سقوط ڈھاکہ، جہادِ افغانستان اور معاشی خودمختاری

   
۳ مارچ ۲۰۰۰ء

محترم راجہ انور صاحب کا کہنا ہے کہ

’’سامراج سے آزادی حاصل کرنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم پانچ سال کے لیے اپنی ساری ترجیحات معطل کر دیں، صرف پانچ سال کے لیے اپنے سارے اہم مسائل طلاق نسیاں کی نذر کر دیں اور معاشی لحاظ سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں۔ جس دن ہم معاشی طور پر مضبوط اور آزاد ہوگئے اس دن دنیا کی کوئی قوت، کوئی سامراج اور کوئی سازش ہمیں غلام نہیں رکھ سکے گی۔‘‘

اس سلسلہ میں میرے ذہن میں ایک اشکال ہے جس پر کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں مگر اس اشکال پر کچھ عرض کرنے سے پہلے راجہ صاحب کے مضمون کے بعض دیگر مندرجات کے حوالہ سے تاریخ کا ریکارڈ درست رکھنے کے لیے چند معروضات پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

راجہ صاحب نے ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے بعد مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے المیہ کا ذکر کرتے ہوئے اس دور کی ’’کوتاہ فکر فوجی، سیاسی اور مذہبی قیادت‘‘ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ اس الیکشن میں مذہبی جماعتوں میں سب سے زیادہ نشستیں جمعیۃ علماء اسلام اور جمعیۃ العلماء پاکستان نے حاصل کی تھیں جن کی قیادت مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا شاہ احمد نورانی کر رہے تھے۔ یہ درست ہے کہ مشرقی پاکستان میں یحییٰ خان کے فوجی ایکشن کو جماعت اسلامی کی حمایت حاصل تھی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا شاہ احمدؒ نورانی نے یحییٰ خان کو سپورٹ نہیں کیا تھا۔ بلکہ راجہ انور صاحب کے ممدوح جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے جب منتخب پارلیمنٹ کا ڈھاکہ میں طلب کیا جانے والا اجلاس ملتوی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ’’ادھر تم ادھر ہم‘‘ کا نعرہ لگایا تھا اور ان کے لاہور کے جلسہ میں یہ دھمکی دی گئی تھی کہ اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکہ جانے والے ممبران اسمبلی کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی تو اس کے جواب میں مولانا مفتی محمودؒ نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ اس دھمکی کو مسترد کرتے ہیں اور اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ضرور ڈھاکہ جائیں گے۔

اس وقت کی صورتحال کا اصل منظر یہ ہے کہ نومنتخب دستور ساز اسمبلی کا ڈھاکہ سیشن ملتوی کرنے اور مشرقی پاکستان پر فوجی ایکشن کے سلسلہ میں یحییٰ خان کے اقدامات کو جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور جماعت اسلامی نے سپورٹ کیا تھا۔ جبکہ اسمبلی کی دو بڑی مذہبی جماعتوں جمعیۃ علماء اسلام اور جمعیۃ العلماء پاکستان نے توازن اور اعتدال کی راہ اختیار کرتے ہوئے اپنا جداگانہ تشخص قائم رکھا تھا۔ اس لیے کسی استثناء کے بغیر اس دور کی پوری مذہبی قیادت کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار قرار دینا اور اس پر ’’کوتاہ فکری‘‘ کی پھبتی کسنا راجہ انور صاحب کی دلی خواہش تو ہو سکتی ہے مگر حقائق کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

اسی طرح راجہ صاحب نے یہ لکھ کر بھی تاریخی حقائق کو غلط رخ دینے کی کوشش کی ہے کہ ۱۹۸۰ء میں سرزمین افغانستان پر امریکی سائبان تلے جونہی روس کے خلاف غلغلہ ’’جہاد‘‘ بلند ہوا ہم فورًا اس کھیل کا پانچواں پیادہ بننے پر ’’آمادہ ہوگئے‘‘۔

میں نہیں سمجھتا کہ راجہ انور جیسا دانا و بینا اور سرد و گرم چشیدہ شخص واقعات کے اصل تسلسل سے اس قدر بے خبر ہو سکتا ہے کہ وہ جہاد افغانستان میں امریکی سائبان کی لمبائی کو ۱۹۸۰ء تک کھینچ لے جانے میں بھی کوئی حرج محسوس نہ کرے۔ بلکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ جب ببرک کارمل کو کابل کے اقتدار پر بٹھانے اور اسے تحفظ دینے کے لیے روس نے مسلح افواج کو افغانستان میں اتارا تھا تو ابتدائی تین سال تک مجاہدین اس حالت میں جنگ لڑتے رہے کہ اکثر ان کے پاس دو وقت کھانے کی روٹی نہیں ہوتی تھی۔ راجہ صاحب چاہیں تو میں ان نوجوانوں سے ان کی ملاقات کرا سکتا ہوں جو اس دور میں خوست کی پہاڑیوں پر مولوی جلال الدین حقانی کے ساتھ کئی ہفتے تک جہاد میں شریک رہے اور اس کیفیت کے ساتھ شریک رہے کہ کئی کئی روز مسلسل پیدل چل کر مورچوں تک پہنچا کرتے تھے اور انہیں دن رات میں ایک وقت سوکھی روٹی پیاز کے ساتھ میسر ہوتی تھی۔ راجہ صاحب موصوف کی ملاقات لاہور کے اس مرد درویش سے بھی کرائی جا سکتی ہے جو ایک ایک دکان پر گھوم کر مجاہدین کے لیے آٹے کے تھیلے جمع کرتا تھا اور مہینہ ڈیڑھ کے بعد انہیں خوست بھجوانے کا اہتمام کیا کرتا تھا تاکہ مجاہدین کو دو وقت کھانے کو خشک روٹی تو مل جائے۔ اس مرد درویش کا نام مولانا حمید الرحمان عباسی ہے جو آج بھی شیرانوالہ گیٹ لاہور کی جامع مسجد میں خاموشی کے ساتھ قرآن و حدیث پڑھانے کی خدمت میں مصروف ہے۔ اور راجہ صاحب کو ان بوتل بموں کی زیارت بھی کرائی جا سکتی ہے جو روایتی اسلحہ میسر نہ آنے کی وجہ سے مجاہدین نے خود ایجاد کیا تھا اور بوتل میں صابن اور پٹرول کا محلول تیار کر کے وہ اس تکنیک سے ٹینک پر مارتے تھے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ٹینک جل کر بے کار ہو جاتا تھا۔

مجاہدین نے مسلسل تین سال تک جنگ اس بے سروسامانی اور کسمپرسی کی حالت میں لڑی ہے۔ حتیٰ کہ جب چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر افغانستان کے کم و بیش ستر فیصد علاقے پر مجاہدین نے کنٹرول حاصل کر لیا تو اس کے بعد امریکہ اور دوسرے ممالک اپنے مفادات کے لیے اس میں شریک ہوگئے۔ یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ اس مرحلہ پر مجاہدین کو امریکہ کی حمایت قبول کرنا چاہیے تھی یا نہیں۔ تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے میری رائے یہ ہے کہ مجاہدین نے امریکہ کی حمایت قبول کر کے غلطی کی جس کی سزا افغانستان اب تک بھگت رہا ہے۔ مگر جہاد افغانستان کے اس سارے عمل کے بارے میں یہ کہہ دینا کہ وہ امریکی سائبان تلے شروع کیا گیا تھا، سراسر غلط بیانی اور مجاہدین کے ساتھ نا انصافی ہے۔

راجہ صاحب نے چیچن مجاہدین کے معرکہ کا بھی ذکر کیا ہے اور انہیں شکوہ ہے کہ چیچن مجاہدین نے صرف دو ہزار نیم مسلح گوریلوں کے ساتھ روس جیسی طاقت کے خلاف نبرد آزما ہو کر جذباتی خودکشی کی ہے اور چیچن عوام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روس کی غلامی میں دینے کی سازش کی ہے۔ مگر وہ یہ بات بھول گئے ہیں کہ آزادی کی جنگوں میں طاقت کا توازن نہیں دیکھا جاتا بلکہ جذبہ حریت اور صرف جذبہ حریت اس کی بنیاد بنتا ہے۔ ورنہ خود ہمارے ہاں عظیم تر برطانیہ کی خوفناک جنگی قوت کی موجودگی میں سکھوں کے ساتھ شہدائے بالاکوٹ کی جنگ بھی خودکشی کی جذباتی کوشش قرار پائے گی اور اس کے ساتھ بنگال کے حاجی شریعت اللہؒ اور تیتومیرؒ، سندھ کے پیر صبغۃ اللہ شہیدؒ، پنجاب کے سردار احمد خان کھرل شہیدؒ اور صوبہ سرحد کے حاجی ترنگؒ زئی اور فقیر ایپیؒ سمیت عظیم مجاہدین آزادی کے بیسیوں معرکے بھی راجہ انور صاحب کے فلسفہ کے مطابق جذباتی خودکشی کی کوشش قرار پا جائیں گے۔ جبکہ تاریخ یہ کہتی ہے کہ ہماری آزادی کے اصل معمار وہی ہیں اور انہی کے مقدس خون کی برکت سے ہم آج ایک آزاد مملکت کے شہری کہلاتے ہیں۔ اس لیے چیچنیا کے مجاہدین کو اگر وقتی طور پر روسی فوجوں کے سامنے پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے تو کوئی بات نہیں، آزادی کی جنگوں میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ مگر قومیں جب آزادی حاصل کرنے پر تل جاتی ہیں تو انہیں کوئی طاقت زیادہ دیر تک غلام بنا کر نہیں رکھ سکتی۔ چیچنیا بالآخر آزاد ہوگا اور اسے جب بھی آزادی ملی اس کی تاریخ میں گروزنی کے مجاہدین اور شہداء کو وہی مقام حاصل ہوگا جو ہماری جنگ آزادی میں مذکورہ بالا مجاہدین اور شہداء کو حاصل ہے۔

ان معروضات کے بعد راجہ صاحب کے اس فلسفہ کی طرف آتا ہوں کہ سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے لیے معاشی طور پر خودمختار ہونا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر سامراج سے کبھی آزادی حاصل نہیں ہو سکتی۔ مجھے اس سے اختلاف نہیں ہے لیکن اسی حقیقت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ معاشی خودمختاری کے لیے بھی سامراج سے آزادی حاصل کرنا ضروری ہے کیونکہ جب تک سامراج کا پنجہ ہماری گردن سے ڈھیلا نہیں ہوگا اس وقت تک معاشی خودمختاری کے بارے میں سوچنا بھی حماقت ہوگی۔ ہم اس کا مشاہدہ مشرق وسطیٰ میں کر چکے ہیں کہ عربوں کی معاشی حالت ہم سے کہیں بہتر تھی اور قدرت نے انہیں تیل کی عظیم دولت سے نوازا تھا لیکن چونکہ ان کی گردن سامراج کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے اس لیے ان کی دولت اور معاشی بہتری ان کے کسی کام نہیں آئی بلکہ الٹا ان کے لیے عذاب بن کر رہ گئی ہے۔

اپنا اپنا نقطۂ نظر ہے، راجہ صاحب اور ان کے ہمنواؤں کا موقف یہ ہے کہ آزادی کے لیے معاشی خودمختاری اور مضبوطی ضروری ہے، جبکہ ہم فقیروں کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ معاشی خودمختاری اور مضبوطی کے لیے آزادی ضروری ہے کیونکہ غلام جتنی چاہے کمائی کرے اور جتنی چاہے دولت جمع کر لے وہ بالآخر آقا کے خزانوں کی زینت ہی بنتی ہے۔ اس لیے ایک دوسرے سے الجھنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی ایک دوسرے کو طعنے دینے اور پھبتیاں کسنے کا کوئی موقع ہے۔ اپنے اپنے رخ پر لگے رہیں اور ایک دوسرے کو کوس کر وقت ضائع نہ کیجئے، قوم کو آزادی اور معاشی خودمختاری دونوں کی یکساں ضرورت ہے، دونوں میں سے جو گروہ بھی اپنے ہدف کی طرف سبقت کر گیا وہ دوسرے کے لیے یقیناً تقویت اور کامیابی کا باعث ہی بنے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter