عربی زبان، ہماری قومی ضرورت

   
نا معلوم

عربی زبان قرآن و سنت کی زبان ہے اور ایک مسلمان کے لیے اس کی تعلیم اساسی حیثیت رکھتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں قیام پاکستان کے بعد سے ہی اسے وہ درجہ نہیں دیا جا رہا ہے جو اس کا حق ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم سوسائٹی کی بنیادی ضرورت بھی ہے۔ حتیٰ کہ دینی مدارس میں جن کا تعارف ہی مدارس عربیہ کے عنوان سے ہے، عربی زبان صرف کتاب فہمی تک محدود ہے اور کتاب فہمی کا دائرہ بھی سمٹ سمٹا کر صرف درس و تدریس کے دائرے میں بند ہو کر رہ گیا ہے۔ معاصر عربی ادب، بول چال، میڈیا اور خطابت و صحافت کے میدان ہماری دسترس سے ابھی تک باہر ہیں۔ مولانا محمد بشیر سیالکوٹی اور مفتی ابولبابہ شاہ منصور جیسے باذوق اور باہمت حضرات کی تمام تر مخلصانہ جدوجہد کے باوجود دینی مدارس کا اجتماعی دھارا اس طرف متوجہ ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کر رہا جو بجائے خود ایک المیہ سے کم نہیں ہے۔ دوسری طرف سرکاری تعلیمی اداروں میں عربی زبان کے ساتھ سوتیلی ماں کا جو سلوک جاری ہے وہ بھی تعلیم و تدریس کی تاریخ کا ایک افسوسناک باب ہے۔

دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے جو فضلاء عربی کی تدریس کے لیے سرکاری تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں انہیں دونوں طرف سے حوصلہ شکنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری طرف سے انہیں اکابر کے راستے سے ہٹ جانے کا طعنہ زندگی بھر برداشت کرنا ہوتا ہے اور حکومتی تعلیمی پالیسی میں عربی زبان کے ساتھ ساتھ عربی ٹیچرز کے لیے بھی عزت افزائی اور سہولتوں کے اکثر دروازے بند رہتے ہیں۔ اس کی ایک جھلک ’’آل پاکستان عربیک ٹیچرز ایسوسی ایشن‘‘ کے صدر حافظ گلزار احمد آزاد اور دیگر راہ نماؤں حافظ ریاض احمد عثمانی اور محمد یونس عتیق کی طرف سے جاری کی جانے والی اس اپیل میں دیکھی جا سکتی ہے جس میں انہوں نے پنجاب میں عربی کی تدریس کے حوالہ سے حال ہی میں سامنے آنے والی مزید رکاوٹوں کا تذکرہ کیا ہے، اور حکومت سے اس سلسلہ میں فوری توجہ دینی کی درخواست کی ہے۔

’’آل پاکستان عربیک ٹیچرز ایسوسی ایشن‘‘ کا یہ موقف قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ہمارے خیال میں حکومت کو تو اس پر توجہ دینی ہی چاہیے، دینی مدارس کے وفاقوں اور دینی جماعتوں کے راہ نماؤں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اس صورت حال کا نوٹس لیں اور عربی زبان کی تعلیم و تدریس کو صحیح ٹریک پر لانے کے لیے اپنے اپنے دائرے میں کردار ادا کریں۔

’’مملکت خداداد پاکستان ایک عطیہ الٰہی ہے جس کی بنیاد لا الٰہ الا اللہ پر رکھی گئی ہے۔ یہ ایک نظریاتی مملکت ہے جس کا ایک مشن، مقصد اور ہدف ہے۔ جس نظریہ کی وجہ سے یہ ملک معرض وجود میں آیا وہ اس کی اساس اور بنیاد ہے۔ یہ نظریہ جتنا مضبوط و توانا ہوگا اتنا ہی ملک مضبوط و مستحکم ہوگا۔ وہ نظریہ اسلام ہے۔ اس نظریۂ پاکستان کی مرکزی کتاب قرآن اور نبی علیہ السلام کی حدیث اس کی تشریح و تفسیر ہے، دونوں عربی زبان میں ہیں۔ ہم مسلمانوں کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی عربی ہیں۔ مسلم گھرانے میں جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کو اذان عربی زبان میں سنائی جاتی ہے۔ ہمارے تمام عقائد و عبادات کے ماخذ عربی زبان میں ہیں، اور ہماری قومی زبان اردو بھی عربی کی کوکھ سے پیدا ہوئی ہے۔ جو عربی زبان سے نا آشنا ہوا، اسے اردو بھی نہیں آسکتی ہے۔ اور تقریباً ۶۰ ممالک میں عربی زبان بولی جاتی ہے، جبکہ ۳۵ کروڑ انسان عربی میں گفتگو کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرارداد مقاصد، اسلامی نظریاتی کونسل، سینیٹ آف پاکستان، فیڈرل شریعت کورٹ اور قومی اسمبلی جیسے وقیع اور مقتدر اداروں نے عربی زبان کی اہمیت اور ضرورت کا احساس کرتے ہوئے عربی کی ترویج کے لیے قراردادیں اور حکم نامے جاری کیے اور سفارشات کی ہیں، مثلاً:

  1. اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں عربی زبان کی تعلیم کا نہ صرف وعدہ کیا گیا ہے بلکہ ہر مسلمان کے لیے عربی زبان کی تعلیم کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ بحوالہ آرٹیکل ۲۳۰ (۱) (الف)۔ آرٹیکل ۳۱(۲))الف)
  2. سابق صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے عربی کو چھٹی سے بارہویں جماعت تک لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھانے کا فرمان جاری کیا۔
  3. پاکستان کے مختلف سرکاری اداروں جیسے سینٹ آف پاکستان کی تعلیمی کمیٹی نے بھی عربی زبان کو تعلیمی مراحل میں لازمی قرار دینے کی سفارش کی ہوئی ہے۔ (۲۲نومبر ۱۹۹۰ء)
  4. اسلامی نظریاتی کونسل نے مورخہ ۲۵ فروری ۲۰۱۱ء کو عربی زبان کی لازمی ترویج کے بارے میں سفارشات منظور کیں۔
  5. فیڈرل شریعت کورٹ اسلام آباد نے تو ۲۲ اکتوبر ۲۰۱۲ء سے پرائمری سطح سے لے کر بارہویں جماعت تک عربی کو بطور لازمی مضمون بنانے کا نہ صرف آرڈر جاری کیا، بلکہ چھ ماہ کی مدت کے اندر اندر تمام صوبوں میں اس کی تنفیذ کا حکم بھی صادر فرمایا ہوا ہے۔
  6. ۱۰ دسمبر ۲۰۱۰ء کو پنجاب حکومت نے حکم جاری کیا کہ پہلی کلاس سے ہی عربی کی تعلیم شروع کی جائے۔ (بحوالہ نوٹیفیکیشن: چیف منسٹر سیکرٹریٹ لاہور پنجاب)
  7. حکومت پنجاب محکمہ تعلیم سکولز نے ۲۳ اگست ۲۰۱۱ء کو وضاحتی حکم جاری کیا کہ عربی بطور لازمی کی حیثیت برقرار ہے اور رہے گی۔
  8. (PEC) کے زیر اہتمام ۲۰۰۶ء سے ۲۰۱۳ء تک گریڈ ہشتم کے ۸ مضامین کا امتحان ہوتا رہا، نکالے گئے دیگر مضامین کی طرح عربی کو بھی لازمی مضمون کی حیثیت حاصل تھی، اس طرح ۸۰۰ نمبروں کی ایک بہترین سند جاری ہوتی تھی۔

لمحہ فکریہ:

اب حکومت پنجاب کی طرف سے جاری کردہ ڈیٹ شیٹ برائے امتحان ۲۰۱۴ء میں دوسرے چند مضامین کی طرح عربی کو بھی گریڈ ہشتم کے سالانہ امتحان سے خارج کر دیا گیا ہے۔ یہ کیسی مہلک اور خطرناک پالیسی ہے جو ملک کی اساسی اور بنیادی حیثیت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ جبکہ ڈاکٹر میاں محمد نواز شریف کی حکومت تو قومی اور ملی بنیادوں کو مستحکم کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔ ایسے اقدامات سے حکومت کی بدنامی اور عوام بالخصوص دینی طبقات میں تشویش پھیل رہی ہے۔

ان حالات میں ہمارا مطالبہ ہے کہ جاری کردہ ڈیٹ شیٹ منسوخ کر کے نئی ڈیٹ شیٹ جاری کی جائے جس میں عربی کو بطور لازمی مضمون شامل کیا جائے۔ اور ملک کی نظریاتی اساس کے خلاف سیکولر ذہنیت رکھنے والے دانستہ یا نا دانستہ دشمنوں کو تلاش کر کے ان کے خلاف تادیبی کاروائی کی جائے۔ الغرض یا تو مکمل امتحان پہلے کی طرح PEC کے ماتحت لیا جائے یا اسے ۲۰۰۶ء سے پہلے کی طرح ہائی سکولوں کو سونپ دیا جائے۔ اور اگر یہ حکومت پر بوجھ ہے تو اس کے لیے مناسب سی فیس بھی والدین دینے کے لیے تیار ہیں۔ اداروں کو تباہ ہونے سے بچانا بھی محب وطن حکمرانوں کا فرض ہے۔ امید ہے کہ ارباب اختیار فوری طور پر اس کا نوٹس لے کر محب وطن عوام، طلباء میں پائی جانے والی بے چینی کو ختم کر کے ان کے مستقبل کو محفوظ اور روشن بنانے کے آرڈر جاری فرمائیں گے۔‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter