گورنر بلوچستان جناب نواب محمد اکبر خان بگٹی اپنے تمام تر دعاوی کے باوجود صوبائی اسمبلی کا بجٹ اجلاس بلانے کی ہمت نہیں کر سکے اور گورنر کو براہ راست بجٹ کی منظوری کا اختیار دینے کے لیے صدر محترم کو عبوری آئین میں ترمیم کرنا پڑی۔ اس طرح نواب صاحب نے
’’خود کوزہ خود کوزہ گر و خود گلِ کوزہ‘‘
کے مصداق اسے ’’تاریخی میزانیہ‘‘ کا خطاب بھی مرحمت فرما دیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ میزانیہ یقیناً ’’تاریخی‘‘ ہے کہ صوبائی اسمبلی کی موجودگی میں اس کا اجلاس بلائے بغیر گورنر صاحب نے از خود بجٹ پیش کیا اور از خود اس کی منظوری بھی دے دی۔ جمہوریت کی تاریخ میں شاید اس انوکھے واقعہ کی مثال نہ مل سکے۔ مگر ہم جمہوریت کے اس قتلِ عام اور عوام کے منتخب ایوان کی کھلم کھلا توہین کی مذمت کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ہمارے نزدیک یہ نہ صرف صوبائی اسمبلی بلکہ عبوری آئین اور جمہوری اقدار کی بھی توہین ہے۔
حیرانگی کی بات ہے کہ صدر ذوالفقار علی بھٹو ایک طرف تو مری میں اپوزیشن راہنماؤں کے ساتھ جمہوریت کی بحالی اور سیاسی اقدار کے تحفظ کے لیے مذاکرات فرما رہے ہیں، اور وزیر قانون کے ارشاد کے مطابق تمام قومی مسائل کو جمہوری طریقوں سے حل کرنے کا اصولی فیصلہ ہوگیا ہے، مگر دوسری طرف بلوچستان میں جمہوریت کے ساتھ اس بیہودہ مذاق اور عوامی نمائندگان کی توہین کے عمل کو بھی ان کی عملی سرپرستی حاصل ہے۔ آخر یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا اور بلوچستان میں عوام کے منتخب نمائندوں کو ان کے حقوق سے کب تک محروم رکھا جائے گا؟
حال ہی میں ایک حکم میں کہا گیا تھا کہ اسمبلی کے ارکان کے فرائض کی ادائیگی میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکے گی۔ کیا نواب بگٹی کی ہٹ دھرمی بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی ادائیگیٔ فرض میں رکاوٹ نہیں؟
بہرحال نواب بگٹی کا سالانہ بجٹ از خود پیش کرنا اس بات کا کھلم کھلا ثبوت ہے کہ وہ اور ان کی خودساختہ غیر جمہوری کابینہ صوبائی اسمبلی کا اعتماد حاصل کرنے میں قطعاً ناکام ہو چکی ہے، اس لیے انہیں اپنی کابینہ سمیت گورنر کے عہدہ سے الگ ہوجانا چاہیے۔