حضرت مولانا شاہ احمد نورانیؒ

   
تاریخ : 
۱۴ دسمبر ۲۰۰۳ء

مولانا شاہ احمد نورانیؒ کی وفات کی خبر میں نے اسلام آباد میں سنی۔ جی ٹین تھری میں واقع جامعہ صدیقہ للبنات میں بخاری شریف کے سبق کے آغاز کی تقریب تھی، جامعہ کے مہتمم مولانا عبد الرشید کے ارشاد پر طالبات کو پہلا سبق پڑھایا۔ اس کے بعد اسلام آباد کے سرکردہ علماء کرام مولانا قاری محمد نذیر فاروقی، مولانا محمد رمضان علوی، مولانا پروفیسر ڈاکٹر احمد جان اور دیگر حضرات کے ساتھ ہم کھانے کے دستر خوان پر بیٹھے تھے کہ مولانا محمد رمضان علوی کو ان کے کسی دوست نے فون پر اطلاع دی کہ مولانا شاہ احمد نورانیؒ کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ خبر سنتے ہی محفل سوگوار ہوگئی اور مولانا نورانیؒ کی زندگی اور خدمات کے حوالہ سے مختلف امور کا تذکرہ ہونے لگا۔ وہاں سے فارغ ہو کر مجھے ایک دو جگہ جانا تھا، اس دوران معلومات حاصل کرتے رہے اور کچھ تفصیلات معلوم ہوئیں۔ خیال تھا کہ اگر اسلام آباد میں جنازہ ہو تو اس میں شرکت ہو جائے۔ مگر پتہ چلا کہ میت کراچی لے جائی جا رہی ہے اور جنازے کا پروگرام کراچی میں ہی ہے، چنانچہ سوگوار دل کے ساتھ شام کو گوجرانوالہ واپس چلا آیا۔

مولانا شاہ احمد نورانی ؒ کا نام پہلی بار ۱۹۷۰ء میں سنا جب وہ کراچی سے جمعیۃ علماء پاکستان کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پھر دھیرے دھیرے قومی سیاست کے افق پر آگے بڑھتے چلے گئے۔ اس وقت جمعیۃ علماء پاکستان کے سربراہ سیال شریف کے سجادہ نشین حضرت خواجہ قمر الدین سیالویؒ تھے۔ لیکن اس کے بعد مولانا نورانیؒ کو جے یو پی کا صدر منتخب کیا گیا اور وہ آخر عمر تک اس منصب کے ساتھ قومی سیاست میں متحرک کردار ادا کرتے رہے۔

جمعیۃ علماء پاکستان کے نام سے سیاسی جماعت سب سے پہلے دیوبندی مکتب فکر کے جمعیۃ علماء ہند سے تعلق رکھنے والے علماء نے قائم کی تھی۔ اس کے سرکردہ علماء کرام میں حضرت مولانا محمد صادقؒ آف کھڈہ کراچی، حضرت مولانا عبد الحنانؒ آف راولپنڈی، حضرت مولانا مفتی محمد نعیم لدھیانویؒ ، حضرت مولانا سید گل بادشاہؒ آف سرحد، حضرت مولانا مفتی ضیاء الحسن لدھیانویؒ آف ساہیوال اور حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ آف گوجرانوالہ شامل تھے۔ یہ سب جمعیۃ علماء ہند سے تعلق رکھتے تھے۔جبکہ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی قیادت میں کام کرنے والی جمعیۃ علماء اسلام کا جمعیۃ علماء ہند سے تحریک پاکستان کی حمایت یا مخالفت کے مسئلہ پر اختلاف تھا۔ چنانچہ مذکورہ بالا حضرات نے جمعیۃ علماء پاکستان کے نام سے ایک تنظیم قائم کر کے اپنے رفقاء کو منظم کرنا چاہا مگر اس وقت کے حالات میں وہ آگے نہ بڑھ سکے۔ میں نے حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ سے متعدد بار اس کا تذکرہ سنا ہے اور ان کے کاغذات میں اس جمعیۃ کی کچھ کاروائیاں بھی دیکھی ہیں۔ مگر دیوبندی مکتب فکر کی جمعیۃ علماء پاکستان متحرک نہ ہو سکی اور بریلوی مکتب فکر نے جمعیۃ علماء پاکستان کے نام سے تنظیم قائم کر کے کام شروع کر دیا۔ تب سے یہ پلیٹ فارم بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام اور دینی کارکنوں کی سیاسی تگ و تاز کے لیے مخصوص ہے۔

ایک دور میں جمعیۃ علماء پاکستان کے سربراہ آلو مہار شریف ضلع سیالکوٹ کے سجادہ نشین صاحبزادہ سید فیض الحسنؒ تھے۔ وہ قیام پاکستان سے قبل مجلس احرار اسلام میں شامل رہے ہیں اور ان کا شمار احرار کی صف اول کی قیادت میں ہوتا تھا۔ ان کی رہائش گوجرانوالہ میں تھی اور حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کا ان کے ساتھ دوستانہ تعلق تھا۔ اس لیے مجھے بھی ان کے پاس حاضر ہونے کا موقع ملتا رہتا تھا اور نیاز مندی کا یہ تعلق آخر وقت تک رہا۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات سے قبل ان کی بجائے حضرت خواجہ قمر الدین سیالویؒ کو جے یو پی کا سربراہ چنا گیا۔ الیکشن کے بعد جب قومی اسمبلی میں جمعیۃ علماء پاکستان کے سات منتخب ارکان پر مشتمل پارلیمانی گروپ مولانا شاہ احمد نورانیؒ کی سربراہی میں قائم ہوا تو ان کی صلاحیتوں اور ابھرتی ہوئی شخصیت کے پیش نظر جے یو پی کی صدارت کا منصب بھی انہیں کو سونپ دیا گیا۔ جے یو پی کے تنظیمی محاذ پر انہیں مولانا عبد الستار خان نیازیؒ کی رفاقت میسر آئی جن کا شمار تحریک پاکستان کے سرگرم کارکنوں میں ہوتا تھا اور وہ اس سے پہلے پنجاب اسمبلی کے رکن رہ چکے تھے۔ مولانا نیازیؒ اس سے قبل تحریک خلافت کے عنوان سے سیاسی میدان میں متحرک رہے تھے لیکن الیکشن میں جے یو پی کی نمایاں پیش قدمی کے بعد وہ مولانا نورانیؒ کے ساتھ میدان میں اترے اور دونوں کی مسلسل اور پرخلوص جدوجہد نے جمعیۃ علماء پاکستان کو چند سرکردہ علماء اور مشائخ کے حلقہ ہائے ارادت کے دائرہ سے نکال کر ایک عوامی سیاسی جماعت کا رنگ دے دیا۔

مولانا شاہ احمد نورانیؒ میرٹھ سے تعلق رکھتے تھے اور وہاں سے ہجرت کر کے کراچی میں آباد ہوئے تھے۔ ان کے والد محترم مولانا عبد العلیم صدیقیؒ کا شمار مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کے خلفاء میں ہوتا تھا اور ان کی پیری مریدی کا سلسلہ پاکستان اور ہندوستان کے ساتھ ساتھ یورپ اور افریقہ کے دور دراز علاقوں تک پھیلا ہوا تھا۔ جبکہ مولانا نورانیؒ کی شادی مدینہ منورہ میں مولانا فضل الرحمن مدنیؒ کے خاندان میں ہوئی۔ مولانا نورانیؒ کو اردو ، انگریزی اور عربی کے علاوہ فارسی، فرانسیسی، سواحلی اور دیگر متعدد زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ اور ۷۰ء کے الیکشن سے قبل ان کی تگ و تاز کا میدان دنیا کے مختلف حصوں میں ان کے والد مرحوم کے مریدوں اور عقیدت مندوں کے وسیع دائرہ میں پھیلا ہوا تھا جس میں خود مولانا نورانیؒ کی مساعی سے بھی خاصا اضافہ ہوا۔ مگر ان کے اصل جوہر قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے بعد پارلیمانی محاذ پر کھلے اور انہوں نے بہت جلد ایک منجھے ہوئے پارلیمنٹرین کی حیثیت سے خود کو تسلیم کرا لیا۔

اس وقت قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد پہلے خان عبد الولی خان اور پھر ان کی گرفتاری کے بعد مولانا مفتی محمودؒ تھے جبکہ اپوزیشن میں ان کے ساتھ مولانا نورانیؒ ایک متحرک، مدبر اور صاف گو رہنما کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور کی تیاری اور پھر تحریک ختم نبوت میں انہوں نے جو کردار ادا کیا وہ تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ اور دستور میں اسلامی دفعات کو شامل کرانے اور پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت کے دستوری تحفظ میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ خان عبد الولی خان جلد گرفتار ہو کر جیل میں چلے گئے تھے لیکن سچی بات یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد بچے کھچے پاکستان کو سنبھالنے، ایک متفقہ دستور دینے، اور دستور میں اسلام کی بنیادی دفعات کو سمونے میں اس دور کی مختصر اپوزیشن نے جو شاندار کردار ادا کیا اس میں مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ ، مولانا ظفر احمد انصاریؒ ، پروفیسر غفور احمدؒ اور چودھری ظہور الٰہیؒ کا کردار ملک کی دستوری تاریخ میں ہمیشہ پاکستانی قوم کے محسنوں کے طور پر ذکر ہوتا رہے گا۔

۱۹۷۴ء میں جب ملک میں قادیانی گروہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی تحریک چلی تو اسی اپوزیشن نے قومی اسمبلی کا محاذ سنبھالا اور اپنے اتحاد اور مشترکہ جدوجہد کی وجہ سے یہ مورچہ بھی سر کر لیا۔ اس وقت قومی اسمبلی میں اپوزیشن تعداد کے لحاظ سے اگرچہ بڑی نہیں تھی لیکن مذکورہ بالا بھاری بھر کم شخصیات اور ان کے بے داغ کردار نے اسے ایک طاقتور اپوزیشن کی حیثیت دے دی تھی۔ اور اپوزیشن کو یہ مقام دلوانے میں مولانا نورانیؒ کا کردار بھی نمایاں تھا۔

۱۹۷۷ء کے انتخابات سے قبل جب ملک کی نو سیاسی جماعتوں نے پاکستان قومی اتحاد کے نام سے مشترکہ پلیٹ فارم قائم کیا تو اس کے سربراہ مولانا مفتی محمودؒ تھے جبکہ مولانا نورانیؒ کی جمعیۃ علماء پاکستان کے سیکرٹری جنرل جناب رفیق احمد باجوہ کو قومی اتحاد کا سیکرٹری چنا گیا۔ ۷۷ء کے انتخابات کے لیے قومی اتحاد کی انتخابی مہم اور پھر انتخابات میں دھاندلی کے خلاف عوامی جدوجہد کو منظم کرنے میں مولانا نورانیؒ نے سرگرم کردار ادا کیا۔ قومی سیاست میں ان کی پختہ کاری اور عزم و استقامت کا ایک مظاہرہ اس وقت سامنے آیا کہ جب پاکستان قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک کے دوران جو عوام کے دینی جذبات کی وجہ سے تحریک نظام مصطفیؐ کا عنوان اختیار کر چکی تھی، قومی اتحاد کے سیکرٹری جنرل اور مولانا نورانیؒ کے رفیق کار جناب رفیق احمد باجوہ نے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے ساتھ خفیہ ملاقات کی تو مولانا نورانیؒ نے اس کا سخت نوٹس لیا۔ انہوں نے اپنے اس پرانے رفیق کی قربانی دینے میں ایک لمحہ کی تاخیر نہیں کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اس نازک مرحلہ میں مولانا نورانیؒ اپنے اس رفیق کے لیے تھوڑی سی لچک بھی دکھا دیتے تو قومی اتحاد اور تحریک نظام مصطفیؐ دونوں کا شیرازہ بکھر جاتا۔ لیکن انہوں نے تحریک اور اس عظیم مقصد کی خاطر اپنے سیکرٹری جنرل کی قربانی دے کر اصول پرستی، بیداری اور استقامت کا شاندار مظاہرہ کیا اور ان کا یہ کردار تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔

مولانا نورانیؒ نے ۷۸ برس عمر پائی ہے اور ۱۹۷۰ء سے اب تک وہ قومی سیاست کا ایک متحرک کردار رہے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینٹ دونوں کے باری باری رکن رہے ہیں۔ ان کے حلقہ ارادت کا دائرہ دنیا کے کئی بر اعظموں تک وسیع ہے۔ وہ جوہر شناس تھے اور ہیروں کا کاروبار کرتے تھے۔ دولت کے حصول اور پرتعیش زندگی کے اسباب کبھی ان کی دسترس سے باہر نہیں رہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے سادہ زندگی گزاری ہے۔ میں نے کراچی صدر میں ان کی اس رہائش گاہ میں متعدد بار حاضری دی ہے جو نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک ان کا مسکن رہی ہے۔ یہ ایک فقیر منش عالم دین کی رہائش گاہ تھی جو کرائے کے فلیٹ میں تھی۔ ان کا رہن سہن کا انداز پرانے وضعدار اور باوقار علماء کی یاد تازہ کرتا تھا۔ اور ان کی مہمان نوازی اور ملنساری کے نقوش ذہنوں میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو جایا کرتے تھے۔ ان کے مزاج میں بذلہ سنجی اور خوش طبعی کا پہلو نمایاں تھا۔ موقع محل کے مطابق ہلکے پھلکے فقرے چست کرنے میں انہیں کمال حاصل تھا اور وہ لمحوں میں کسی بھی محفل کو زعفران زار بنا دیا کرتے تھے۔ لیکن تہذیب و شائستگی کا دامن انہوں نے کبھی نہیں چھوڑا جس کی شہادت کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ ان کے ایک بڑے سیاسی حریف کی بیٹی جو خود بھی ان کی شدید سیاسی تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہیں، یعنی محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان کی وفات پر جو تعزیتی بیان دیا ہے اس میں اس بات کا بطور خاص تذکرہ کیا ہے کہ مولانا نورانیؒ اختلاف کا اظہار اور تنقید تہذیب کے دائرے میں رہ کر کیا کرتے تھے۔

مولانا نورانیؒ مسلکاً بریلوی تھے اور ڈھیلے ڈھالے نہیں بلکہ متصلب اور پختہ کار بریلوی تھے۔ اور میں اس بات کا عینی شاہد ہوں کہ جہاں بھی مسلک کی بات آئی ہے ان میں کوئی لچک دیکھنے میں نہیں آئی۔ لیکن اس کے باوجود مشترکہ دینی معاملات میں انہوں نے مشترکہ جدوجہد اور رابطہ و معاونت سے کبھی گریز نہیں کیا۔ سیاسی معاملات ہوں یا دینی، ملک کی مختلف الخیال جماعتوں اور حلقوں کے درمیان رابطہ و مفاہمت کے فروغ اور اتحاد و اشتراک کے اہتمام میں ان کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔

اپنی زندگی کے آخری سالوں میں افغانستان میں طالبان حکومت کی حمایت، افغانستان کی قومی خود مختاری و آزادی کے تحفظ، امریکہ کی استعماری یلغار کی مخالفت، اور پاکستان کے قومی اور داخلی معاملات میں امریکی مداخلت کی مذمت و مزاحمت میں انہوں نے جو شاندار کردار ادا کیا وہ ہماری قومی تاریخ کے ایک مستقل باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی دینی قوتوں نے متحدہ مجلس عمل کے نام سے سیاسی اتحاد قائم کیا تو اس کی سربراہی کے لیے سب سے نمایاں اور حقدار شخصیت انہی کی سامنے آئی۔ اور وہ ملک میں جمہوری اقدار کی بحالی، قومی خود مختاری کے تحفظ، دستور کی بالادستی اور عالمی سطح پر امریکی استعمار کی اسلام دشمنی کے خلاف جدوجہد کی قیادت کرتے ہوئے اس شان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے کہ پوری قوم غم و اندوہ میں ڈوب گئی۔ تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اور دینی کارکن ان کی جدائی کی کسک اپنے دلوں میں محسوس کر رہے ہیں اور بلا امتیاز ہر طبقہ ان کی دینی و قومی خدمات پر خراج تحسین پیش کر رہا ہے۔

اللہ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور تمام پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق ارازانی فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter