جنوبی افریقہ سے!

   
تاریخ : 
یکم دسمبر ۲۰۱۳ء

سرکردہ علماء کرام کے ایک وفد کے ہمراہ گزشتہ دو روز سے جنوبی افریقہ میں ہوں۔ وفد میں بیس کے لگ بھگ علماء کرام شامل ہیں جن میں مولانا محمد الیاس چنیوٹی، مولانا محمد احمد لدھیانوی، مولانا سید کفیل شاہ بخاری، مولانا زاہد محمود قاسمی، قاری محمد رفیق وجھوی، مولانا مفتی محمد شاہد ، ڈاکٹر محمد عمر فاروق، جناب شمس الدین، مولانا محمد یحییٰ لدھیانوی، ڈاکٹر خادم حسین ڈھلون اور مولانا بدر عالم چنیوٹی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ کیپ ٹاؤن میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے امیر فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی دامت برکاتہم کی راہ نمائی میں ختم نبوت کانفرنس منعقد ہو رہی ہے جس میں شرکت کے لیے ہماری حاضری ہوئی ہے۔ پانچ سال قبل بھی حضرت مولانا مکی کی دعوت پر ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کے لیے کیپ ٹاؤن حاضر ہو چکا ہوں۔

ہم بدھ کو لاہور سے سعودی عرب ایئر لائنز کے ذریعہ روانہ ہو کر شام کو جدہ پہنچے۔ رات ایئرپورٹ پر ہی قیام رہا جو اگرچہ لمبی رات تھی مگر اللہ تعالیٰ کے گھر میں جگہ مل گئی اور ہم میں سے اکثر دوستوں کو رات کا بیشتر حصہ ایئرپورٹ کے اندرونی لاؤنج کی مسجد میں کچھ نہ کچھ آرام کا موقع مل گیا۔ جبکہ رات ہی دہلی سے دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا ابوالقاسم نعمانی دامت برکاتہم کی قیادت میں علماء کرام کا ایک وفد پہنچ گیا اور حضرت مولانا نعمانی مدظلہ کے ساتھ ملاقات و رفاقت ہمارے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔ وفد میں جامعہ مظاہر العلوم سہارنپور کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا شاہد سہارنپوری کے بھائی اور فرزند بھی شامل تھے۔

جمعرات کو صبح سحری کے وقت جدہ سے سعودی ایئر لائنز کے طیارے پر جوہانسبرگ روانگی ہوئی اور سعودی عرب سے حضرت مولانا عبد الوحید مکی، حضرت مولانا حشیم اور دوسرے علماء کرام بھی شامل ہوگئے۔ اس طرح سعودی ایئر لائنز کا طیارہ پاکستان، بھارت اور سعودی عرب سے سرکردہ علماء کرام کی بھاری تعداد کو لے کر ظہر تک جوہانسبرگ ایئرپورٹ پر جا اترا۔ ایئرپورٹ پر مولانا اسعد محمود مکی اپنے رفقاء سمیت خیر مقدم کے لیے موجود تھے۔ وہاں سے مولانا محمد ابراہیم پانڈور کی رہائش گاہ پر پہنچے جنہیں حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ کا خادم اور میزبان ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ کا وصال بھی پانڈور صاحب کے اسی گھر میں ہوا تھا اور وہ جوہانسبرگ میں مسلمانوں کے قبرستان میں آرام فرما ہیں۔ وفد نے پہلے حضرت مفتی صاحبؒ کی قبر پر حاضری دی اور پھر مولانا محمد ابراہیم پانڈور کی رہائش گاہ پر دوپہر کا کھانا کھایا۔ ظہر، عصر اور مغرب کی نمازیں ادا کیں اور شام کا کھانا کھانے کے بعد ہم سب بذریعہ طیارہ کیپ ٹاؤن کی طرف روانہ ہوگئے۔

کیپ ٹاؤن میں مولانا عبد الرحمن اور مولانا عبد الخالق کی سربراہی میں علماء کرام اور کارکنوں کا ایک گروپ ہمارا میزبان ہے اور سب علماء کرام کا قیام ایک ہوٹل میں ہے۔ رات کا کچھ حصہ اور نماز صبح کے بعد تھوڑا آرام کرنے کے بعد مختلف مساجد میں جمعۃ المبارک کے اجتماعات میں شریک ہونے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور میں اس فرصت سے فائدہ اٹھا کر قلم سنبھالے یہ سطور قلمبند کر رہا ہوں۔ دورے اور کانفرنس کی تفصیلات تو اگلی فرصت میں عرض کروں گا۔ سرِدست اس نعمت غیر مترقبہ پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس میں قارئین کو شریک کرنا چاہوں گا کہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا ابوالقاسم نعمانی مدظلہ کے ساتھ ملاقات اور چند روزہ رفاقت کا شرف حاصل ہوا ہے اور مزاج و خیالات کی ہم آہنگی نے اس لطف کو دوبالا کر دیا ہے۔ گزشتہ روز عصر کی نماز کے بعد مولانا محمد ابراہیم پانڈور کے گھر میں ایک مختصر سی نشست میں مجھے، مولانا سید کفیل شاہ بخاری اور ڈاکٹر محمد عمر فاروق کو شرکت کی جو سعادت حاصل ہوئی اس کا حظ ابھی تک ذہن میں تازہ ہے اور ہم آپس میں کئی بار اس کا تذکرہ کر چکے ہیں، اس کی چند جھلکیاں پیش خدمت ہیں۔

جوہانسبرگ کے بزرگ عالم دین اور جامعہ محمودیہ کے مہتمم مولانا مفتی محمد اسماعیل نے حضرت مولانا ابوالقاسم نعمانی کو دارالعلوم دیوبند کے اہتمام کا منصب سنبھالنے پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ بہت بڑی ذمہ داری کا بوجھ آپ پر آگیا ہے۔ مولانا نعمانی نے فرمایا وزن بہت زیادہ ہے مگر کندھا کمزور ہے، دعا کیجئے کہ اللہ رب العزت یا وزن کم کر دیں یا کندھے کو مضبوط بنا دیں۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ حضرت! وزن کم ہونے کی دعا تو ہم نہیں کریں گے البتہ کندھے کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی دعا ہم ضرور کرتے ہیں۔ مولانا نعمانی نے فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ جو بزرگ چلے جاتے ہیں لوگ ان کے بعد آنے والوں کو جانے والے بزرگوں کے معیار پر پرکھنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر ان جیسی صلاحیتیں نہ پا کر مایوس ہونے لگتے ہیں۔ حالانکہ جانے والوں کا معیار اور صلاحیتیں بعد والوں میں ہونا ضروری نہیں ہیں اور ہر دور کے حضرات کو اس دور کی ضروریات اور حالات کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ اس پر مولانا نعمانی نے حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ کا ایک دلچسپ واقعہ سنایا کہ کسی صاحب نے ان سے استفسار کیا کہ ایک مسجد کے امام صاحب کے گھر میں پردے کا اہتمام نہیں ہے کیا ان کے پیچھے نماز ادا کرنا درست ہے؟ حضرت مفتی صاحبؒ نے ان صاحب کو لکھا کہ اس مسجد کے نمازیوں کے حالات مجھے لکھ کر بھیجئے تاکہ میں یہ دیکھ سکوں کہ ان کے جیسے مقتدیوں کے لیے ان جیسے صاحب کو امام بنانا درست ہے یا نہیں؟ پھر حضرت مفتی صاحبؒ نے فرمایا کہ اصل میں سوال کرنے والے کو امام صاحب سے کوئی شکایت ہوگئی ہوگی اور ان کے خلاف ناراضگی کے لیے کوئی اور بہانہ نہیں ملا تو ان کے گھر جا پہنچے ہوں گے کہ گھر کے ماحول کو اس شکایت کا بہانہ بنا سکیں۔

حضرت مولانا ابوالقاسم نعمانی کی یہ مختصر مجلس بہت دلچسپ اور سبق آموز تھی اور مجلس کے شرکاء نے اس سے خوب استفادہ کیا مگر چونکہ جمعہ کا وقت قریب ہے اس لیے سرِدست اتنی حاضری پر اکتفا کرتے ہوئے بات ادھوری چھوڑ رہا ہوں، باقی باتیں سفر کے ساتھ ساتھ ان شاء اللہ تعالیٰ چلتی رہیں گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter