ورلڈ اسلامک فورم لندن کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری گزشتہ دو ہفتہ سے پاکستان میں ہیں اور مختلف شہروں میں احباب سے ملاقاتوں کے علاوہ فکری و نظریاتی محافل میں شرکت کر رہے ہیں۔ وہ جب بھی پاکستان آتے ہیں جامعہ مدنیہ لاہور ان کی قیام گاہ ہوتا ہے۔ اس بار بھی یہ روایت برقرار ہے البتہ ملتان، چیچہ وطنی، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ کے علاوہ اسلام آباد میں بھی متعدد محافل میں انہوں نے خطاب کیا ہے۔ جبکہ ایک آدھ روز میں وہ واپس روانہ ہونے والے ہیں۔ گزشتہ روز الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں پاکستان کے قومی تعلیمی نصاب کے حوالہ سے ایک سیمینار میں بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے اور تفصیلی خطاب کیا۔ سیمینار کی صدارت گوجرانوالہ کے معروف ماہر تعلیم اور پریمئر لاء کالج کے پرنسپل میاں ایم آئی شمیم نے کی اور اس سے مولانا داؤد احمد، پروفیسر ڈاکٹر عبد الماجد ندیم، مولانا حافظ گلزار احمد آزاد، پروفیسر غلام حیدر، مولانا حافظ محمد یوسف، پروفیسر ریاض احمد، مولانا محمد عبد اللہ راتھر، راقم الحروف اور دیگر حضرات نے خطاب کیا۔ قومی تعلیمی نصاب اور دینی مدارس کے نصاب تعلیم کے حوالہ سے بہت مفید گفتگو ہوئی اور مولانا منصوری نے تفصیلی خطاب کیا۔ اس کی تفصیل رپورٹ ان شاء اللہ تعالیٰ ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ میں شائع ہو جائے گی۔
مولانا محمد عیسیٰ منصوری کے اس دورہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے ایک فاضل دوست محمد جعفر نے اسلام آباد میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی تعلیمات اور افکار کے فروغ کے لیے ’’سید ابوالحسن علی ندویؒ اکادمی‘‘ کی افتتاحی تقریب کا پروگرام بنا لیا۔ اور ۱۸ دسمبر جمعرات کو جامع مسجد سیدنا عثمان علیؓ جی ٹین ون میں علماء کرام اور ارباب فکر و دانش کی ایک محفل سجا لی۔ ہمارے فاضل دوست مولانا محمد رمضان علوی (فاضل نصرۃ العلوم) اس مسجد کے خطیب ہیں اور جعفر صاحب ان کے ہم زلف ہیں۔ جعفر صاحب کچھ عرصہ پہلے تک اسلام آباد میں علمی و فکری سرگرمیوں کے لیے مضطرب دکھائی دیتے رہے۔ اب سالہا سال سے لندن میں ہیں اور ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری اطلاعات ہیں، فکر و نظر کے جراثیم پہلے سے موجود تھے، مولانا منصوری کی صحبت نے ان کی کارکردگی میں اضافہ کر دیا ہے۔ اور اب وہ ورلڈ اسلامک فورم کی فعال ٹیم کا حصہ ہیں، جبکہ میں بھی اسی ٹیم کا ایک حصہ چلا آرہا ہوں۔ اور مولانا منصوری اور مفتی برکت اللہ کی رفاقت کا شرف مجھے گزشتہ ربع صدی سے حاصل ہے۔
جعفر صاحب بھی ان دنوں اسلام آباد آئے ہوئے ہیں اور واپس جانے سے قبل مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے حوالہ سے دوستوں کا ایک حلقہ قائم کرنا چاہتے ہیں، اسی کے لیے انہوں نے مذکورہ سیمینار کا اہتمام کیا ہے اور ’’سید ابوالحسن علی ندویؒ اکادمی‘‘ کے نام سے عملی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ اس کار خیر میں انہیں مولانا محمد رمضان علوی، مولانا محمد ادریس اور حافظ سید علی محی الدین جیسے رفقاء کا تعاون حاصل ہے۔ ان کا پروگرام یہ ہے کہ مولانا علی میاںؒ کے افکار و خیالات کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی جائے۔ ان کے حوالہ سے اسلام آباد اور دیگر شہروں میں سیمینارز کا اہتمام کیا جائے اور ان کی تعلیمات کی روشنی میں نئی نسل کی ذہن سازی اور فکری راہ نمائی کی راہیں ہموار کی جائیں۔
۱۸ دسمبر کے سیمینار کی صدارت راقم الحروف نے کی اور اس میں مولانا منصوری کے علاوہ ہمارے فاضل دوست مولانا سید عدنان کاکاخیل اور مولانا محمد رمضان علوی کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے پروفیسر ڈاکٹر عبد الماجد ندیم نے بھی خطاب کیا۔ اور اکادمی کے پروگرام کے سلسلہ میں اپنے تعاون اور حمایت کا اظہار کیا۔ مولانا منصوری نے مولانا علی میاںؒ کی علمی و دینی خدمات پر روشنی ڈالی اور اس بات پر زور دیا کہ نئی نسل کو گمراہی سے بچانے اور دینی جدوجہد کے صحیح رخ پر لگانے کے لیے مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے افکار و خیالات کا فروغ ضروری ہے۔ راقم الحروف نے عرض کیا کہ آج مغربی دنیا اور عالم اسلام کے درمیان جو فکری و تہذیبی کشمکش عروج پر ہے، اس سے صحیح طور پر واقفیت کے لیے مولانا ندویؒ کا مطالعہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کیونکہ میری طالب علمانہ سوچ کے مطابق جنوبی ایشیا کے جن چند مفکرین نے مغرب کے فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کو سمجھا ہے اور اس پر جاندار علمی و فکری نقد کیا ہے ان میں مولانا ندویؒ کا نام سر فہرست ہے۔ مولانا سید عدنان کاکاخیل نے کہا کہ اپنے عصر کو سمجھ کر اور اس کے تقاضوں سے آگاہ ہو کر ہم اپنے لیے راہ عمل صحیح رخ پر متعین کر سکتے ہیں۔ اور اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے بزرگوں اور اسلاف کا مطالعہ کریں اور ان کی جدوجہد اور فکر سے راہ نمائی حاصل کریں۔
مولانا منصوری نے لاہور میں جمعیۃ علماء اسلام ضلع شیخوپورہ کے امیر حافظ محمد قاسم کی طرف سے منعقدہ ایک فکری نشست سے بھی خطاب کیا اور علماء کرام سے کہا کہ وہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی جدوجہد اور افکار و خدمات کا تفصیل کے ساتھ مطالعہ کریں اور ان سے راہ نمائی حاصل کریں۔ کیونکہ آج کے معروضی حالات میں وہی ہمارے لیے سب سے زیادہ مثالی اور آئیڈیل شخصیت ہیں۔
مولانا منصوری اس وقت عالم اسلام کی ان ممتاز شخصیات میں سے ہیں جو مسلمانوں میں فکری بیداری اور عصر حاضر کا شعور اجاگر کرنے کے لیے ہمہ وقت متحرک رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت اور عافیت کے ساتھ ملت اسلامیہ کی یہ خدمت تا دیر جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔