گزشتہ دنوں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قائد جمعیۃ حضرت مولانا مفتی محمود سے قومی اسمبلی کے چیمبر میں چالیس منٹ تک بات چیت کی جس میں وزیرقانون پیرزادہ بھی شریک ہوئے۔ اس گفتگو کی تفصیلات معلوم نہیں ہو سکیں مگر دوسرے روز متحدہ جمہوری محاذ کی قرارداد منظر عام پر آئی جس میں اعلان کیا گیا ہے کہ جب تک حکومت ’’مری مذاکرات‘‘ میں کیے گئے وعدے پورے نہیں کرتی اس سے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔ اس قرارداد سے مترشح ہوتا ہے کہ بھٹو صاحب نے مفتی صاحب سے ملاقات کے دوران اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی جسے محاذ نے مسترد کر دیا۔
بھٹو صاحب کی یہ تکنیک ہے کہ وہ سیاسی گالیوں کی بوچھاڑ اور مقدمات و داروگیر کی یلغار کے بعد مذاکرات کی بات چیت چھیڑ دیتے ہیں تاکہ اپنے خلاف محاذ آرائی کے زور کو کم کر سکیں۔ پھر مذاکرات کی میز پر فراخدلی سے وعدے فرما لیتے ہیں۔ اور جونہی انہیں نیچے سے ’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹ مل جاتی ہے وہ سب وعدے وعید بھلا کر اپنے کام میں مگن ہو جاتے ہیں۔ بھٹو صاحب کے سابقہ سیاسی وعدے اور مذاکرات ان کی اس تکنیک کا واضح ثبوت ہیں۔
بھٹو صاحب نے مذاکرات کی یہ دعوت مسترد ہونے کے بعد ایک نیا راستہ اختیار کیا اور قومی اسمبلی اور سینٹ کے ارکان کو ڈنر پر مدعو کر لیا۔ اس خیال سے کہ اپوزیشن کے ارکان آئیں گے، کچھ رسمی سی گفتگو ہوگی اور دنیا کو یہ تاثر دیا جا سکے گا کہ گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ مگر اپوزیشن نے اس چال کو سمجھتے ہوئے ڈنر کا بھی بائیکاٹ کر دیا جس پر بھٹو صاحب نے یوں اظہارِ افسوس کیا ہے کہ
’’اگر حزب مخالف کے ارکان اس ڈنر میں شرکت کرتے تو اس سے حزب اختلاف اور حزب اقتدار دونوں کو ایک دوسرے سے رابطہ قائم کرنے کا موقع فراہم ہوتا اور یہ ملاقات ان کے آئندہ مذاکرات اور قومی مسائل پر بحث کے لیے حرف اول ثابت ہو سکتی تھی۔ انہوں نے کہا میں اس ڈنر میں حزب اختلاف سے ملاقات کا زبردست خواہشمند تھا۔ اگر مسئلہ صرف اپنی ہی پارٹی اور حکومت میں شریک پارٹیوں کے ارکان کی دعوت کا ہوتا تو وہ آج دوبارہ ان ارکان کو یہاں آنے کی ہرگز تکلیف نہ دیتے کیونکہ وہ چند روز قبل ان کے اعزاز میں دعوت دے چکے ہیں۔‘‘ (روزنامہ امروز، لاہور ۔ ۱۵ دسمبر ۱۹۷۳ء)
وزیراعظم بھٹو نے اس ڈنر سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ وہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور جمہوریت اور ہٹ دھرمی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ محترم بھٹو صاحب سے عرض ہے کہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ اپوزیشن نہیں بلکہ حکمران پارٹی کر رہی ہے۔ اپوزیشن کا موقف تو بالکل واضح او راصولی ہے کہ آپ نے مری مذاکرات کے دوران اپوزیشن سے جو وعدے کیے تھے ان پر عمل کیا جائے۔ پھر باقی امور کے لیے مزید مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ جب تک سابقہ مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا مزید مذاکرات قطعاً بے سود ہیں۔ اس لیے اگر آپ صدق دل سے جمہوری اقدار کی سربلندی اور اپوزیشن کا تعاون چاہتے ہیں تو مری مذاکرات کے فیصلوں پر عملدرآمد کر کے اپوزیشن کی طرف دست تعاون بڑھانے میں پہل کیجئے۔ لیکن اگر ان مذاکرات کا مقصد ’’نشستند و گفتند، خوردند و برخاستند‘‘ کے بعد دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے تو یاد رکھیے کہ اپوزیشن اس ڈھونگ میں حصہ دار نہیں بنے گی۔