سیدنا ابراہیم علیٰ نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام وہ ذات گرامی ہیں جنہیں اللہ رب العزت نے سرور کائنات خاتم الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ساری کائنات میں افضل ترین مقام و مرتبہ عطا فرمایا۔ اور ان کی عظیم قربانیوں اور عزیمت و استقامت کے شاندار مظاہروں کے عوض دنیا بھر کی ایسی امامت بخشی کہ آج دنیا کا کم و بیش ہر الہامی مذہب خود کو حضرت ابراہیمؑ کی طرف منسوب کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ یہودی اپنے آپ کو حضرت ابراہیمؑ کا پیروکار کہتے ہیں، عیسائی اس بات کے اپنے لیے دعوے دار ہیں، مشرکین مکہ کفر و شرک کے باوجود ابراہیمی کہلانے کو سعادت کی بات سمجھتے تھے، حتیٰ کہ بعض بزرگوں کی تحقیق سے ہندوؤں میں بھی برہمن یا برہما مہاراج حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف ہی منسوب ہیں۔ جبکہ اہل اسلام تو اپنے اس دعوے میں بلاشبہ حق بجانب ہیں کہ اصل ابراہیمی وہی ہیں کہ وہ ملت ابراہیم پر ہیں اس لیے حضرت ابراہیمؑ کی عزیمت و استقامت کے صحیح وارث و حقدار وہی ہیں۔
قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کو دنیا بھر کی امامت کا مقدس منصب ان کی عزیمت و استقامت اور آزمائشوں و امتحانوں کا خندہ پیشانی کے ساتھ سامنا کرنے کے صلہ میں ملا۔ اور اگر حضرت ابراہیمؑ کی مقدس زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو اس امر کا اعتراف کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں رہے گا کہ اس ذات گرامی کی پوری زندگی قدم قدم پر مصائب و آلام سے نمٹتے ہوئے گزری۔
ذرا خیال فرمائیے کہ یہ امتحان کونسا کم تھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس عظیم الشان پیغمبر کو، جو پیدائشی مؤحد تھے، ایسے گھرانے اور ماحول میں پیدا فرمایا جہاں کفر و شرک، انسان کی خدائی اور ظلم و جبر کا دور دورہ تھا۔ انسان خدا بنا بیٹھا ہے، اس کے احکام کو خدائی احکام کا درجہ دیا جاتا ہے اور فرشتوں سے خود کو سجدہ کرانے والا انسان پتھر اور لکڑی کے بت تراش کر ان کے سامنے پیشانی رگڑ رہا ہے۔ ایسے ماحول میں حضرت ابراہیمؑ نے آنکھیں کھولیں، دل میں ایمان و توحید کے جذبات سمندر کی لہروں کی طرح کروٹ لے رہے ہیں لیکن باہر کی دنیا میں کفر و شرک اور ظلم و جبر کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ حتیٰ کہ جس گھر میں پیدا ہوئے وہ گھر ملک میں بت پرستی کا سب سے بڑا علمبردار ہے لیکن ابراہیم علیہ السلام نے ماحول کے اثرات کو قبول نہیں کیا۔ کم عمری کے باوجود کفر و شرک کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی دنیا کو توحید و رسالت کے انوار سے روشن کرنے کے لیے بے تاب دکھائی دیتے ہیں۔ قدم قدم پر باپ کو، رشتہ داروں کو اور اہل وطن کو روکتے اور ٹوکتے ہیں، ان سے شرک کے فوائد اور مضرات پر بحث کرتے ہیں۔ اس کے عوض انہیں ڈانٹ بھی پڑتی ہے اور طعنے بھی سننے پڑتے ہیں مگر وہ کتنا عظیم نوجوان تھا جس نے پورے معاشرے میں ایک ہمنوا کے نہ ہوتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کی توحید کا پرچم بلند کیا۔
پھر آپ دیکھیں کہ عزیمت و استقامت کے اس سر بفلک پہاڑ نے کلہاڑی کندھے پر اٹھائے قوم کے بت خانے کا رخ کیا اور قوم کے خداؤں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے کلہاڑی بڑے بت کے کندھے پر رکھ دی اور کسی قسم کا فکر و تردد کیے بغیر اطمینان سے قوم کے سامنے آگئے۔ قوم پوچھتی ہے، انکوائری کرتی ہے، جرح ہوتی ہے لیکن ابراہیم علیہ السلام کی ذہانت بلکہ عزیمت و استقامت کے سامنے بس نہیں چلتا اور سوائے ندامت و پشیمانی کے قوم کے ہاتھ میں کچھ نہیں آتا۔ قوم بے بس اور لاچار ہو کر اس مرد قلندر کو آگ میں جلانے کا فیصلہ کرتی ہے۔ آگ جل رہی ہے اور شعلے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں، حضرت ابراہیمؑ کو آگ کے سامنے لایا جاتا ہے، خدا کا خلیل مسکراتا ہے، آگے کی طرف دیکھتا ہے اور پھر آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر اور مطمئن ہو کر خود کو آگے بھڑکانے والوں کے سپرد کر دیتا ہے۔ وہ ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے حوالے کرتے ہیں مگر آگ میں تو آج جلانے کی سکت نہیں رہی اور قوم چشم حیرت سے خدا کے خلیل کو آگ کے گلزار میں چہل قدمی کرتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔
لیکن یہ تو ابتدائے عشق ہے، انتہا تک پہنچتے پہنچتے کتنے مرحلے درمیان میں آتے ہیں ذرا ان پر نگاہ ڈالتے چلیے۔ خدائی کے غرور میں نمرود اپنے تخت پر بیٹھا ہے اور ابراہیم علیہ السلام سامنے ہیں۔ جھوٹے اقتدار کے نشے میں بدمست نمرود اپنی خدائی منوانے کا خواہش مند ہے لیکن خدا کا خلیل نمرود کے دربار میں حقیقی خدا کی خدائی کا ڈنکا بجا رہا ہے۔ بحث ہوتی ہے، دلیلیں بیان کی جاتی ہیں، استدلال ہوتا ہے مگر کفر مبہوت ہو جاتا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام پوری سلطنت میں تنہا اور بے سروسامان ہوتے ہوئے بھی فاتح ہیں۔ ان کے دامن میں اعتماد ہے اور ان کی گفتگو میں خود کو منوانے کی صلاحیت ہے مگر نمرود کی آواز طاقت و قوت، فوج ظفر موج اور خزانوں کے ہوتے ہوئے بھی لرز رہی ہے۔ اس سے کوئی جواب نہیں بن پاتا اور پھر حق اپنی کامیابی کا پرچم نمرود کے دربار میں لہرا کر کامران واپس آتا ہے۔
آگے چلیے اور دیکھیے کہ قوم بھی لاجواب ہو گئی ہے۔ بادشاہ وقت خدائی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود لاچار ہے، اب آخری حربہ باقی رہ گیا ہے اور باپ سامنے آتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ اسے سمجھاتے ہیں اور منوانے کی کوشش کرتے ہیں مگر پتھروں کی زبان میں جواب ملتا ہے۔ خدا کے خلیل کو کس بات کی پروا ہے، آخری سلام کرتے ہیں، بچوں کو ساتھ لیتے ہیں اور وطن سے کوچ کر جاتے ہیں۔ اور ادھر دور صحرا میں کھڑا شیطان کف افسوس مل رہا ہے کہ یہ آخری حربہ بھی کسی کام نہ آیا۔
ابھی تو بہت سے امتحان باقی ہیں، ابھی تو راستہ میں ایک ظالم بادشاہ کی شیطنت کا غرور توڑنا ہے۔ بادشاہ اپنے اقتدار کے زعم میں خلیلِ خدا کے حرم پاک پر ہاتھ ڈالنا چاہتا ہے مگر ادھر تقدیر کھڑی مسکرا رہی ہے اور انجامِ کار اس بادشاہ کو اس مردِ قلندر کے حرم مقدس میں اپنی لڑکی کا ہدیہ پیش کرنا پڑتا ہے۔ اب حرم پاک میں ایک نہیں دو ہستیاں ہیں اور بعد میں آنے والی ہستی کی گود میں ایک ننھا سا پھول بھی کھل اٹھا ہے۔
پھر آزمائش کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے، حکمِ خداوندی ہے کہ جوان بیوی اور معصوم بچے کو کھلے صحرا میں کسی سہارے کے بغیر چھوڑ آؤ۔ کیا فرمانبردار خاندان ہے کہ ماں باپ اور بچہ چل پڑے ہیں اور صحرا میں، جہاں درخت ہے نہ پانی، ماں کے حوصلے کی داد دیجئے کہ جسے پتہ چلتا ہے کہ اسے اور اس کے شیر خوار بچے کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر صحرا میں چھوڑا جا رہا ہے تو وہ مطمئن ہو جاتی ہے۔ اور پھر ماں ہے، بچہ ہے، صحرا ہے اور کھلے آسمان کی نیلی چھت۔
پھر بچہ بڑا ہوتا ہے، نوجوانی کی حد کو پہنچتا ہے اور خیال فرمائیے اور وہ منظر آنکھوں کے سامنے لائیے کہ اکلوتے نوجوان بیٹے کا بوڑھا باپ بڑے راز و نیاز کے ساتھ بیٹے سے سرگوشی کر رہا ہے کہ بیٹے! مجھے حکم ملا ہے کہ تجھے ذبح کر دوں، تمہارا کیا خیال ہے؟ بیٹا کچھ بھی تردد نہیں کرتا، کوئی عذر پیش نہیں کرتا اور کہتا ہے:
’’ابا جان! جو حکم ملا ہے کر گزریے، مجھے آپ صبر کرنے والا پائیں گے۔‘‘
اور یہ صرف بات چیت کا قصہ نہیں، باپ نے بیٹے کو زمین پر لٹا دیا ہے، آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے، ہاتھ میں چھری ہے اور اکلوتے بیٹے کا بوڑھا باپ بیٹے کی گردن پر چھری رکھ کر اسے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ذبح کر رہا ہے۔ مگر چھری بھی تو اسی ذات کے اختیار میں ہے جس کے اختیار میں آگ تھی۔ چھری سے ذبح کرنے کی صلاحیت سلب ہو جاتی ہے اور آسمان سے آواز آتی ہے:
’’ابراہیم! بس اب امتحان پورا ہو چکا ہے۔ آپ کی قربانی کی یاد قیامت تک ہر سال زندہ کی جاتی رہے گی۔ آپ کے حقیقی پیروکار ہر سال آپ کی یاد کو تازہ کرنے کے لیے موٹے تازے جانوروں کا خون اللہ کی رضا کے لیے بہاتے رہیں گے۔‘‘
یہ ہے ایک ہلکا سا منظر اس عظیم و جلیل پیغمبر کی عزیمت و استقامت کا جسے اللہ تعالیٰ نے اولوالعزم رسولوں میں شمار کیا ہے اور ’’خلیل اللہ‘‘ جیسا پیارا خطاب دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی تو نہیں فرمایا کہ
’’اور جب ابراہیمؑ کو اس نے بہت سی باتوں میں آزمایا تو وہ بھی پورا اترا۔ پھر رب نے کہا میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔‘‘