روزنامہ جنگ لاہور ۱۰ دسمبر ۱۹۹۵ء کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نے دو سو قوانین پر اپنا کام مکمل کر لیا ہے جبکہ ایک ہزار قوانین پر کام ہونا ابھی باقی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام ۱۹۷۳ء کے آئین کے تحت عمل میں لایا گیا تھا جو ممتاز ماہرینِ قانون اور جید علماء کرام پر مشتمل ایک آئینی ادارہ ہے۔ اور دستور کی دفعہ ۲۳۰ کے تحت اس کی ذمہ داری یہ تھی کہ اپنی تشکیل کے بعد سات سال کے اندر ملک میں رائج قوانین کا جائزہ لے کر انہیں قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے سفارشات مرتب کرے۔ آئین کی رو سے ہر سال قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کا پیش ہونا اور ان کے مطابق قانون سازی ضروری ہے۔
لیکن ۱۹۷۳ء میں تشکیل کے بعد سے اب تک کم و بیش تئیس برس گزر جانے کے باوجود ابھی تک کونسل صرف دو سو قوانین کا جائزہ لے کر ان کے بارے میں سفارشات مرتب کر سکی ہے، اور ان میں سے بھی بیشتر سفارشات اسمبلیوں میں پیش ہونے کی بجائے وزارتِ قانون کے سرد خانے میں پڑی ہیں، اور قواعد کی رو سے ان کی اشاعت پر بھی پابندی ہے۔
تمام قوانین کو سات سال کے اندر اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی آئینی پابندی کا جو حشر ہوا ہے وہ بہرحال قابل توجہ مسئلہ ہے اور آئینی ماہرین کو اس کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار ضرور کرنا چاہیے۔ لیکن اس کے ساتھ ہم یہ بھی عرض کریں گے کہ جن دو سو قوانین کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل نے سفارشات مرتب کر لی ہیں کم از کم انہیں ہی اشاعت کے لیے جاری کر دیا جائے تاکہ قوم کو یہ معلوم ہو سکے کہ ان سفارشات کو اسمبلیوں میں لا کر ان کے مطابق قانون سازی میں آخر رکاوٹ کیا ہے؟