مولانا فضل الرحمان اور پاکستان میں مسیحی ریاست

   
تاریخ : 
۲۶ مئی ۲۰۰۰ء

مولانا فضل الرحمان سے کافی عرصہ کے بعد گزشتہ جمعرات کو اسلام آباد میں ملاقات ہوئی اور مختلف امور پر تبادلۂ خیالات کا موقع ملا۔ بدھ کی رات ٹیکسلا میں حضرت مولانا قاضی محمد زاہد الحسینیؒ آف اٹک کے حلقہ مریدین کا اجتماع تھا جس میں مجھے بھی شرکت اور کچھ معروضات پیش کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا صلاح الدین فاروقی اس اجتماع کے منتظم تھے جو حضرت مولانا قاضی زاہد الحسینیؒ کے خصوصی تربیت یافتہ حضرات میں سے ہیں اور انہی کے رنگ میں علاقہ میں دینی و روحانی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

ٹیکسلا سے واپسی پر اسلام آباد میں ایک دو کاموں کے لیے رکا تو معلوم ہوا کہ مولانا فضل الرحمان اسلام آباد میں ہیں اور حافظ حسین احمد بھی ان کے پاس ہیں۔ فون پر رابطہ قائم کر کے گوجرانوالہ کے دینی و سماجی رہنما جناب عثمان عمر ہاشمی کے ہمراہ مولانا فضل الرحمان کی قیام گاہ پر پہنچا تو سب سے پہلے اس روح فرسا خبر کا سامنا کرنا پڑا کہ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کو ابھی تھوڑی دیر پہلے کراچی میں ان کے ایک ساتھی کے ہمراہ شہید کر دیا گیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یہ خبر اس قدر اچانک اور اندوہناک تھی کہ جمعیۃ علماء آزاد جموں و کشمیر کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری محمد نذیر فاروقی نے جب ہمیں وہاں بیٹھے اس واقعہ سے آگاہ کیا تو کچھ دیر تک انا للہ وانا الیہ راجعون کے بے ساختہ ورد کے سوا کوئی بات سوجھ ہی نہیں رہی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد مولانا فضل الرحمان کا کراچی فون پر رابطہ ہوا تو تفصیلات کا پتہ چلا کہ علم و فضل کا یہ پہاڑ، خلوص و ایثار کا یہ پیکر اور جہد و استقامت کا یہ عنوان کس طرح درندہ صفت اور سفاک دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر اپنے مشن پر قربان ہوگیا ہے۔ مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کی علمی و دینی خدمات کا تذکرہ اس محفل میں ایک فطری بات تھی اور ہر دوست نے اپنے اپنے ذوق اور معلومات کے مطابق حضرت مولانا مرحوم کی خدمات اور جدوجہد کا تذکرہ کیا اور ان کے وحشیانہ قتل پر افسوس اور صدمہ کا اظہار کیا۔

مولانا فضل الرحمان کے ساتھ میری یہ ملاقات کافی عرصہ کے بعد تھی اس لیے بہت سے مسائل میرے ذہن میں تھے اور بہت سے امور ان کے دائرۂ خیال میں بھی تھے جن پر ہم گفتگو کرنا چاہ رہے تھے مگر اس نئی صورتحال کے پیش نظر ایک دو مسئلوں کے سوا گفتگو نہ ہو سکی اور بات آئندہ کسی ملاقات پر جا پڑی۔

مولانا فضل الرحمان کو مجھ سے ایک شکایت تھی جس کا انہوں نے ہلکے پھلکے انداز میں ذکر کیا کہ میں جمعیۃ علمائے اسلام کے لیے کام نہیں کر رہا۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ میں جو کام کر رہا ہوں وہ بھی پروگرام اور مشن کے حوالہ سے جمعیۃ ہی کا کام ہے البتہ انداز قدرے مختلف ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے میرے اس جواب کا کوئی جواب نہیں دیا مگر میرے رفیق سفر عثمان عمر ہاشمی صاحب واپسی پر میرے ساتھ خاصی دیر بحث کرتے رہے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ میں اس وقت بھی جمعیۃ علمائے اسلام کا باضابطہ رکن ہوں مگر دھڑے بندی کے ماحول میں کوئی متحرک کردار ادا کرنے کے لیے ذہنی طور پر خود کو تیار نہیں پاتا۔ ایک دور میں جماعتی گروہ بندی کے حوالہ سے میں خاصا متحرک رہا ہوں مگر آٹھ دس سال پہلے اس کام سے طبیعت ایسی اکتائی ہے کہ اب جماعتی دھڑے بندی کے نام پر ایک تنکا توڑنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ اس لیے اس کے بعد سے بطور پالیسی یہ بات طے کر لی ہے کہ جمعیۃ علمائے اسلام کا کوئی دھڑا ہو، جہادی تحریکات کے مختلف گروپ ہوں یا دینی جماعتوں کے الگ الگ پلیٹ فارم ہوں، دینی مقاصد کے حوالہ سے جس فورم سے بھی خیر کا کوئی کام ہو رہا ہو اس سے حتی الوسع تعاون کیا جائے مگر باہمی گروہ بندی میں کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف فریق کی حیثیت اختیار نہ کی جائے۔ البتہ جمعیۃ علمائے اسلام چونکہ میرا اپنا گھر ہے اس لیے اگر اس کے مختلف گروپوں میں اتحاد کی کوئی صورت بن جائے تو اس کی خوشی سب سے زیادہ مجھے ہوگی اور نہ صرف میں بلکہ پوری کی پوری پاکستان شریعت کونسل اس اتحاد میں ضم ہونے اور ہم میں سے ہر شخص اپنی اپنی بساط کے مطابق متحرک کردار ادا کرنے کو اپنے لیے باعث سعادت تصور کرے گا۔

مولانا فضل الرحمان سے امریکی عزائم کے خلاف ان کی جرأت مندانہ مہم اور این جی اوز کے بارے میں ان کی سرگرمیوں پر بھی بات چیت ہوئی اور راقم الحروف نے ان سے عرض کیا کہ انہوں نے بلاشبہ وقت کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے، اس دور کی اہم ترین دینی و ملی ضرورت کو بروقت محسوس کیا ہے اور اسے پورا کرنے کے لیے جرأت و استقلال کی اسی عظیم روایت کو اختیار کیا ہے جو ہمارے اسلاف و اکابر کا وطیرہ رہی ہے۔ مجھے یہ معلوم کر کے بے حد خوشی ہوئی کہ این جی اوز کے بارے میں مولانا فضل الرحمان اور ان کی قیادت میں جمعیۃ علمائے اسلام کی جدوجہد جوں جوں آگے بڑھ رہی ہے اسی رفتار سے این جی اوز کی سرگرمیوں کے حوالہ سے ان کے ادراک، معلومات اور احساس میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، اور این جی اوز کے ساتھ ساتھ مسیحی مشنریوں کی سرگرمیاں بھی ان کے دائرۂ ادراک و احساس میں اپنی جگہ بناتی جا رہی ہیں۔ چنانچہ مولانا فضل الرحمان نے حال ہی میں فیصل آباد میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں مسیحی ریاست کے قیام کے جس مبینہ امریکی منصوبے کا ذکر کیا ہے وہ بھی قوم کے لیے ایک بروقت انتباہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ راقم الحروف تو ایک عرصہ سے اپنے محدود دائرہ میں اور نہ ہونے کے برابر وسائل کے ساتھ اس پر کام کر رہا ہے اور اس سلسلہ میں ۱۹۹۸ء میں این جی اوز اور مسیحی مشنریوں کی سرگرمیوں اور طریق کار کے بارے میں منتخب رپورٹوں کا ایک مجموعہ مجلہ الشریعہ گوجرانوالہ کی خصوصی اشاعت کے طور پر پیش کیا جا چکا ہے۔

اس ضمن میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ پاکستان کو بتدریج مسیحی ریاست بنانے یا پاکستان کے اندر ایک مسیحی ریاست قائم کرنے کے مجوزہ منصوبوں کا تذکرہ مختلف رپورٹوں میں ملتا ہے جو بظاہر اگرچہ ایک ناممکن سی بات لگتی ہے مگر:

  • آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک انڈونیشیا میں جس طرح عالمی دباؤ کے تحت ’’مشرقی تیمور‘‘ کو الگ مسیحی ریاست کی حیثیت دی جا چکی ہے جبکہ پاکستان میں اسی انداز میں مسیحی مشنریوں کی سرگرمیاں مسلسل اضافہ پذیر ہیں،
  • اس کے ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ملک کے مختلف حصوں میں خالص مسیحی کالونیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے،
  • روزنامہ نوائے وقت کے ایک ادارتی شذرہ کے مطابق سینکڑوں مسیحی نوجوان مسلمان ناموں کے ساتھ مختلف جہادی گروپوں میں شامل ہو کر عسکری تربیت حاصل کر چکے ہیں،
  • اور ملک کے ہر حصہ میں این جی اوز اور مسیحی مشنریوں کی سرگرمیاں روز بروز اضافہ پذیر ہیں۔

اس پس منظر میں مختلف صحافتی رپورٹوں میں پاکستان کو مسیحی ریاست بنانے کے منصوبوں کے تذکرہ اور مولانا فضل الرحمان کے مذکورہ انتباہ کو بلاوجہ قرار دینا بہت مشکل ہے۔ بہرحال مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ملاقات خاصی سود مند رہی اور یہ حوصلہ ملا کہ اہل حق کا گروہ دینی فرائض اور ملی مقاصد کے لیے جدوجہد کے حوالہ سے سست رفتاری اور خلفشار کا شکار ہونے کے باوجود اپنے عزائم اور اہداف سے غافل نہیں ہے۔ اور اگر ٹارگٹ نظر سے اوجھل نہ ہو تو سست روی اور خلفشار کے کانٹے دامن سے الجھتے ضرور ہیں مگر سفر کا راستہ بدلنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔

   
2016ء سے
Flag Counter