صحابۂ رسولؓ پر سب و شتم کرنے والوں کا حکم

   
۲۹ مارچ ۱۹۶۸ء

ذیل کا مضمون شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی معرکۃ الآراء کتاب ’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘ کے آخری باب ’’سب الصحابۃ‘‘ کا ترجمہ ہے۔ جس میں امام موصوفؒ نے صحابۂ رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں ناجائز باتیں کہنے والوں اور ان پر سب و شتم کرنے والوں کا شرعی حکم بیان فرمایا ہے۔ زمانہ حال کی ضروریات کے پیش نظر اس باب کا ترجمہ قارئین ترجمانِ اسلام کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے (زاہد گکھڑوی)

جس نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی کو برا بھلا کہا، خواہ وہ صحابی اہلِ بیت میں ہو یا نہ ہو، تو امام احمدؒ نے فرمایا ہے کہ ایسے شخص کو سخت مار ماری جائے۔ اور امام ابو طالبؒ فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمدؒ سے یہ سوال کیا کہ صحابہ کرامؓ کو گالیاں بکنے والے کا کیا حکم ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ اس کو قتل تو نہیں کیا جا سکتا لیکن اسے سخت مار مارنی چاہیے۔

اور حضرت عبد اللہؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد مکرم سے پوچھا کہ صحابہ کرامؓ پر سب و شتم کرنے والے کا کیا حکم ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ میری رائے یہ ہے کہ اسے سخت مار کی سزا دی جائے۔ میں نے پھر پوچھا کہ کیا اس کی کوئی حد بھی ہے؟ تو انہوں نے حد بیان کرنے سے احتراز کیا اور اتنا فرمایا کہ اسے مارا جائے، اور یہ بھی فرمایا کہ میں اسے اسلام پر نہیں دیکھتا۔ پھر میں نے پوچھا کہ رافضی کون ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ جو لوگ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ پر سب و شتم کرتے ہیں۔

اور حضرت عبد اللہؒ اپنے رسالہ میں، جسے ابو العباس احمد بن یعقوب الاصطخریؒ نے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین امت کے بہترین افراد ہیں۔ کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ ان کے مساوی کسی اور کو قرار دے، اور نہ جائز ہے کہ ان میں سے کسی ایک پر کسی عیب یا نقصان کا الزام لگائے۔ جس نے ایسا کیا تو اس پر سزا جاری کرنا ضروری ہے، کسی کو معافی نہیں مل سکتی بلکہ اسے سزا دی جائے گی اور اس کے بعد اسے توبہ پر مجبور کیا جائے گا۔ اگر وہ توبہ کر لے تو چھوڑ دیا جائے گا، اور اگر توبہ نہ کرے تو ہمیشہ کے لیے جیل میں بھیج دیا جائے گا، یہاں تک کہ اسے موت آجائے یا وہ اپنے فعلِ بد سے توبہ کر لے۔ یہی قول امام احمدؒ نے اہلِ علم سے نقل کیا ہے اور امام احمدؒ، امام اسحاقؒ، امام حمیدیؒ اور امام سعیدؒ بن منصورؒ سے علامہ کرمانی نے نقل کیا ہے۔

اور علامہ میمونیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمدؒ کو یہ کہتے سنا ہے کہ حضرات صحابہؓ اور حضرت معاویہؓ کے واسطے کیا ہے؟ ہم اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہیں۔ اور مجھے فرمایا کہ اے ابو الحسن جب تو کسی شخص کو دیکھے کہ وہ صحابہ کرامؓ کا ذکر نامناسب طریقہ سے کر رہا ہے تو اس کے ایمان کو مشکوک قرار دے۔

پس امام احمدؒ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا بھلا کہنے والے پر تعزیر لگانا ضروری ہے، اور یہ کہ اسے کوڑے لگائے جائیں اور توبہ پر مجبور کیا جائے، اگر توبہ نہ کرے تو حبسِ دوام کی سزا دی جائے۔ اور امام احمدؒ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میں ایسے شخص کو اسلام پر نہیں پاتا اور اس کا ایمان مشکوک ہے۔

امام اسحاق بن راہویہؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص صحابہ کرامؓ رضی اللہ عنہم پر سب و شتم کرے اسے سزا دی جائے اور قید میں ڈال دیا جائے۔ اور یہی قول ہمارے بہت سے بزرگوں کا ہے جن میں سے حضرت ابن ابی موسٰیؒ بھی ہیں جو فرماتے ہیں کہ جو روافض اسلاف پر سب و شتم کرتے ہیں وہ مسلمانوں کے کفو (برادری) سے نکل جاتے ہیں اور ان کے ساتھ نکاح وغیرہ معاملات نہیں ہو سکتے۔ اور جو شخص حضرت عائشہؓ پر وہ تہمت دوہراتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بری قرار دیا ہے وہ اسلام سے نکل گیا۔ اور وہ کسی مسلمان عورت سے نکاح نہیں کر سکتا جب تک کہ توبہ نہ کرلے۔ اور تقریباً یہی قول حضرت عمر بن عبد العزیزؒ اور عاصم الاحولؒ اور دیگر تابعین کا ہے۔

حارث بن عتبہؒ نے فرمایا کہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے پاس ایک شخص کو لایا گیا جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتا تھا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ تو کیوں ایسا کرتا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں اس (حضرت عثمانؓ) کو ناپسند کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ جس شخص کو تو ناپسند کرے تو کیا اسے گالیاں بکے گا؟ پھر آپ نے حکم دیا اور اسے تیس کوڑے مارے گئے۔

حضرت ابراہیم بن میسرہؒ نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کو کبھی کسی شخص کو مارتے نہیں دیکھا مگر ایک شخص کو جو حضرت معاویہؓ کو گالیاں بک رہا تھا، پس آپ نے اسے کوڑے مارے۔

یہ دونوں روایتیں لالکائیؒ نے نقل کی ہیں اور پہلے (الصارم المسلول میں) گزر چکا ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے ایک ایسے شخص کے بارے میں لکھا کہ اسے قتل نہ کیا جائے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ’’سب‘‘ نہ کرتا ہو اور آپ کے صحابہؓ پر ’’سب‘‘ کرتا ہو، لیکن اس کے سر پر کوڑے مارے جائیں، اور اگر میں اس کے حق میں یہ کوڑے مارنا بہتر نہ سمجھتا تو کبھی ایسا نہ کرتا۔

روایت کیا امام احمدؒ نے کہ بیان کیا ہم سے ابو معاویہؓ نے، فرمایا انہوں نے کہ بیان کیا ہم سے عاصم الاحولؒ سے، انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس ایک شخص کو لایا گیا جو حضرت عثمانؓ کو گالیاں بکتا تھا، میں اسے دس کوڑے مارے۔

(باقی آئندہ)
   
2016ء سے
Flag Counter