ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد عالم اسلام کے موجودہ حکمرانوں میں ایک ایسے لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں جو عراق پر ممکنہ امریکی حملے کے خلاف بلند آہنگی کے ساتھ آواز بلند کر رہے ہیں، اور انہوں نے اپنے دارالحکومت کوالالمپور میں غیر وابستہ تحریک کی سربراہ کانفرنس اور اس کے بعد اسلامی سربراہ کانفرنس کا غیر رسمی ہنگامی اجلاس طلب کر کے اس سمت عملی سفر کا آغاز بھی کر دیا ہے۔
ڈاکٹر مہاتیر محمد اس سے قبل وقتاً فوقتاً اسلام اور عالم اسلام کے بارے میں مغرب کے جانبدارانہ اور معاندانہ رویہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے رہے ہیں، اقوام متحدہ کے نظام میں مغرب کی اجارہ داری کی نشاندہی کرتے ہوئے اس عالمی ادارے کے غیر منصفانہ سسٹم کی طرف عالمی رائے عامہ کو توجہ دلاتے رہے ہیں، اور اسرائیل اور عراق کے حوالے سے امریکی پالیسیوں کو ایک عرصہ سے تنقید کا ہدف بناتے رہے ہیں۔ چنانچہ گزشتہ دو دہائیوں کے درمیان وہ سب سے نمایاں مسلم حکمران اور لیڈر ہیں جنہوں نے اسلام، مسلمانوں، تیسری دنیا اور ایشیا کے بارے میں مغرب کے طرز عمل کو ہدف تنقید بنایا ہے اور مظلوموں کے جذبات اور احساسات کی کھل کر ترجمانی کی ہے۔ چنانچہ غیر وابستہ تحریک کے عالمی سیاسی فورم کو متحرک کرنے اور اسلامی سربراہ کانفرنس کو حرکت میں لانے کے لیے وہ سامنے آئے، تو میرے جیسے سیاسی اور نظریاتی کارکنوں کی کچھ ڈھارس بندھی ہے کہ اس سناٹے بلکہ کسمپرسی کے عالم میں مظلوم اقوام بالخصوص مسلمانوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کے لیے ایک بہتر اور متوازن شخصیت سامنے آئی ہے، جسے تیسری دنیا اور عالم اسلام کے حقیقی مسائل و مشکلات کا پوری طرح ادراک ہے اور وہ مغرب کے طریق واردات اور ہتھیاروں سے بھی مکمل طور پر واقف ہے۔
ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اپنی اس نئی مہم کے آغاز میں ہی واضح کر دیا ہے کہ انہیں اس سلسلہ میں درپیش نظر خطرات کا پوری طرح احساس ہے اور وہ بھی دوسرے مسلمان لیڈروں کی طرح سپر پاور سے خوف رکھتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ ضمیر بھی آخر کوئی چیز ہے اور مظلوم اقوام و طبقات کی حمایت میں آواز اٹھانا ضروری ہے، اس لیے اس خطرہ کے باوجود کہ ان کی گردن بھی دبوچی جا سکتی ہے وہ ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے میدان میں اترے ہیں۔
ڈاکٹر مہاتیر محمد اس وقت اٹھتر برس کے پیٹے میں ہیں اور گزشتہ ربع صدی سے ملائیشیا کے حکمران ہیں۔ ہمیں جرأت و جسارت کے حوالے سے تو نہیں، مگر ان کی عمر کے حوالے سے ضرور یہ خدشہ تھا کہ وہ شاید اس عمر میں اتنی بڑی محاذ آرائی کا ’’رسک‘‘ نہ لیں، لیکن انہوں نے ہمارے محترم نوابزادہ نصر اللہ خان کی طرح عمر اور بڑھاپے کی پروا نہ کرتے ہوئے تیسری دنیا اور عالم اسلام کی معروضی خطرناک صورتحال کے پیش نظر ریٹائرمنٹ اور آرام کی طرف جانے کی بجائے محاذ آرائی کی طرف قدم بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور محاذ آرائی بھی کس کے خلاف؟ جس کی ایک ٹیلی فون کال پر بڑے بڑے جغادریوں کی پتلونیں ڈھیلی ہو جایا کرتی ہیں۔ اس لیے ہمیں جہاں ڈاکٹر مہاتیر محمد کے اس جرأتمندانہ فیصلے پر خوشی ہوئی ہے، وہیں ہم اپنی یہ ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ عالم اسلام کے ارباب فضل و دانش کو اس مرد قلندر کی معاونت کے لیے توجہ دلائیں اور شب کی تاریکی میں رب العزت کی بارگاہ میں دامن پھیلانے والے بزرگوں سے درخواست کریں کہ وہ اس مرد غیور و جسور کی استقامت، کامیابی اور حفاظت کے لیے بارگاہ ایزدی میں خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں۔
ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اب تک کیا کچھ کیا ہے اور وہ اب کیا کرنے جا رہے ہیں بحمد اللہ وہ کم و بیش مجموعی طور پر ہمارے پیش نظر ہے، اور ان کی جدوجہد اور پروگرام کے حوالے سے ہم وقتاً فوقتاً اپنے قارئین کی خدمت میں کچھ نہ کچھ معلومات پیش کرتے رہیں گے، البتہ سردست ان کے بارے میں کچھ تعارفی گزارشات پیش خدمت کی جا رہی ہیں، جو خود ان کی اپنی کتاب ’’ایشیا کا مقدمہ‘‘ سے ماخوذ ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے مشرقی ایشیا کے ممالک کی صنعتی ترقی اور اس پر مغربی سرمایہ کاروں کے شب خون کی داستان بیان کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ مغرب کا معاشی سامراج کس طرح غریب ممالک کو قرضوں، امداد اور سرمایہ کاری کے نام پر اپنے شکنجے میں جکڑتا ہے اور پھر پوری طرح جکڑ لینے کے بعد کس طرح انہیں کند چھری سے ذبح کر دیتا ہے۔ ملائیشیا چونکہ خود مغرب کے معاشی سامراج کے اس تباہ کن حملے کا شکار ہوا ہے اور ڈاکٹر مہاتیر محمد کے دور اقتدار میں ہوا ہے، اس لیے ان سے بہتر کوئی مسلم حکمران اس حقیقت کو نہیں سمجھتا۔ اس کتاب کا جناب نعیم قادر نے اردو میں ترجمہ کیا ہے اور جمہوری پبلی کیشنز ۹، الشجر بلڈنگ، نیلا گنبد، لاہور نے اسے شائع کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مغربی حکومتوں، بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور مغربی سرمایہ کاروں کے سامراجی ہتھکنڈوں اور غریب و ترقی پذیر ممالک و اقوام کے خلاف ان کے طریق واردات کو سمجھنے کے لیے ہر سیاسی اور ذیلی کارکن کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر مہاتیر محمد ۱۹۲۵ء میں ملایا کے جنوب مغرب کے ایک قصبہ ایلورستار میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ
’’میرے والد سکول کے استاد تھے اور بعد میں وہ گورنمنٹ آڈیٹر بنے۔ انہوں نے اپنے خاندان کی پرورش روایتی انداز میں کی، جس میں ان کی خاص توجہ نظم و ضبط اور تعلیم پر تھی۔ میں اس لحاظ سے بہت خوش قسمت رہا کہ میں نے اچھی تعلیم حاصل کی۔ پہلے ملایا زبان میں اور بعد میں علاقے کے واحد انگلش میڈیم اسکول میں پڑھا۔ میرے تعلیمی اخراجات میرے والد نے ہی برداشت کیے۔ میرے والد جنہوں نے صرف قرآنی تعلیم حاصل کر رکھی تھی مجھے قرآن پڑھایا۔ میرا ایک دینی معلم بھی مقرر کیا گیا جو کہ گھر آ کر مجھے قرآنی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی علوم اور ایمان کے مسائل کی تعلیم دیتا تھا۔ اگرچہ ہمارا گھرانہ کوئی شدید مذہبی رجحانات نہیں رکھتا تھا، مگر پھر بھی ہم لوگ اسلامی عقائد سے جڑے ہوئے تھے۔ اس چیز نے مجھے زندگی میں ایک اچھی ابتدا دی جس کی بنیاد ایک مضبوط خاندان، اچھی تعلیم اور پاکیزہ دینی ماحول تھا۔‘‘
پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر مہاتیر محمد میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے سنگاپور میں میڈیسن کی تعلیم حاصل کی، اس کے ساتھ ہی خط و کتابت کے ذریعہ صحافت میں ڈپلومہ حاصل کیا اور سنگا پور کے مقامی اخبار ’’سنڈے ٹائمز‘‘ میں ملایا کے حالات کے بارے میں مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ میڈیسن کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے سرکاری ڈاکٹر کی حیثیت سے ملایا میں ملازمت کا آغاز کیا، لیکن سیاسی معاملات میں دلچسپی کی وجہ سے ملازمت چھوڑ کر اپنا پرائیویٹ کلینک قائم کر لیا، جس سے انہیں سیاسی سرگرمیوں میں کھل کر حصہ لینے کا موقع مل گیا۔ یہ وہ دور تھا جب ملایا برطانیہ کی نوآبادیاتی تھا۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے دوسرے دوستوں کے ساتھ مل کر آزادی کے لیے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ وہ انڈونیشیا میں ولندیزی استعمار کے خلاف انڈونیشی عوام کی تحریک آزادی کی بھی مدد کرتے تھے اور اپنے وطن کی آزادی کے لیے بھی متحرک رہے۔ ۱۹۵۷ء میں ملایا کو برطانوی استعمار سے آزادی حاصل ہوئی۔ مہاتیر محمد اس کے بعد بھی مسلسل قومی سیاست میں متحرک رہے اور انہیں حکمران سیاسی جماعت میں نمایاں مقام حاصل ہوتا چلا گیا۔ ۱۹۶۴ء میں پہلی بار پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور ۱۹۷۴ء میں منسٹر بن گئے۔ ۱۹۷۲ء میں نائب وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے اور ۱۹۸۱ء میں ملک کے وزیر اعظم بن گئے اور تب سے وہ وزیر اعظم کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیتے آ رہے ہیں۔
ان کے دور میں ملائیشیا نے کس طرح معاشی اور صنعتی ترقی کی منازل طے کیں کہ وہ مغربی ممالک کی صف میں شامل ہونے کے قریب پہنچ گیا اور ’’ایشیا کا ٹائیگر‘‘ کہا جانے لگا، اور پھر کس طرح مغربی سرمایہ کاروں نے چند ہفتوں میں اسے زمین پر دے مارا۔ اس کی دلچسپ داستان انہی کے قلم سے پڑھی جائے تو زیادہ بہتر ہو گا، البتہ انہوں نے مغرب کے طریق واردات کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس کا صرف ایک اقتباس پیش خدمت ہے۔
’’اب فوج کشی کے ذریعے سامراجی نظام کے قیام کو بین الاقوامی سطح پر ترک کر دیا گیا ہے۔ مقبوضہ علاقوں پر حکومت کا قیام ہی سامراجی نظام کی ایک شکل نہیں ہے، کیونکہ کرنسی کی تجارت اور کھوکھلی اقتصادی پالیسیوں کی مدد سے بھی ایسے ہی نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایسی معیشتیں جو کہ تیزی سے ترقی کر رہی ہوں، انہیں ایسے حربوں کی مدد سے کمزور کر کے نئے سامراجی نظام کی راہ ہموار کی جا رہی ہے جس میں غالب آنے والی طاقتوں کو اپنے ایک بھی سپاہی کی قربانی نہیں دینا پڑے گی اور یوں مغلوب ممالک غریب سے غریب تر ہوتے چلے جائیں گے اور ان کے ہاں سیاسی ناہمواری اور اقتدار کی کھینچا تانی شروع ہوگی، جس کے نتیجے میں قیادت کی تبدیلی ایک مسلسل عمل بن جائے گا اور یہ تسلسل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کوئی ایسا امیدوار ابھر کر سامنے نہ آ جائے جو بین الاقوامی طاقتوں کا ہم خیال ہو۔ یہ کسی بھی ملک پر اقتصادی غلبے کا ایک نیا اور دقیق انداز ہے، جبکہ دوسرے الفاظ میں اسے معاشی سامراج بھی کہا جا سکتا ہے۔‘‘