(جان کائزر کی کتاب ’’امیر عبد القادر الجزائری: سچے جہاد کی ایک داستان‘‘ کے دیباچہ کے طور پر لکھا گیا۔)
انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی کے دوران مسلم ممالک پر یورپ کے مختلف ممالک کی استعماری یلغار کے خلاف ان مسلم ممالک میں جن لوگوں نے مزاحمت کا پرچم بلند کیا اور ایک عرصہ تک جہاد آزادی کے عنوان سے داد شجاعت دیتے رہے، ان میں الجزائر کے امیر عبد القادر الجزائریؒ کا نام صف اول کے مجاہدین آزادی میں شمار ہوتا ہے جن کی جرات و استقلال، عزیمت و استقامت اور حوصلہ و تدبر کو ان کے دشمنوں نے بھی سراہا اور ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گیا۔
امیر عبد القادر مئی ۱۸۰۷ء میں الجزائر میں، قیطنہ نامی بستی میں ایک عالم دین اور روحانی راہنما الشیخ محی الدینؒ کے ہاں پیدا ہوئے اور اپنے والد محترم سے اور ان کے زیر سایہ دیگر مختلف علماء کرام سے ضروری دینی و عصری تعلیم حاصل کی اور ان کے ساتھ ۱۸۲۵ء میں حج بیت اللہ کی سعادت سے بھی بہرہ ور ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب مغرب کے استعماری ممالک ’’انقلاب فرانس‘‘ کی کوکھ سے جنم لینے والی جدید مغربی تہذیب و ثقافت کی برتری کے نشے سے سرشار تھے اور سائنسی ترقی سے حاصل ہونے والی عسکری قوت اور ٹیکنالوجی کی صلاحیت نے انہیں پوری دنیا پر حکمرانی کا شوق دلا دیا تھا۔ عالم اسلام کی دو بڑی قوتیں خلافت عثمانیہ اور مغل بادشاہت ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھیں، چنانچہ برطانیہ، فرانس، اٹلی، ہالینڈ، پرتگال اور دوسرے ممالک نے ان دونوں قوتوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے مختلف اطراف میں یلغار کی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ افریقہ اور ایشیا کے ایک بڑے حصے کو نوآبادیات میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ خلافت عثمانیہ اور مغل بادشاہت کا سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ وہ سائنسی ترقی اور دنیا میں ہونے والی تہذیبی و معاشرتی اور سیاسی تبدیلیوں کا بروقت ادراک نہ کر سکیں اور ان کی یہ غفلت استعماری یلغار کے سامنے عالم اسلام کے ایک بڑے علاقے کے سرنڈر ہونے کے اسباب میں ایک اہم سبب ثابت ہوئی۔
بہرحال جب بہت سے مسلم ممالک نے مختلف یورپی ممالک کی نوآبادیاتی غلامی کا طوق گردنوں میں پہنا تو ہر جگہ حریت پسندوں اور آزادی کے متوالوں نے حالات کے اس جبر کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور بہت دیر تک بغاوت اور سرکشی کا محاذ گرم رکھا۔ الجزائر پر فرانس کے تسلط کا آغاز انیسویں صدی کی تیسری دہائی کے آخر میں ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب جنوبی ایشیا میں برطانوی تسلط ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ہو چکا تھا اور امام ولی اللہ دہلویؒ کے مکتب فکر بلکہ خانوادے سے تعلق رکھنے والے مجاہدین کا ایک گروہ سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی قیادت میں پشاور کے علاقے میں جہادی سرگرمیوں میں مصروف تھا۔ ان کا وقتی سامنا اگرچہ سکھوں سے تھا، لیکن اپنے عزائم اور اہداف کے حوالے سے وہ برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف جہاد کے لیے بیس کیمپ حاصل کرنے میں مصروف تھے۔
اس قافلہ حریت نے ۱۸۳۰ء میں پشاور کے صوبہ پر قبضہ اور کم و بیش سات ماہ حکومت کرنے کے بعد ۶ مئی ۱۸۳۱ء کو بالاکوٹ میں جام شہادت نوش کیا تھا۔
الجزائر میں جب ۱۸۳۰ء میں فرانس نے تسلط قائم کرنے کی کوشش کی تو علماء کرام اور مجاہدین کی ایک جماعت نے امیر عبد القادرؒ کے والد محترم الشیخ محی الدینؒ کی قیادت میں تحریک مزاحمت کا آغاز کیا، مگر دو سال کے بعد ۱۸۳۲ء میں یہ دیکھتے ہوئے کہ اس مزاحمت کا سلسلہ بہت دیر تک قائم رہ سکتا ہے، تحریک مزاحمت کی مستقل منصوبہ بندی کی گئی اور الشیخ محی الدین کے جواں سال اور جواں ہمت بیٹے امیر عبد القادر کو باقاعدہ امیر منتخب کر کے مزاحمت کی جدوجہد کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
امیر عبد القادرؒ جذبہ جہاد کے ساتھ ساتھ فراست و تدبر کی نعمت سے بھی مالامال تھے، اس لیے انہوں نے اپنی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے الجزائری عوام اور قبائل کو اعتماد میں لیا، وسیع تر مشاورت کا سلسلہ قائم کیا، آزادی کی فوج کو وقت کے ہتھیاروں اور جنگ کی نئی تکنیک سے مسلح کیا اور ایک باقاعدہ فوج منظم کر کے الجزائر پر حملہ آور فرانسیسی فوجوں کے خلاف میدان جنگ میں نبرد آزما رہے۔ انہوں نے ۱۸۳۲ء سے ۱۸۴۷ء تک مسلسل سولہ سال تک فرانسیسی فوجوں کے خلاف جنگ لڑی، بہت سے معرکوں میں فرانسیسی فوجوں کو شکست سے دوچار کیا اور ایک بڑے علاقے پر کنٹرول حاصل کر کے امارت شرعیہ کا نظام قائم کیا۔ وہ اس وقت تک لڑتے رہے جب تک الجزائری عوام اور اسباب و وسائل نے ان کا ساتھ دیا اور جب حالات کی نامساعدت نے انہیں بالکل تنہا کر دیا اور الجزائر کے قبائل ایک ایک کر کے الگ ہوتے گئے تو ۱۸۴۸ء میں انہوں نے اور کوئی چارۂ کار نہ دیکھتے ہوئے ہتھیار ڈال دیے۔
انہیں گرفتار کر کے ۱۸۵۳ء تک فرانس کے مختلف قلعوں میں محبوس رکھا گیا اور پھر آزاد کر کے دمشق کی طرف جلاوطن کر دیا گیا۔ انہوں نے ۲۳ دسمبر ۱۸۴۷ء کو ایک مشروط معاہدے کے تحت خود کو فرانسیسیوں کے حوالے کیا تھا، مگر ان کی شرائط کو قبول کیے جانے کے بعد بھی حسب معمول بالائے طاق رکھ دیا گیا تو ایک موقع پر انہوں نے اس حسرت کا اظہار کیا کہ:
’’اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ ہمارے ساتھ یہ کچھ ہونا ہے جو ہو رہا ہے تو ہم جنگ ترک نہ کرتے اور مرتے دم تک لڑتے ہی رہتے۔‘‘
وہ پہلے استنبول گئے اور پھر خلافت عثمانیہ کی ہدایت پر دمشق آ گئے جہاں انہوں نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ وہ مالکی فقہ کے بڑے علماء میں سے تھے اور تصوف میں الشیخ الاکبر محی الدین بن عربیؒ کے پیروکار اور ان کے علوم کے شارح تھے۔ دمشق میں قیام کے دوران انہیں ایک اور معرکے سے سابقہ درپیش ہوا کہ خلافت عثمانیہ کی طرف سے شام میں مقیم مسیحیوں پر جزیہ کا قانون تبدیل کیے جانے کے بعد اس مسئلے پر مسلم مسیحی کشمکش کا آغاز ہوا اور بہت سے حلقوں کی طرف سے قانون کی اس تبدیلی کو ناکام بنانے کے لیے مسیحیوں کے خلاف مسلمان عوام کو بھڑکانے کا سلسلہ شروع کیا گیا جس پر امیر عبد القادر الجزائریؒ نے مسیحیوں کے خلاف اس یلغار کی مخالفت کی اور ان کی حمایت و تحفظ کے لیے کمربستہ ہو گئے۔ اس وقت غصے میں بپھرے ہوئے عوام کے لیے امیر عبد القادر کا یہ اقدام قابل اعتراض تھا، لیکن وہ اپنے اس موقف پر قائم رہے کہ بے گناہ مسیحیوں کی جانیں بچانا ان کا شرعی فریضہ ہے اور وہ ایسا کر کے اپنے اسلامی فرض کی تکمیل کر رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ امیر عبد القادر الجزائری کے اس جرات مندانہ اقدام کی وجہ سے کم و بیش پندرہ ہزار مسیحیوں کی جانیں بچیں جس کی وجہ سے انہیں مغربی دنیا میں بھی تحسین کی نظر سے دیکھا جانے لگا اور انہیں ’’امن کا ہیرو‘‘ قرار دے کر مغرب کے چوٹی کے سیاسی راہ نماؤں اور دانشوروں نے خراج تحسین پیش کیا، جبکہ نیویارک ٹائمز نے ان کے کردار کی عظمت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا کہ ’’عبد القادر کے لیے یہ یقیناً عظمت کا اور حقیقی شان و شوکت کا باب ہے۔ اس بات کو تاریخ میں رقم کرنا کوئی معمولی بات نہیں کہ مسلمانوں کی آزادی کے لیے لڑنے والا سب سے ثابت قدم سپاہی اپنے سیاسی زوال اور اپنی قوم کے ناگفتہ بہ حالات میں عیسائیوں کی زندگیوں اور حرمت کا سب سے نڈر نگہبان بن کر سامنے آیا۔ جن شکستوں نے الجزائر کو فرانس کے آگے جھکایا تھا، ان کا بدلہ بہت حیرت انگیز طریقے سے اور اعلیٰ ظرفی سے لے لیا گیا ہے۔‘‘
امیر عبد القادر الجزائری کا یہ کردار دیکھ کر مجھے متحدہ ہندوستان کی تحریک آزادی کے ایک بڑے لیڈر مولانا عبید اللہ سندھیؒ یاد آ جاتے ہیں اور مجھے ان دونوں بزرگوں میں مماثلت کے بعض پہلو بہت نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً مولانا عبید اللہ سندھیؒ اگرچہ میدان جنگ کے نہیں، بلکہ میدان فکر و سیاست کے جرنیل تھے، مگر ان کی سوچ یہ تھی کہ ہمیں سیاست و جنگ کے روایتی طریقوں پر قناعت کرنے کی بجائے ان جدید اسالیب، تکنیک اور ہتھیاروں کو سیاست اور جنگ کے دونوں میدانوں میں اختیار کرنا چاہیے اور وہ عمر بھر اسی کے داعی رہے۔
انہوں نے جب دیکھا کہ وہ حرب و جنگ کے ذریعے سے برطانوی تسلط کے خلاف جنگ جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو انہوں نے اس معروضی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کے لیے عدم تشدد کا راستہ اختیار کر لیا اور بقیہ عمر پرامن جدوجہد میں بسر کر دی۔
امیر عبد القادر کی طرح مولانا سندھی نے بھی عملی تگ و تاز کے میدان کو اپنے لیے ہموار نہ پاتے ہوئے تعلیم و تدریس کا راستہ اختیار کیا اور ہندوستان واپسی کے بعد دہلی اور دوسرے مقامات میں قرآن کریم کے تعلیمی حلقے قائم کر کے اپنے فکر و فلسفہ کی تدریس و تعلیم میں مصروف ہو گئے۔
مولانا سندھیؒ مغربی تہذیب و ثقافت اور تکنیک و صلاحیت کی ہر بات کو مسترد کر دینے کے قائل نہیں تھے، بلکہ اس کی ان باتوں کو اپنانے کے حامی تھے جو اسلامی اصولوں سے متصادم نہیں ہیں اور ہمارے لیے ضروری ہیں۔ اس کی وجہ سے انہیں بہت سے حلقوں کی طرف سے مطعون بھی ہونا پڑا۔
امیر عبد القادر الجزائری کو شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ کا پیروکار، ان کے علوم کا شارح اور ان کے فلسفہ وحدت الوجود کا قائل ہونے کی وجہ سے ان کے فکر کے ڈانڈے ’’وحدت ادیان‘‘ کے تصور سے ملانے کی کوشش کی گئی (جس کی جھلک جان کائزر کی زیر نظر کتاب میں بھی دکھائی دیتی ہے)، حالانکہ وحدت الوجود اور وحدت ادیان میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور شیخ اکبرؒ کے نظریہ وحدت الوجود کا مطلب وحدت ادیان ہرگز نہیں ہے۔ اسی طرح مولانا عبید اللہ سندھی کو بھی فرنگی تسلط کے خلاف سیاسی طور پر ہندوستانی اقوام کے ’’متحدہ قومیت‘‘ کے نظریہ پر ہدف تنقید بنایا گیا اور انہیں ’‘وحدت ادیان‘‘ سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔
امیر عبد القادر الجزائریؒ مغربی استعمار کے تسلط کے خلاف مسلمانوں کے جذبہ حریت اور جوش و مزاحمت کی علامت تھے اور وہ اپنی جدوجہد میں جہاد کے شرعی و اخلاقی اصولوں کی پاس داری اور اپنے اعلیٰ کردار کے حوالے سے امت مسلمہ کے محسنین میں سے ہیں۔ ان کے سوانح و افکار اور عملی جدوجہد کے بارے میں جان کائزر کی یہ تصنیف نئی پود کو ان کی شخصیت اور جدوجہد سے واقف کرانے میں یقیناً مفید ثابت ہوگی۔ ایسی شخصیات کے ساتھ نئی نسل کا تعارف اور ان کے کردار اور افکار و تعلیمات سے آگاہی استعماری تسلط اور یلغار کے آج کے تازہ عالمی منظر میں مسلم امہ کے لیے راہ نمائی کا ذریعہ ہے اور اس سمت میں کوئی بھی مثبت پیشرفت ہمارے لیے ملی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے۔