رائے کی اہلیت اور بحث ومباحثہ کی آزادی

   
تاریخ : 
جنوری ۲۰۱۲ء

مولانا حافظ زاہد حسین رشیدی ہمارے فاضل دوست ہیں اور مخدومنا المکرم حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ کے ساتھ خاندانی تعلق کے باعث وہ ہمارے لیے قابل احترام بھی ہیں۔ ہمارے ایک اور فاضل دوست مولانا حافظ عبد الوحید اشرفی کی زیر ادارت شائع ہونے والے جریدہ ماہنامہ ’’فقاہت‘‘ لاہور کے دسمبر ۲۰۱۱ء کے شمارے میں، جو احناف کی ترجمانی کرنے والا ایک سنجیدہ فکری و علمی جریدہ ہے، مولانا حافظ زاہد حسین رشیدی نے اپنے ایک مضمون میں ’’الشریعہ‘‘ کی کھلے علمی مباحثہ کی پالیسی کو موضوع بنایا ہے اور اس سلسلے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے جس پر ہم ان کے بے حد شکر گزار ہیں اور ان کا مضمون ’’فقاہت‘‘ کے شکریہ کے ساتھ ’’الشریعہ‘‘ کے زیر نظر شمارے میں شائع کر رہے ہیں۔

انہوں نے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے، ہمیں ان سب سے اختلاف نہیں ہے اور ان میں سے بعض خدشات و تحفظات ہمارے بھی پیشِ نظر ہیں جن کا انہوں نے دردِ دل کے ساتھ ذکر کیا ہے، لیکن ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم صرف تحفظات کے دائرے میں محصور رہنے کو درست نہیں سمجھتے، بلکہ ان ضروریات پر بھی ہماری نظر ہے جو آج کے معروضی حالات میں اہلِ علم سے سنجیدہ توجہ کا تقاضا کر رہی ہیں۔ تحفظات اور ضروریات کے دائرے ہر دور میں الگ الگ رہے ہیں اور دونوں کے تقاضوں کو سامنے رکھنے والوں کا ذوق اور طرزِ عمل بھی ہمیشہ ایک دوسرے سے مختلف رہا ہے۔ اگر ماضی کی علمی و دینی تاریخ کو اس پہلو سے دیکھا جائے تو کوئی دور بھی اس کشمکش سے خالی نظر نہیں آتا۔

مثال کے طور پر کوئی واقعہ پیش آئے بغیر محض مسئلہ کی کوئی صورت فرض کر کے اس پر حکم لگانا، جسے ’’فقہ فرضی‘‘ کہا جاتا ہے، صحابہ کرام اور تابعین کبار کے دور میں پسندیدہ بات نہیں سمجھی جاتی تھی، حتٰی کہ ایک بار حضرت امام ابوحنیفہؒ نے حضرت قتادہؒ سے کوئی مسئلہ پوچھا تو انہوں نے دریافت کیا کہ کیا ایسی کوئی صورت پیش آئی ہے؟ جواب میں امام ابوحنیفہؒ نے کہا کہ ایسی صورت پیش تو نہیں آئی تو حضرت قتادہؒ نے فرمایا کہ ’’مجھ سے ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو ابھی واقع ہی نہیں ہوئیں۔‘‘ (بحوالہ امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی ص ۲۳۵، از مولانا مناظر احسن گیلانی)۔ جبکہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ نے اس ’’فقہ فرضی‘‘ کے لیے باقاعدہ علمی مجلس قائم کر کے محض مفروضہ صورتوں پر ۸۰ ہزار سے زائد احکام و مسائل مرتب کیے جو آج تک فقہ حنفی کی علمی اساس ہیں۔

اسی طرح صحابہ کرام اور کبار تابعین کے دور میں عقائد کے باب میں عقلی بحثوں کو ناپسند کیا جاتا تھا اور اسے عقائد خراب کرنے اور عقائد میں شکوک پیدا کرنے کی کوشش تصور کیا جاتا تھا، حتٰی کہ میں نے کسی جگہ حضرت امام ابو یوسفؒ کا یہ فتویٰ پڑھا ہے جس کا حوالہ اس وقت میرے ذہن میں نہیں ہے کہ عقائد میں عقلی بحثیں کرنے والے متکلم کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے۔ لیکن بعد میں وقت کی ضروریات نے یہ ماحول پیدا کر دیا کہ عقائد کی بحثیں ہی معقولات کے حوالے سے ہونے لگیں، اس کو باقاعدہ علمِ کلام کا نام دیا گیا اور اسی عنوان سے یہ ہمارے ہاں مستقل پڑھایا جاتا ہے۔

ہم ’’تحفظات‘‘ اور ’’ضروریات‘‘ کے دونوں دائروں کو ضروری سمجھتے ہیں۔ ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ دونوں کا متوازن اظہار ہوتے رہنے سے ہی اعتدال کا راستہ ملے گا، اسی لیے ہم علمی مباحثہ کو ضروری خیال کرتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ذہن میں علمی مباحثہ کا تصور وہی ہے جس کے تحت حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ نے انفرادی اجتہاد کی بجائے اجتماعی اور مشاورتی اجتہاد کا راستہ اختیار کیا تھا اور اس کے لیے کھلے علمی مباحثہ کو ضروری خیال کیا تھا۔ اس کا خاکہ مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ:

’’اجتماعی مساعی اسی وقت باور آور ہوتی ہیں جب ضبط و نظم کے تحت ان کو انجام دیا جائے۔ امامؒ پر جہاں یہ راز واضح ہو چکا تھا، اسی کے ساتھ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ مجلس کے تمام اراکین کو جب تک کامل آزادی اپنے خیالات کے اظہار میں نہیں دی جائے گی، اجتماع کا جو مقصد ہے وہ پورا نہیں ہو سکتا۔ آزادی کے اس دائرے کو امامؒ نے کتنی وسعت دے رکھی تھی؟ اس کا اندازہ اسی واقعے سے ہو سکتا ہے جس کو امامؒ کے مختلف سوانح نگاروں نے نقل کیا ہے۔ الجرجانی کہتے ہیں کہ میں امام کی مجلس میں حاضر تھا کہ ایک نوجوان جو اسی حلقہ میں بیٹھا ہوا تھا، امام سے اس نے کوئی سوال کیا جس کا امام نے جواب دیا، لیکن جوان کو میں نے دیکھا کہ جواب سننے کے ساتھ ہی بے تحاشہ اور امام کو مخاطب کر کے ’’اخطات‘‘ (آپ نے غلطی کی ہے) کہہ رہا ہے۔ جرجانی کہتے ہیں کہ جوان کے اس طرز گفتگو کو دیکھ کر میں تو حیران ہو گیا اور حلقہ والوں کی طرف خطاب کر کے میں نے کہا کہ

’’بڑے تعجب کی بات ہے کہ استاذ (شیخ) کے احترام کا تم لوگ بالکل لحاظ نہیں کرتے۔‘‘

جرجانی ابھی اپنی نصیحت کو پوری بھی نہیں کر پائے تھے کہ وہ سن رہے تھے کہ خود امام ابوحنیفہؒ فرما رہے ہیں:

دعھم فانی قد عودتھم ذٰلک من نفسی۔

’’تم ان لوگوں کو چھوڑ دو، میں نے خود ہی اس طرزِ کلام کا ان کو عادی بنایا ہے۔‘‘

جس سے معلوم ہوا کہ اس آزادی کا قصداً و ارادتاً امام نے اپنی مجلس کے اراکین کو کہیے یا تلامذہ کو، عادی بنا رکھا تھا اور یہ جان کر بنا رکھا تھا کہ جو مقصد ہے، اس آزادی کے بغیر وہ حاصل نہیں ہو سکتا۔‘‘ (امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی، ص ۲۳۸)

اس کے ساتھ ہی برادرم مولانا حافظ زاہد حسین رشیدی صاحب کے ارشادات کے تناظر میں یہ بات عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں رائے، اجتہاد اور فتویٰ کے دائروں کو خلط ملط کر دیا گیا ہے اور ہم ان سب کے بارے میں یکساں لہجے میں بات کرنے کے عادی ہو گئے ہیں، حالانکہ ان تینوں کے الگ الگ دائرے اور الگ الگ احکام ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر رائے کو اجتہاد تصور کیا جائے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر اجتہادی قول کو مفتیٰ بہ قرار دے دیا جائے۔ کوئی مجتہد اپنے کسی غور طلب مسئلہ کے کسی ایک پہلو کے بارے میں کسی متعلقہ شخص سے رائے لیتا ہے جو صاحبِ علم نہیں ہے اور اس کی رائے کو اپنے اجتہاد کی بنیاد بھی بنا لیتا ہے۔ اب اس شخص کی رائے اجتہاد کا درجہ نہیں رکھتی مگر اجتہادی عمل کا حصہ بن گئی ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں فقہاء کرام کے مفتیٰ بہ اقوال اور غیر مفتیٰ بہ اقوال کا واضح فرق موجود ہے، لیکن ان میں سے کسی کے اجتہاد ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے ان تینوں میں فرق قائم رکھنا ضروری ہے اور اس بنیاد پر ان تینوں کے معیارات بھی الگ الگ ہی ہوں گے۔

ہم نے ’’عمومی مباحثہ‘‘ میں ہر شخص کے لیے رائے کے حق کی بات ضرور کی ہے، لیکن جہاں علمی مباحثہ کی بات ہوئی ہے وہاں ہم نے ان نوجوان اہلِ علم کا حوالہ دیا ہے جو اصحابِ علم ہیں اور مطالعہ کی وسعت رکھتے ہیں۔ ہم نے ان کے لیے نہ اجتہاد کا حق مانگا ہے اور نہ ہی انہیں فتویٰ کی اتھارٹی دینے کی بات کی ہے۔ صرف اتنی درخواست کی ہے کہ اگر وہ نوجوان اہلِ علم جو علمی استعداد رکھتے ہیں اور دینی لٹریچر کے ساتھ ساتھ آج کے حالات و ضروریات پر بھی نظر رکھتے ہیں، انہیں رائے کے حق سے محروم نہ کیجیے۔ جو وہ محسوس کرتے ہیں، اس کے اظہار کا انہیں حق دیجیے اور پھر انہیں فتووں اور طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے کی بجائے دلیل کے ساتھ اور محبت کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کیجیے کہ دین کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور معروضی حالات کا بھی یہی تقاضا ہے۔

مولانا حافظ زاہد حسین رشیدی کے مضمون کا تفصیلی تجزیہ کرنے کی بجائے سردست چند اصولی باتوں پر اکتفا کر رہا ہوں۔ اگر اس کے بعد ضرورت باقی رہی تو یہ خدمت بھی کسی مناسب موقع پر انجام دی جا سکتی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter