قائدِ جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود نے سکھر میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا ہے کہ مسلم سربراہ کانفرنس میں عالمِ اسلام کے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر پر بھی غور کیا جائے۔ ادھر معروف کشمیری راہنما میر واعظ مولانا محمد فاروق نے بھی کانفرنس کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر کو شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
مسئلہ کشمیر قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مسلسل کشیدگی کا باعث چلا آرہا ہے اور دو سے زائد بڑی جنگوں کا محرک بن چکا ہے۔ اور اس سے نہ صرف برصغیر اور ایشیا بلکہ پوری دنیا کے امن کو خطرہ لاحق ہے۔ اس لیے مسلم سربراہ کانفرنس کے موقع پر اس مسئلہ کو اہمیت نہ دینا حقائق سے آنکھیں موند لینے کے مترادف ہوگا۔ کشمیر کا مسئلہ دراصل ایک سازش کے تحت جنم دیا گیا ہے۔ برٹش سامراج نے برصغیر کی تقسیم کے بعد دونوں حصوں کو ایک دوسرے سے لڑائے رکھنے اور اس خطہ کے عوام میں نفرت اور عداوت کی آگ گرم رکھنے کی غرض سے اس مسئلہ کو جنم دیا تھا۔
تقسیم کے مسلّمہ اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے گورداسپور کے ہندو اقلیت کے علاقہ کو ہندوستان میں شامل رکھ کر ہندوستان کو کشمیر کے لیے راستہ دینے کی غرض اس کے سوا کچھ نہیں تھی کہ کشمیر کی وادی کو بھارت کے تسلط میں دے دیا جائے تاکہ نوزائیدہ پاکستان اپنی فلاح و ترقی کی طرف توجہ دینے کی بجائے تمام تر قوت اس مسئلہ پر خرچ کرتا رہے، اور دنیائے اسلام کا سب سے بڑا ملک ہونے کی حیثیت سے عالمِ اسلام کے اتحاد اور ملتِ اسلامیہ کی سربلندی کے لیے اپنا کردار ادا نہ کر سکے۔ اس سلسلہ میں قادیانی سازشوں اور سرحدات کے تعین میں ظفر اللہ خان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ تقسیمِ ہند کے بعد یہ مسئلہ دو ملکوں کے درمیان مستقل نزاع و فساد کی کی بنیاد بن گیا جس کی وجہ سے پاکستان جیسا غیر ترقی یافتہ ملک اپنے محدود وسائل کا معتد بہ حصہ دفاع کے لیے مختص کرنے پر مجبور ہے۔
آج صورتحال یہ ہے کہ کشمیر دو حصوں میں بٹا ہوا ہے اور دونوں حصوں کے عوام کا آپس میں رابطہ معطل ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا شکنجہ روز بروز سخت ہوتا جا رہا ہے اور اقوامِ متحدہ میں کشمیری عوام کے لیے خود ارادیت کا حق تسلیم کر لینے کے بعد بھی بھارت ان مظلوم مسلمانوں کو یہ حق دینے پر آمادہ نہیں۔ بے شمار کشمیری نوجوان جیلوں میں محبوس ہیں۔ ربع صدی سے کشمیر کو انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کرنے والے پاکستانی لیڈروں کی منافقت اور بدعملی نے کشمیری عوام کو حوصلہ دلانے کی بجائے ان کی مایوسیوں میں اضافہ کیا ہے۔ اور اب انہیں موجودہ صورتحال پر قناعت کا سبق دینے کے ساتھ ساتھ درپردہ اس کے انتظامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ آج کشمیر کی نئی پود ایک طرف کشمیری عوام کی قربانیوں اور دوسری طرف بھارت کے ظلم و تشدد، اقوامِ متحدہ کے جمود اور پاکستانی حکمرانوں کی دورُخی کو دیکھ کر یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا ہمیں اپنی منزل کے تعین اور راستہ کی جدوجہد میں ان سہاروں سے بے نیاز تو نہ ہونا پڑے گا۔
ہم عالمِ اسلام کے راہنماؤں سے درخواست کریں گے کہ کشمیر کے چالیس لاکھ مسلمان بھائیوں کو بے یقینی کی اس کیفیت سے نجات دلائیں اور ان کو حقِ خود ارادیت سے بہرہ ور کرنے کے لیے اپنا پورا اثر و رسوخ استعمال کریں تاکہ کشمیر کے مسلمان بھی عالمِ اسلام کے اتحاد کی مقدس جدوجہد میں اپنا رول ادا کر سکیں۔ اور پاکستان پہلے سے زیادہ توانائی اور استحکام کے ساتھ عالمِ اسلام کے تعمیری مشن میں شریک ہو سکے۔