ان دنوں آزاد کشمیر میں نئے انتخابات کی خاطر سیاسی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں۔ توقع ہے کہ آئینی فارمولے پر حکومتِ پاکستان اور حکومتِ آزاد کشمیر کے مابین مفاہمت کے بعد انتخابات کے حتمی پروگرام کا اعلان ہو جائے گا۔ ریاستی انتخابات کے ضمن میں ہم کوئی حتمی رائے قائم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں لیکن ریاست کے عوام سے یہ گزارش ضرور کریں گے کہ وہ اس نازک موڑ پر اپنی نئی قیادت کا انتخاب کرتے وقت سابقہ تجربات کو سامنے رکھیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ریاستی سیاست میں پیش پیش راہنماؤں میں سے بیشتر وہ ہیں جو کسی نہ کسی وقت ریاست میں اقتدار پر فائز رہ چکے ہیں۔ لیکن:
- تحریک آزادی کی عملی قیادت،
- اسلام کے عادلانہ نظام کے نفاذ،
- اور ریاستی عوام کے مسائل کے حل
کی کسوٹی پر انہیں پرکھا جائے تو شاید وہ اس پر پورے نہ اتر سکیں اور ان کا پہلا دورِ اقتدار بھی ان تقاضوں کو پورا نہ کر سکا ہو۔ اس لیے ہماری دیانت دارانہ رائے یہ ہے کہ آزادکشمیر کے اس طبقہ کو آگے آنا چاہیے جس نے:
- آزادی کی جنگ میں براہ راست حصہ لیا ہے،
- جو اسلام کے عادلانہ نظام کے عملی نفاذ کی صلاحیت رکھتا ہے،
- اور جو عوام کے مسائل سے کماحقہ باخبر اور انہیں حل کرنے کے جذبۂ صادق سے بہرہ ور ہے۔
یہ طبقہ بلاشبہ علماء حق کا غیور و جسور قافلہ ہے جس کا آگے بڑھ کر قوم کی قیادت سنبھالنا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ ہم علماء آزاد کشمیر سے یہ استدعا کریں گے کہ وہ اپنے فرائض کو پہچانیں، اپنی صفوں کو منظم کریں اور آگے بڑھ کر قوم کی قیادت کریں۔ اگر اس وقت ان کی سست روی کے باعث کوئی غلط قیادت سامنے آگئی تو عند اللہ و عند الناس اس کی تمام تر ذمہ داری علماء کرام پر ہوگی۔