اقوام متحدہ کی طرف سے ’’جنوبی سوڈان‘‘ کو ایک آزاد اور خود مختار ملک کے طور پر رکنیت دینے کے فیصلے کے ساتھ ہی سوڈان کی پہلی تقسیم مکمل ہو گئی ہے اور دوسری تقسیم کی طرف پیشرفت کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ سوڈان جو افریقہ کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا مسلمان ملک تھا نسلی اعتبار سے تین اکائیوں پر مشتمل ہے:
- شمالی سوڈان، جہاں عرب مسلمانوں کی اکثریت ہے۔
- جنوبی سوڈان، جہاں مسیحیوں اور روح پرست افریقی قبائل کی اکثریت ہے۔
- اور مغربی سوڈان، جہاں افریقی مسلمان آباد ہیں۔
جنوبی سوڈان کے مسیحیوں نے اب سے نصف صدی قبل اس خطہ کو مسیحی ریاست کے طور پر ایک الگ ملک کی حیثیت دینے کے لیے جدوجہد کا اعلان کیا اور اس کے لیے جنوبی سوڈان میں رہنے والے روح پرست قبائل کو دعوتی اور مشنری جد و جہد کا ہدف بنایا تاکہ اپنی اکثریت قائم کر کے جنوبی سوڈان کی آزادی کا مطالبہ کر سکیں۔اس مقصد کے لیے انہیں عالمی مسیحی اداروں اور مغربی حکومتوں کی مکمل پشت پناہی حاصل رہی اور وہ بھرپور محنت کے ساتھ اس میں اس طور پر کامیاب ہوئے کہ نصف سے زیادہ آبادی کو انہوں نے اپنے مذہب میں شامل کر لیا اور نہ صرف آبادی میں اکثریت حاصل کی بلکہ سوڈان کی مرکزی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد اور خانہ جنگی کا میدان بھی گرم کر لیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس خانہ جنگی میں گزشتہ نصف صدی کے دوران تیس (۳۰) لاکھ سے زائد افراد لقمۂ اجل بنے اور اس طرح سوڈان کے معاملات میں عالمی برادری کی سیاسی و فوجی مداخلت کی راہ ہموار کی گئی۔ روزنامہ المنصف (حیدر آباد، دکن، بھارت) میں ۲۶ جولائی ۲۰۱۱ء کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ:
’’جنوبی سوڈان کی آزادی میں مسیحی پادریوں اور گرجاگھروں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے، ان مبلغین نے انتہائی صبر اور مستقل مزاجی کے ساتھ پچاس سال سخت محنت کی، شدید لڑائی کے باوجود یورپ کے تبلیغی کارکن ایک ایک گاؤں تک پہنچے اور قحط زدہ علاقوں میں جان پر کھیل کر اجناس کی تقسیم کا کام کیا، اس کے ساتھ ہی صحت و صفائی کی سہولتیں فراہم کی گئیں، تعلیم کو عام کیا گیا اور نصاب میں مسیحی عقائد کو بنیادی جزو بنایا گیا، اسی محنت اور حکمت کا نتیجہ ہے کہ جنوبی سوڈان کے نصف سے زیادہ روح پرست (Animist) عیسائی ہو چکے ہیں، یہ افریقی قبائل ایک سو سے زیادہ مختلف زبانیں بولا کرتے تھے اور ان کے درمیان کئی بار خونریز لسانی فسادات ہو چکے ہیں، قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے انگریزی زبان کو عام کیا گیا اور اعلان آزادی میں انگریزی کو ریاست کی قومی زبان قرار دیا گیا، یہ پوری تحریک آزادی ایک مذہبی تحریک تھی اور اس لحاظ سے جنوبی سوڈان کو افریقہ کی پہلی مسیحی نظریاتی ریاست قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘
لیکن سوڈان کی تقسیم کی کہانی ابھی مکمل نہیں ہوئی، اس لیے کہ جنوبی سوڈان کی آزادی کی تقریب میں، جو اس کے دارالحکومت جوبا میں منعقد ہوئی، مغربی سوڈان کی آزادی کے نعرے لگا کر ایک نئی مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے، مغربی سوڈان میں، جو دارفور کہلاتا ہے، افریقی مسلمان آباد ہیں جو لسانی بنیادوں پر اپنے خطہ کی آزادی کے لیے ایک عرصہ سے مصروف عمل ہیں، نہ صرف سیاسی بلکہ عسکری محاذ پر بھی جو با کے مسیحیوں کی طرح کام کر رہے ہیں اور انہیں بھی عالمی اداروں اور مغربی حکومتوں کی سیاسی حمایت حاصل ہے۔
اس تقریب میں امریکی صدر کی نمائندگی سوزن رائس نے کی اور جب ان سے سوڈان کے صدر نے اس موقع پر مطالبہ کیا کہ جنوبی سوڈان کو آزادی دینے کا وعدہ پورا کرنے پر سوڈان کے خلاف عالمی سطح پر لگائی گئی پابندیاں ختم کی جائیں تو امریکی صدر کے نمائندہ نے یہ کہہ کر اس سے انکار کر دیا کہ تمام سرحدی تنازعات کے خاتمے تک سوڈان پر پابندیاں قائم رہیں گی اور ’’مہذب دنیا‘‘ میں واپسی کے لیے سوڈان کو دارفور کا مسئلہ بھی حل کرنا ہو گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جنوبی سوڈان کی آزادی کے ساتھ ہی مغربی سوڈان کی آزادی کے لیے عالمی ایجنڈے پر کام شروع ہو گیا ہے اور سوڈان کو باقاعدہ طور پر وارننگ دے دی گئی ہے کہ آج کی دنیا میں ’’مہذب‘‘ کہلانے اور پابندیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے اسے تقسیم کے ایک عمل سے گزرنا ہو گا: