لندن کی بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس ۔ تحریک ختم نبوت کے تقاضوں کی روشنی میں

   
تاریخ : 
۲۵ جولائی ۱۹۸۶ء

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیراہتمام دوسری سالانہ بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس ۲۹ جولائی کو ویمبلے کافنرنس سنٹر لندن میں منعقد ہو رہی ہے جس میں شرکت کے لیے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے راہنما مولانا عبد الحفیظ مکی، مولانا محمد ضیاء القاسمی، مولانا اللہ وسایا اور مولانا عبد الرحمان باوا لندن پہنچ چکے ہیں جبکہ جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی راہنما مولانا میاں محمد اجمل قادری اور راقم الحروف کانفرنس سے دو روز قبل لندن پہنچ رہے ہیں اور ان کے علاوہ پاکستان سے دیگر سرکردہ علماء کرام بھی کانفرنس میں شرکت کے لیے جا رہے ہیں۔

گزشتہ سال انٹرنیشنل ختم نبوت مشن نے بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس جمعیۃ علماء برطانیہ کے تعاون سے منعقد کی تھی لیکن مشن اب عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت میں ضم ہو چکا ہے اس لیے دوسری سالانہ کانفرنس کا اجلاس عالمی مجلس کی طرف سے جمعیۃ علماء برطانیہ کے تعاون کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ دوسری سالانہ بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس جن حالات میں منعقد ہو رہی ہے اور ان حالات میں تحریک ختم نبوت کے ملکی اور عالمی تقاضے کیا ہیں، ان کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

تحریک ختم نبوت کی تازہ صورتحال یہ ہے کہ آئینی طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے اور اسلام کے نام پر قادیانیوں کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے صدارتی آرڈیننس کے اجراء کے بعد مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت اب ان آئینی اور قانونی فیصلوں پر عملدرآمد کرانے اور باقی مطالبات کی منظوری کے لیے جدوجہد میں مصروف ہے۔ اس وقت تحریک ختم نبوت کو جن مسائل کا سامنا ہے ان کی تفصیل کچھ یوں ہے:

  • صدارتی آرڈیننس پر مؤثر عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے۔ مختلف مقامات پر قادیانی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہے ہیں لیکن متعلقہ حکام کاروائی کرنے کی بجائے چشم پوشی اور وقت گزاری کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
  • کلیدی اسامیوں سے قادیانیوں کی علیحدگی، ارتداد کی شرعی سزا کے نفاذ اور دیگر اصولی مطالبات کے بارے میں حکومت دوٹوک موقف اختیار کرنے سے گریزاں ہے۔
  • مولانا محمد اسلم قریشی کی بازیابی کا مسئلہ ہنوز حل طلب ہے اور اس سلسلہ میں تفتیشی اداروں کی سرگرمیاں رسمی کاروائیوں اور اخباری بیانات سے آگے نہیں بڑھ سکیں۔
  • قادیانی گروہ آئینی اور قانونی دونوں فیصلوں کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور لندن میں ہیڈکوارٹر قائم کر کے انسانی حقوق کے نام سے مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے اور عالمی رائے عامہ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
  • حکومت نے ابھی تک قادیانی مسئلہ کو اپنا اور پاکستان کا مسئلہ نہیں سمجھا اور وہ اس ضمن میں عوامی دباؤ کے تحت اور دباؤ کے مطابق آگے بڑھنے کی حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے اندر اور عالمی محاذ پر قادیانی مسئلہ کے حوالے سے اسلام، ملتِ اسلامیہ اور پاکستان کی پوزیشن کی وضاحت کے لیے حکومتِ پاکستان نے کوئی سنجیدہ کاروائی ابھی تک نہیں کی۔
  • قادیانی مسئلہ کے بارے میں حکومت کی مصلحت آمیزی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ قادیانیوں نے اسمبلیوں میں اپنے لیے غیر مسلم کی حیثیت سے الگ نشستوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے جبکہ حکومت نے ان نشستوں کو خالی رکھ کر آئین سے قادیانیوں کے انحراف کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کی بجائے چپکے سے دیگر غیر مسلموں کے ذریعے ان نشستوں کو پر کر دیا اور قادیانی گروہ کی آئینی بغاوت پر پردہ ڈال کر اس کی آئین بیزار روش کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
  • حکومت کی ’’نیمے دروں نیمے بروں‘‘ کی حکمت عملی کے علاوہ قادیانیوں کو مس بے نظیر بھٹو، مسٹر غوث بخش بزنجو، خواجہ خیر الدین، خان عبد الولی خان، مسٹر حنیف رامے، مسٹر اعزاز احسن اور بیگم رعنا لیاقت جیسے سیاستدانوں کی طرف سے حمایتی بیانات نے خاصی تقویت پہنچائی ہے اور وہ زیادہ متحرک اور حوصلہ مند ہو کر تحریک ختم نبوت کے خلاف پراپیگنڈا میں سرگرم ہیں۔

اس صورتحال میں تحریک ختم نبوت کو عملاً تین محاذوں کا سامنا ہے:

  1. ملک کے اندر صدارتی آرڈیننس پر عملدرآمد، مولانا اسلم قریشی کی بازیابی اور دیگر مطالبات کی منظوری کے لیے حکومت پر زیادہ سے زیادہ عوامی دباؤ کی ضرورت،
  2. قادیانیوں کی حمایت کرنے والے سیاستدانوں کے بیانات سے پیدا شدہ اثرات کا ازالہ،
  3. عالمی محاذ پر قادیانیوں کے پراپیگنڈا کا جواب اور عالمی رائے عامہ کو قادیانی مسئلہ کے حوالہ سے اسلام، پاکستان اور تحریک ختم نبوت کی صحیح پوزیشن اور موقف سے آگاہ کرنا۔

لندن کی سالانہ بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس کے موقع پر جب کہ مختلف ممالک کے سرکردہ علماء اور تحریک ختم نبوت کے قائدین جمع ہو رہے ہیں، ہمیں امید ہے کہ تحریک ختم نبوت کے عالمی تقاضوں اور ضروریات کے بارے میں بھی اس موقع پر ٹھوس حکمت عملی وضع کی جائے گی۔ ہمارے نقطۂ نظر سے اس ضمن میں یہ ضروری ہے کہ تحفظ ختم نبوت کے مشن سے دلچسپی رکھنے والے زیادہ سے زیادہ افراد کو مشاورت اور عمل میں شریک کیا جائے اور کسی فرد یا طبقہ کے بارے میں ذہنی تحفظ رکھے بغیر اس کی صلاحیتوں اور استعداد سے فائدہ اٹھایا جائے۔

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اس مقصد کے لیے ایک بہتر ادارہ ہے لیکن اس صورت میں کہ اسے تمام مکاتبِ فکر اور مختلف اسلامی ممالک کی تنظیموں اور شخصیات کا نمائندہ ادارہ بنایا جائے۔ صرف مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کو عالمی مجلس کا نام دینے سے شاید وہ تقاضے پورے نہیں ہو سکیں گے جو تحریک ختم نبوت کی عالمی ضرورت ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ عالمی مجلس کے راہنما لندن کے اجتماع کے موقع پر اس بنیادی اور اہم پہلو پر سنجیدہ توجہ دیں گے اور دوسری سالانہ بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس عالمی تحریک تحفظ ختم نبوت کی مؤثر پیش رفت کا نقطۂ آغاز ثابت ہو سکے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter