس سے لوگوں کے دینی جذبات مجروح ہوتے ہوں اور اسلامی روایات پر حرف آتا ہو۔