حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا تھا کہ ’’بیننا و بین اھل البدع الجنائز‘‘ کہ ہمارے اور باطل پرستوں کے درمیان فیصلہ جنازوں پر ہوتا ہے۔ جبکہ خود ان کے جنازے میں لاکھوں افراد کی شرکت نے فیصلہ کر دیا تھا کہ امام احمد بن حنبلؒ اور ان پر کوڑے برسانے والوں میں سے کون حق پر تھا۔ امام احمد بن حنبلؒ پر کوڑے برسانے والے بھی مسلمان ہی کہلاتے تھے اور امام موصوفؒ کو باغی اور واجب التعزیر قرار دینے پر دلائل رکھتے تھے، مگر امت مسلمہ نے نہ صرف اس وقت ان دلائل کو مسترد کر دیا تھا بلکہ آج تک ان خود ساختہ دلائل کو کوڑے دان سے نکال کر امت کے سامنے لانے کا کسی کو حوصلہ نہیں ہوا۔
غازی ممتاز قادری شہیدؒ کو پھانسی دینے پر بھی دلائل کی لائن لگی ہوئی ہے اور بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں، لیکن اسلامیان پاکستان نے غازیؒ کے جنازے کو راولپنڈی اسلام آباد کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ بنا کر ان ساری توجیہات کو ہوا میں اڑا دیا ہے اور بتایا ہے کہ شرعی و قانونی دلائل و توجیہات اپنی جگہ مگر سول سوسائٹی اور رائے عامہ اسے شہید ہی سمجھتی ہے اور اسے خراج عقیدت پیش کرنے پر متفق و مجتمع ہے۔ البتہ مروجہ دانش کی اس چابکدستی کی داد دینا پڑتی ہے کہ اسے پینترے بدلنے میں خوب مہارت حاصل ہے، کیونکہ جب کسی مسئلہ پر شرعی تقاضوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو مروجہ دانش کی زبان و قلم پر سماجی ضروریات اور سوسائٹی کے رجحانات کی دہائی شروع ہو جاتی ہے۔ اور اگر سماجی تقاضے اور سوسائٹی کے رجحانات ان اہل دانش کے ایجنڈے کی پیش رفت میں رکاوٹ بنتے ہیں تو انہیں قانونی موشگافیاں یاد آنے لگتی ہیں اور وہ شرعی و فقہی فروعات و جزئیات کا سہارا لینے میں بھی کوئی حجاب محسوس نہیں کرتے۔
ریمنڈ ڈیوس کے کیس میں یہی ہوا تھا، اس نے پاکستان میں آکر کیا کیا گل کھلائے تھے؟ وہ کن لابیوں کے ساتھ کونسے مقاصد کے لیے سرگرم عمل تھا اور پاکستانی عوام کے جذبات و احساسات اس کے بارے میں کیا تھے؟ ہمارے ان دانشوروں کو یہ سب باتیں بھول گئی تھیں اور صرف یہ یاد رہ گیا تھا کہ اسلامی شریعت میں دیت کا بھی ایک قانون موجود ہے جس کا سہارا لے کر ریمنڈ ڈیوس کو نہ صرف قانون و شریعت کی زد میں آنے سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ اس کے عزائم و جرائم پر پردہ بھی ڈالا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور شریعت کے ایک قانون کی آڑ لے کر سول سوسائٹی کے جذبات و احساسات کا خون کر دیا گیا۔ مگر ریمنڈ ڈیوس کو پھانسی سے بچانے والے آج غازی ممتاز قادریؒ کو پھانسی پر چڑھانے کے جواز میں قانون کی عملداری کی دہائی دینے میں مصروف ہیں۔ انہیں صرف یہ دکھائی دے رہا ہے کہ غازی ممتاز قادریؒ نے سلمان تاثیر کو قتل کرنے کے لیے قانون کو ہاتھ میں لیا تھا۔ یہ بات ان کے ذہن سے محو ہوگئی ہے کہ سلمان تاثیر نے جس دستور کی پاسداری کا حلف اٹھا کر گورنر کا منصب سنبھالا تھا اسی دستور کے تحت ایک جمہوری قانون کو کالا قانون قرار دے کر اپنے حلف کا کیا حشر کیا تھا۔ اور عدالت سے سزا یافتہ ایک مجرمہ کے پاس جیل میں جا کر بلکہ وہاں پریس کانفرنس کر کے عدالتی فیصلوں کا کس طرح مذاق اڑایا تھا اور قانون کی بالادستی کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔
خدا خوش رکھے پاکستان کے زندہ دل مسلمانوں کو کہ انہوں نے سلمان تاثیر کے جنازے اور غازی ممتاز قادریؒ کے جنازے کی صورت میں اپنا یہ فیصلہ تاریخ میں رقم کر دیا ہے کہ ان میں قانون کو ہاتھ میں لینے والا کون تھا اور کس نے دستور و قانون کی روح کے تحفظ کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ ہماری مروجہ دانش کو صرف اپنے ایجنڈے کی فکر ہے جو خود اس کا اپنا نہیں ہے بلکہ اس کا ریموٹ کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ اور یہ ریموٹ کنٹرول بھی اب خفیہ نہیں رہا بلکہ ساری دنیا کو دکھائی دے رہا ہے کہ کون کس کو کنٹرول کر رہا ہے اور کون کس کے ایجنڈے پر چل رہا ہے۔ اس دانش کو نہ دستور کی نظریاتی اساس سے کوئی دلچسپی ہے، نہ شریعت کے تقاضوں کی کوئی پروا ہے، اور نہ ہی سول سوسائٹی کے احساسات و جذبات اور رائے عامہ کا کوئی لحاظ ہے۔ اسے صرف اپنے ایجنڈے سے غرض ہے اور اس کے لیے مروجہ دانش اکثر اوقات جنگل کا شیر بن جاتی ہے کہ حسب موقع جی چاہے تو بچے دے اور جی چاہے تو انڈے دینا شروع کر دے۔
غازی ممتاز قادریؒ کو ملک بھر کی رائے عامہ اور سول سوسائٹی خراج عقیدت پیش کر رہی ہے جس کی سب سے بڑی دلیل میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر وہ خفیہ کنٹرول ہے کہ اس کی کوئی خبر منظر عام پر نہ آنے پائے۔ چنانچہ جب لاکھوں کے اجتماعات میں شرکت کرنے والے لوگ رات کو ٹی وی چینلز اور صبح کو اخبارات دیکھتے ہیں تو انہیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ اظہار رائے کا حق اور میڈیا کی آزادی ان کے لیے نہیں ہے۔ اور نہ ہی انہیں اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنے ضمیر کی بات کہہ سکیں اور پھر یہ توقع بھی رکھیں کہ ان کی آواز ’’آزاد میڈیا‘‘ کے اس دور میں ان کے دوسرے ہم وطنوں تک پہنچنی چاہیے۔
غازی ممتاز قادریؒ کے ساتھ میری عقیدت کا ایک پہلو اور بھی ہے کہ جب عالمی قوتیں پاکستان میں ’’صوفی اسلام‘‘ اور ’’مولوی اسلام‘‘ کا فرق کھڑا کر کے بریلوی دیوبندی کشمکش کو ہوا دینے کی پلاننگ کر رہی تھیں، اس کی بریفنگ ’’رینڈ کارپوریشن‘ کی تجزیاتی رپورٹ کی روشنی میں ’’پینٹاگون‘‘ میں دی جا رہی تھی، اور یہ کہا جا رہا تھا کہ دینی حوالہ سے مزاحمت اور جذباتیت کا ماحول صرف دیوبندیوں کے ہاں پایا جاتا ہے، اس لیے ’’صوفی اسلام‘‘ کے ذریعہ انہیں کارنر کر دیا جائے۔ اس فضا میں ممتاز قادریؒ نے قلندرانہ جرأت کا مظاہرہ کر کے دنیا کو باور کرایا کہ دینی حمیت اور مزاحمت کے جذبہ میں بریلوی بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور دینی حمیت و غیرت کو دیوبندیوں بریلویوں میں تقسیم کرنا کوئی عقلمندی کی بات نہیں ہے۔ چنانچہ یہ منصوبہ فلاپ ہوگیا تھا اور اس کا ڈراپ سین اسلام آباد کے امریکی سفارت خانہ کی طرف سے کچھ لوگوں کے ساتھ چند ہزار ڈالروں کے لین دین کی بات کے اچانک انکشاف کی صورت میں سامنے آیا تھا۔
غازی ممتاز قادریؒ کی شہادت اور اس کے تاریخ ساز جنازے نے ’’صوفی اسلام‘‘ اور ’’مولوی اسلام‘‘ میں فرق کے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی ہے اور وہ امت کی وحدت کی علامت بن کر دنیا سے رخصت ہوا ہے، اللہ تعالیٰ اسے جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔