اساتذہ کی حق تلفی ‒ سکولوں کی عمارتیں ‒ ناقص چاول ‒ نبوت کا دعویدار ‒ قمار بازی

   
تاریخ : 
۱۴ مئی ۱۹۷۱ء

پنجاب ٹیچرز ایسوسی ایشن کی ضلع میانوالی شاخ نے ایک قرارداد میں انکشاف کیا ہے کہ حالیہ انتخابات میں جن محکموں کے ملازمین کو ڈیوٹی پر لگایا گیا ہے ان میں سب کو ان کی ڈیوٹیوں کے معاوضے وصول ہو چکے ہیں لیکن اساتذہ ابھی تک اس حق سے محروم ہیں۔ یہ بات انتہائی نامناسب اور افسوسناک ہے، اساتذہ کو ان کی تدریسی خدمات کے پہلے ہی کون سے لمبے چوڑے معاوضے ملتے ہیں جو ان کی اضافی ڈیوٹیز کے معاوضوں کو بھی روک لیا گیا ہے۔ عام انتخابات کو مکمل ہوئے تین ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور معاوضوں میں اتنی تاخیر بلاشبہ اساتذہ کی حق تلفی ہے۔ ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اساتذہ کا یہ جائز حق ان کو جلد از جلد ادا کرے، امید ہے کہ ہمارے حکام اس گزارش پر ہمدردانہ غور فرمائیں گے۔

سکولوں کی بوسیدہ عمارتیں

ایک اخباری اطلاع کے مطابق لاہور کے ایک ہائی سکول کی چھت گرنے سے ایک مدرس اور متعدد بچے زخمی ہوگئے ہیں۔ اس سے قبل بھی وقتاً فوقتاً بہت سے اسکولوں اور خصوصاً میونسپل کمیٹیوں کے تحت چلائے جانے والے اسکولوں کے بارے میں اس قسم کی شکایات سننے میں آتی رہی ہیں مگر ہمارے حکام نے ان عمارتوں کی اصلاح کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایک سینما کی عمارت گرنے سے ہمارے نازک مزاج حکام نے ملک کے بیشتر سینما گھروں کی عمارتوں کو درست کرانے کے لیے بڑی تیزی سے عملی اقدامات کیے تھے لیکن شاید اسکول ان کی نگاہ میں ابھی تک اتنی اہمیت نہیں پا سکے جبھی وہ نظر عنایت سے ہنوز محروم ہیں۔ لاہور کے مذکورہ واقعہ کے بعد اس معاملہ میں سستی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ محکمہ تعلیم اور میونسپل کمیٹیاں اپنے اپنے دائرہ کار میں اسکولوں کی بوسیدہ عمارتوں کی اصلاح کے لیے جلد از جلد کارروائی کریں گے۔

ناقص چالوں کی سپلائی

ایک اخباری اطلاع کے مطابق حکومت نے محکمہ خوراک کے بعض ایسے افسروں کے خلاف کارروائی کی ہے جو بڑھیا چاولوں کی قیمت پر سرکاری گوداموں کے لیے ناقص چاول مہیا کرنے میں مصروف تھے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ افسر اس طرح سرکاری رقوم کو خردبرد کر رہے تھے۔ حکومت کی یہ کارروائی لائق تحسین ہے، دوسرے محکموں میں بھی ایسے افراد کی کمی نہیں جو اپنے عہدوں سے ناجائز فائدہ اٹھا کر سرکاری رقوم دبانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، ان سب کے خلاف مناسب کارروائی ہونی چاہیے ۔

نبوت کا دعوے دار

ضلع گجرات میں تھانہ پھالیہ کے کسی گاؤں کے ایک شخص عبد الرحمان میمون نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور اپنے نبی اور خلیفۃ اللہ ہونے پر کچھ کتابیں بھی شائع کی ہیں۔ پہلے پہل تو لوگوں نے اسے بہت روکا مگر جب وہ اس کاروبار سے باز نہ آیا تو عوام کی شکایت پر تھانہ پھالیہ کی پولیس نے ’’نبی صاحب‘‘ کو حوالات میں بند کر دیا۔

آقائے نامدار سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ردائے ختم نبوت پر حملہ آور ہونے والے بدبختوں کے بارے میں امت مسلمہ کے حکمرانوں کا، خواہ وہ بنی امیہ ہوں یا بنی عباس یا بنی عثمان، سب کا رویہ دوٹوک اور فیصلہ کن رہا ہے۔ اسی لیے ان کے دور میں اس قسم کا کوئی فتنہ پرور امت مسلمہ کو زیادہ دیر تک پریشان نہیں کر سکا۔ فرنگی سامراج کے دور میں مرزا غلام احمد قادیانی علیہ ما علیہ کو چھٹی مل گئی اور اس فتنہ پردازی نے جو گل کھلائے وہ آج ساری امت کے سامنے ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ ہمارے حکمران اس معاملہ میں فرنگی کی تابعداری کرنے کی بجائے مسلم حکمرانوں کا اسوہ اپناتے مگر ان کی یا ہماری بدقسمتی تھی کہ وہ اس بات کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ پھالیہ پولیس مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے ایک اہم اسلامی عقیدہ کے تحفظ کے لیے جرأت و غیرت سے کام لیا ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو غیرت و جرأت عطا فرمائیں۔

قمار بازی کا بڑھتا ہوا رجحان

لاہور پولیس نے قمار بازی کے کچھ اڈوں پر چھاپے مار کر بعض افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ اور ایک اخباری اطلاع مظہر ہے کہ یہ مرض اب اتنا عام ہوتا جا رہا ہے کہ اچھے بھلے تعلیم یافتہ اور سمجھ بوجھ کے مالک حضرات بھی اس میں ملوث ہیں۔

قمار بازی اسلام میں قطعاً حرام ہے اور ایک مسلم ملک میں اس قدر فروغ ناقابل برداشت امر ہے۔ سود، شراب، جوا، زنا، فحاشی اور دیگر محرمات کا انسداد کیے بغیر ہم اپنے قومی وجود کو نظریاتی بنیادوں پر پوری طرح استوار نہیں کر سکتے۔ اور اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ اسلام کا منصفانہ، سستا اور سہل الحصول عدالتی نظام اور شرعی حدود کا نفاذ ملک میں کر دیا جائے۔ اس حقیقت کو اپنائے بغیر محض چھاپے مارنے سے ان جرائم کا ختم ہونا محال ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter