حالات و واقعات

   
۱۴ مئی ۱۹۷۱ء

پولیس کی کارکردگی

پنجاب پولیس کے افسر اعلیٰ جناب انور آفریدی نے ایک پریس کانفرنس میں پولیس کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے بعض خامیوں کے ضمن میں پولیس کمیشن کی سفارشات کا ذکر کیا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ محکمانہ کارکردگی کو بہتر بنانے کی پوری کوشش کی جائے گی۔

جہاں تک پولیس کی کارکردگی پر لوگوں کے شبہات اور اعتراضات کا تعلق ہے انہیں یکسر جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ بعض باتیں یقیناً ایسی ہیں جو پولیس کے کردار کو عوام کی نظروں میں مشکوک بنا دیتی ہیں اور خصوصاً کچھ آفیسرز کا رعونت آمیز رویہ، جس کا اعتراف خود جناب آفریدی نے بھی کیا ہے، پولیس کی کارکردگی کے بہتر ہونے میں رکاوٹ ہے۔ اس کے علاوہ رشوت خوری اور اقرباء پروری کا مرض بھی دوسرے محکموں کی نسبت اس محکمہ میں کچھ زیادہ ہی پرورش پا گیا ہے۔ اس طرح قانون کی حفاظت کرنے والا یہ محکمہ عام زندگی پر قانون کی گرفت مضبوط رکھنے میں ناکام نظر آرہا ہے۔

دوسری طرف پولیس سے متعلقہ افراد کو بھی بعض شکایات اور ان کی بعض ضروریات ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ ان شکایات و ضروریات کو پورا کیے بغیر ان سے بہتر کارکردگی کی توقع رکھنا فضول ہے۔ آفریدی صاحب نے جس پولیس کمیشن کا ذکر کیا ہے اس کی رپورٹ ابھی تک ہمارے سامنے نہیں آئی۔ ہماری رائے میں عوامی زندگی کے تمام شعبوں سے اس قدر وسیع تعلق رکھنے والے محکمہ کی کارکردگی کے بارے میں محدود تجزیہ کافی نہیں ہے بلکہ حکومت کو چاہیے وہ ذرا کھل کر عوامی سطح پر اس امر کا جائزہ لے۔ اس کے لیے اگر ایک سوالنامہ جاری کیا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا۔ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اس سوالنامہ کے جواب میں پولیس کے بارے میں اپنی شکایات کا اظہار کریں، اور ساتھ ہی ساتھ پولیس کے حکام اور سپاہیوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی شکایات اور ضروریات کو بلاجھجھک ظاہر کریں۔ اور پھر تصویر کے دونوں رخوں کو سامنے رکھ کر محکمہ پولیس کی کارکردگی کی اصلاح کے لیے کوئی قدم اٹھایا جائے۔ ہماری رائے میں اصلاح احوال کا یہ راستہ زیادہ مفید ثابت ہو گا۔

اساتذہ کی حق تلفی

پنجاب ٹیچرز ایسوسی ایشن کی ضلع میانوالی شاخ نے ایک قرارداد میں انکشاف کیا ہے کہ حالیہ انتخابات میں جن محکموں کے ملازمین کو ڈیوٹی پر لگایا گیا ہے ان میں سب کو ان کی ڈیوٹیوں کے معاوضے وصول ہو چکے ہیں لیکن اساتذہ ابھی تک اس حق سے محروم ہیں۔ یہ بات انتہائی نامناسب اور افسوسناک ہے، اساتذہ کو ان کی تدریسی خدمات کے پہلے ہی کون سے لمبے چوڑے معاوضے ملتے ہیں جو ان کی اضافی ڈیوٹیز کے معاوضوں کو بھی روک لیا گیا ہے۔ عام انتخابات کو مکمل ہوئے تین ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور معاوضوں میں اتنی تاخیر بلاشبہ اساتذہ کی حق تلفی ہے۔ ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اساتذہ کا یہ جائز حق ان کو جلد از جلد ادا کرے، امید ہے کہ ہمارے حکام اس گزارش پر ہمدردانہ غور فرمائیں گے۔

ناقص چالوں کی سپلائی

ایک اخباری اطلاع کے مطابق حکومت نے محکمہ خوراک کے بعض ایسے افسروں کے خلاف کارروائی کی ہے جو بڑھیا چاولوں کی قیمت پر سرکاری گوداموں کے لیے ناقص چاول مہیا کرنے میں مصروف تھے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ افسر اس طرح سرکاری رقوم کو خردبرد کر رہے تھے۔ حکومت کی یہ کارروائی لائق تحسین ہے، دوسرے محکموں میں بھی ایسے افراد کی کمی نہیں جو اپنے عہدوں سے ناجائز فائدہ اٹھا کر سرکاری رقوم دبانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، ان سب کے خلاف مناسب کارروائی ہونی چاہیے ۔

نبوت کا دعوے دار

ضلع گجرات میں تھانہ پھالیہ کے کسی گاؤں کے ایک شخص عبد الرحمان میمون نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور اپنے نبی اور خلیفۃ اللہ ہونے پر کچھ کتابیں بھی شائع کی ہیں۔ پہلے پہل تو لوگوں نے اسے بہت روکا مگر جب وہ اس کاروبار سے باز نہ آیا تو عوام کی شکایت پر تھانہ پھالیہ کی پولیس نے ’’نبی صاحب‘‘ کو حوالات میں بند کر دیا۔

آقائے نامدار سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ردائے ختم نبوت پر حملہ آور ہونے والے بدبختوں کے بارے میں امت مسلمہ کے حکمرانوں کا، خواہ وہ بنی امیہ ہوں یا بنی عباس یا بنی عثمان، سب کا رویہ دوٹوک اور فیصلہ کن رہا ہے۔ اسی لیے ان کے دور میں اس قسم کا کوئی فتنہ پرور امت مسلمہ کو زیادہ دیر تک پریشان نہیں کر سکا۔ فرنگی سامراج کے دور میں مرزا غلام احمد قادیانی علیہ ما علیہ کو چھٹی مل گئی اور اس فتنہ پردازی نے جو گل کھلائے وہ آج ساری امت کے سامنے ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ ہمارے حکمران اس معاملہ میں فرنگی کی تابعداری کرنے کی بجائے مسلم حکمرانوں کا اسوہ اپناتے مگر ان کی یا ہماری بدقسمتی تھی کہ وہ اس بات کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ پھالیہ پولیس مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے ایک اہم اسلامی عقیدہ کے تحفظ کے لیے جرأت و غیرت سے کام لیا ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو غیرت و جرأت عطا فرمائیں۔

قمار بازی کا بڑھتا ہوا رجحان

لاہور پولیس نے قمار بازی کے کچھ اڈوں پر چھاپے مار کر بعض افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ اور ایک اخباری اطلاع مظہر ہے کہ یہ مرض اب اتنا عام ہوتا جا رہا ہے کہ اچھے بھلے تعلیم یافتہ اور سمجھ بوجھ کے مالک حضرات بھی اس میں ملوث ہیں۔

قمار بازی اسلام میں قطعاً حرام ہے اور ایک مسلم ملک میں اس قدر فروغ ناقابل برداشت امر ہے۔ سود، شراب، جوا، زنا، فحاشی اور دیگر محرمات کا انسداد کیے بغیر ہم اپنے قومی وجود کو نظریاتی بنیادوں پر پوری طرح استوار نہیں کر سکتے۔ اور اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ اسلام کا منصفانہ، سستا اور سہل الحصول عدالتی نظام اور شرعی حدود کا نفاذ ملک میں کر دیا جائے۔ اس حقیقت کو اپنائے بغیر محض چھاپے مارنے سے ان جرائم کا ختم ہونا محال ہے۔

سکولوں کی بوسیدہ عمارتیں

ایک اخباری اطلاع کے مطابق لاہور کے ایک ہائی سکول کی چھت گرنے سے ایک مدرس اور متعدد بچے زخمی ہوگئے ہیں۔ اس سے قبل بھی وقتاً فوقتاً بہت سے اسکولوں اور خصوصاً میونسپل کمیٹیوں کے تحت چلائے جانے والے اسکولوں کے بارے میں اس قسم کی شکایات سننے میں آتی رہی ہیں مگر ہمارے حکام نے ان عمارتوں کی اصلاح کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایک سینما کی عمارت گرنے سے ہمارے نازک مزاج حکام نے ملک کے بیشتر سینما گھروں کی عمارتوں کو درست کرانے کے لیے بڑی تیزی سے عملی اقدامات کیے تھے لیکن شاید اسکول ان کی نگاہ میں ابھی تک اتنی اہمیت نہیں پا سکے جبھی وہ نظر عنایت سے ہنوز محروم ہیں۔ لاہور کے مذکورہ واقعہ کے بعد اس معاملہ میں سستی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ محکمہ تعلیم اور میونسپل کمیٹیاں اپنے اپنے دائرہ کار میں اسکولوں کی بوسیدہ عمارتوں کی اصلاح کے لیے جلد از جلد کارروائی کریں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter