قرآن پاک کی حق تلفی کے سدباب کا مستحسن فیصلہ، مگر ۔ ۔ ۔

   
۵ اگست ۲۰۰۴ء

”آن لائن“ کی خبر کے مطابق وفاقی وزیر مذہبی امور جناب اعجاز الحق نے قومی اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل کے ارکان جناب لیاقت بلوچ، مولانا عبد المالک خان، عبد الاکبر چترالی اور جناب اسد اللہ بھٹو کے ”توجہ دلاؤ نوٹس“ پر کہا ہے کہ قرآن کریم کی طباعت اور اشاعت میں غلطیوں کا معاملہ ہمارے نوٹس میں ہے اور صوبائی حکومتوں کو اس سلسلہ میں ہدایات دی گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ قرآن کریم کی طباعت و اشاعت کے لیے پینتالیس گرام کاغذ کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے، اس سے ہلکے کاغذ پر قرآن کریم کی اجازت نہیں ہے۔ جبکہ قرآن کریم کی بے حرمتی روکنے کے لیے ضلعی سطح پر قرآن محل بنائے جا رہے ہیں اور جگہ جگہ قرآنی اوراق کے لیے گرین باکسز لگائے جا رہے ہیں، نیز قرآن کریم کے پھٹے ہوئے اور شہید ہونے والے اوراق کو دوبارہ قرآن کریم کی طباعت کے قابل بنانے کے لیے ری سائیکلنگ شروع کرنے کا پروگرام بھی بنایا جا رہا ہے۔

قرآن کریم کی حرمت و تقدس کے تحفظ کے سلسلہ میں جناب اعجاز الحق کی اس وضاحت پر ظاہر ہے کہ اطمینان کا اظہار ہی کیا جائے گا کہ ادب و حرمت قرآن کریم کے حقوق میں سے ہے، اس کے تقدس کو ملحوظ رکھنا ہمارے ایمان کا تقاضا ہے اور اس کی بے حرمتی سخت ترین گناہ ہے، جو ارادہ اور عمد کی صورت میں کفر و ارتداد تک پہنچ جاتی ہے۔ بے حرمتی کی جن صورتوں کے تدارک کے لیے مذکورہ بالا اقدامات کا حوالہ دیا گیا ہے وہ بھی ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔ بعض غیر ذمہ دار ناجائز کمائی کی خاطر ناقص طباعت کے ساتھ ہلکے کاغذ پر قرآن کریم شائع کرتے ہیں، جس سے قرآن پاک کے جلد بوسیدہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے اور الفاظ کی صحت کو یقینی بنانے کے لیے بسا اوقات پروف ریڈنگ پر بھی ضروری توجہ نہیں دی جاتی۔ اس کی عملی شکل دیکھنی ہو تو شہروں سے دور دیہات میں پھیری لگا کر قرآن کریم اور دیگر کتابیں فروخت کرنے والوں کے ہاں قرآن کریم کے ناقص طباعت کے نسخے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ۱۹۷۳ء میں ایک آرڈیننس جاری ہوا تھا جو اب بھی ملک میں نافذ ہے اور بڑے شہروں کی حد تک اس پر خاص عمل بھی ہو رہا ہے، لیکن دیہاتی ماحول میں اس کے اثرات کم دکھائی دیتے ہیں۔

اسی طرح قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق اور پھٹے ہوئے نسخوں کا مسئلہ بھی خاصا اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے لیے ہمارے ہاں عام طور پر دو طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ انہیں جمع کر کے کسی محفوظ جگہ میں دفن کر دیا جائے اور دوسرا یہ کہ انہیں جلا کر ان کی راکھ کو زمین میں دفن کیا جائے۔ فقہاء کرام نے دونوں طریقوں کی موقع محل کے مطابق اجازت دی ہے اور دونوں طریقے شرعاً درست ہیں، لیکن جلانے کی صورت میں بسا اوقات عوام میں غلط فہمیاں پھیلتی ہیں اور اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ کئی مقامات پر اس نوعیت کے جھگڑے ہو چکے ہیں کہ جلانے والوں نے قرآنی اوراق کو بے حرمتی سے بچانے کے لیے نذر آتش کیا، مگر دیکھنے والوں نے اسے توہین قرار دے کر ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اس لیے یہ تجویز نہایت مناسب ہے کہ قرآن کریم کے پھٹے ہوئے اوراق کو جمع کرنے کا اہتمام کیا جائے اور ری سائیکلنگ کے ذریعے انہیں دوبارہ قابل استعمال بنا کر قرآن کریم کی طباعت کے لیے مصرف میں لایا جائے گا۔

البتہ جناب اعجاز الحق کے اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ہم ان کی خدمت میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ قرآن کریم کی توہین اور بے حرمتی کی صرف یہی صورتیں ہمارے ہاں مروج نہیں ہیں، بلکہ بہت سی اور عملی صورتیں بھی پائی جاتی ہیں جو قرآن کریم کی سراسر توہین ہیں، مگر ہم سب خاموشی کے ساتھ انہیں برداشت کرتے چلے جا رہے ہیں۔ مثلا روحانی علاج کے نام پر سفلی عمل کرنے والوں کے ہاں بعض عملیات میں قرآن کریم کا توہین آمیز انداز میں استعمال ہوتا ہے، جن میں ایک صورت کچھ عرصہ قبل اخبارات میں ایک واقعہ کے حوالہ سے شائع بھی ہوئی تھی کہ کسی بدبخت عامل نے اپنے مریض کو قرآن کریم پر بٹھا کر غسل کرایا تھا۔ اس طرح کی اور بھی بہت سی مکروہ اور مذموم صورتیں سفلی عملیات میں موجود ہیں اور جادو، ٹونہ، کالا عمل اور سفلیات کا مذموم کاروبار جس تیزی کے ساتھ ہمارے معاشرے میں پھیلتا جا رہا ہے اس میں قرآن کریم کی بے حرمتی کا دائرہ بھی وسیع ہو رہا ہے، اس سارے عمل کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ روز پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے مریدکے میں معصوم بچوں کے مسلسل قتل پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے عاملوں کے خلاف وسیع تر آپریشن کیا جائے گا۔ یہ اعلان خوش آئند ہے، مگر یہ ملک گیر مسئلہ ہے اور اپنی نوعیت کے لحاظ سے انتہائی سنگین ہے۔ وفاقی حکومت کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور کالے علم اور جادو کے ٹونے ٹوٹکوں کے ساتھ روحانی علاج کا کاروبار چمکانے والوں کا راستہ روکنا چاہیے۔

اور قرآن کریم کی سب سے بڑی بے حرمتی تو وہ ہے جس کے مجرم ہم سب بحیثیت قوم سب کے سب ہیں کہ قرآن کریم پر ایمان رکھنے اور قرآن کریم کو دستوری طور پر ملک کی پالیسیوں کا سب سے بڑا سرچشمہ قرار دینے کے باوجود ہماری اجتماعی پالیسیوں کی بنیاد قرآن کریم پر نہیں ہے:

  • قرآن کریم ہمیں ملک میں صلوٰۃ و زکوۃ کا نظام قائم کرنے کی تلقین کرتا ہے، لیکن ہم اس پر عمل کرنے کی بجائے اس کا کسی درجہ اہتمام کرنے والوں کو بھی ہدف تنقید بناتے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔
  • قرآن کریم شراب، جوئے اور سٹے کی تمام شکلوں کو حرام، گندگی اور شیطانی کام قرار دیتا ہے، مگر ہم ان شیطانی کاموں کو دھڑلے سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
  • قرآن کریم سود کو حرام کہتا ہے اور سودی کاروبار پر اصرار کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلان جنگ قرار دیتا ہے، مگر اس سے نجات حاصل کرنے کی بجائے اسے جاری رکھنے پر اڑے ہوئے ہیں۔
  • قرآن کریم ہمیں یہود و نصاریٰ کے ساتھ دوستی نہ کرنے، فاصلہ قائم رکھنے اور مختلف علاقوں کے مظلوم مسلمانوں کی امداد و حمایت کا حکم دیتا ہے، مگر ہم یہود و نصاریٰ کی دوستی کی خاطر مظلوم مسلمانوں کو خود اپنے ہاتھوں ذبح کرنے میں مصروف ہیں۔
  • قرآن کریم صراحت کرتا ہے کہ جو لوگ اپنے مقدمات و تنازعات کے فیصلے وحی الٰہی اور قرآن کریم کی روشنی میں نہیں کرتے وہ کافر، ظالم اور فاسق ہیں، مگر ہم اس کی پروا کیے بغیر نوآبادیاتی دور کے غلامانہ عدالتی نظام پر قائم ہیں اور ہماری عدالتیں قرآن کریم کی بجائے مغرب کے فلسفہ و نظام کے مطابق مقدمات کے فیصلے کرتی ہیں۔
  • قرآن کریم نے ہمیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی سوسائٹی میں نیکیوں کو فروغ دینے اور گناہوں کو روکنے کی ہدایت کی ہے اور اسے حکومت کی ذمہ داری قرار دیا ہے، مگر ہمارے ریاستی اور پرائیویٹ ذرائع ابلاغ نے فحاشی اور بے حیائی کو گھر گھر پہنچانے کے لیے خود کو وقف کر رکھا ہے۔
  • بعض جاگیردار خاندانوں میں لڑکیوں کو وراثت سے محروم کرنے کے لیے قرآن کریم کے ساتھ ان کی شادی کے نام پر انہیں زندگی بھر شادی کے حق سے محروم کر دینے کی خبریں بھی اخبارات میں شائع ہو رہی ہیں اور اگرچہ اس کی کوئی عملی مثال سامنے نہیں آئی، مگر این جی اوز کی طرف سے اس کا تذکرہ مسلسل ہو رہا ہے۔ یہ بھی اگر درست ہے تو قرآن کریم کی کھلی توہین اور مظلوم عورتوں کی حق تلفی ہے۔

اس طرح کی اور بھی بہت سی شکلیں ہیں جو ہمارے ہاں عملی طور پر موجود ہیں اور ہم سب درجہ بدرجہ ان پر عمل پیرا ہیں، لیکن ان پر غور کیا جائے تو وہ قرآن کریم کی توہین اور بے حرمتی کے دائرہ میں آتی ہیں اور قرآن کریم کی حق تلفی کے زمرہ میں شمار ہوتی ہیں۔

وفاقی وزیر مذہبی امور جناب اعجاز الحق اور ایم ایم اے کے مذکورہ بالا ارکان اسمبلی کی اس کارکردگی کا خیر مقدم کرتے ہوئے ہم ان سے گزارش کریں گے کہ وہ قرآن کریم کی بے حرمتی کی دیگر صورتوں کی طرف بھی توجہ دیں۔ کیونکہ ہم قرآن کریم کی بے حرمتی اور حق تلفی کی تمام صورتوں سے عملاً توبہ کرتے ہوئے اسے صحیح معنوں میں ہدایت کا سرچشمہ اور عملی رہنما تسلیم کریں گے تو اس کی برکات سے فیضیاب ہونے کے مستحق بھی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter