دینی طلبہ کے لیے تین نصیحتیں

   
تاریخ: 
۹ جنوری ۲۰۱۱ء

(دار العلوم مدنیہ ماڈل ٹاؤن بہاولپور کے مہتمم حضرت مولانا مفتی عطاء الرحمن مدظلہ کی دعوت پر مولانا زاہد الراشدی نے جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے سہ ماہی امتحان کی تعطیلات کے موقع پر ۸ و ۹ جنوری ۲۰۱۱ءکو بہاولپور کا دورہ کیا اور دارالعلوم مدنیہ، جامعہ نظامیہ، جامعہ عباسیہ اور جامعہ صدیقیہ میں اساتذہ اور طلبہ کے مختلف اجتماعات سے خطاب کیا، ان خطابات کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ ادارہ نصرۃ العلوم)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ دارالعلوم مدنیہ بہاولپور میں حاضری اور اساتذہ و طلبہ سے ملاقات میرے لیے اس حوالہ سے زیادہ خوشی اور سعادت کی بات ہے کہ اس ادارے کے قیام میں میرے ایک بزرگ دوست حضرت مولانا غلام مصطفی بہاولپوریؒ کا بنیادی کردار ہے اور یہ ان کی یادگار اور صدقہ جاریہ ہے۔ انہوں نے حضرت مولانا مفتی عطاء الرحمن صاحب اور دیگر رفقاء کے ساتھ مل کر اس دینی ادارے کی بنیاد رکھی جو آج ملک کے معروف مدارس میں شمار ہوتا ہے، اور ان کے فرزندان حضرت مولانا مفتی عطاء الرحمن کی سرپرستی میں اس دینی و علمی جدوجہد کو مسلسل آگے بڑھا رہے ہیں۔ حضرت مولانا غلام مصطفی بہاولپوریؒ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے سرگرم راہنماؤں میں سے تھے اور تحریک ختم نبوت، تحریک نفاذ شریعت، شریعت بل کی جدوجہد اور تحریک نظام مصطفٰیؐ میں ان کے ساتھ میری مسلسل جماعتی و تحریکی رفاقت رہی ہے اور ہم نے حضرت مولانا عبد اللہ درخواستیؒ، حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کی راہنمائی اور رفاقت میں دینی جدوجہد میں شرکت کا شرف حاصل کیا ہے، فالحمد للہ علٰی ذٰلک۔

دینی مدرسہ کے اساتذہ اور طلبہ جمع ہیں اور مجھے ان کی خدمت میں کچھ معروضات پیش کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ تعمیلِ حکم میں پہلی بات تو یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں انسانی سوسائٹی میں اپنے کام کی نوعیت اور اہمیت کے بارے میں سمجھنا چاہیے کہ

  • ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ کیا ہے اور اسے دنیا کس نظر سے دیکھ رہی ہے؟
  • دینی مدارس کی مخالفت کرنے والے ان مدارس کے خلاف کیوں ہیں؟
  • اور مدارس کے خلاف اہلِ مغرب کے غصہ و اضطراب کی وجہ کیا ہے؟

ہمارا کام تو واضح ہے کہ ان مدارس میں قرآن و سنت کی تعلیم دی جاتی ہے اور آسمانی تعلیمات کے تحفظ اور فروغ کے ساتھ ساتھ عام انسان کا آسمانی تعلیمات کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ مدرسہ نہ صرف آسمانی تعلیمات، وحی الٰہی اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین پڑھا رہا ہے بلکہ اسلام کے معاشرتی کردار کی بحالی کے لیے بھی محنت کر رہا ہے۔ جبکہ دنیا کی اکثریت مذہب کے معاشرتی کردار سے دستبردار ہو چکی ہے اور عقیدہ، دین اور مذہب کو فرد کا ذاتی اور اختیاری معاملہ قرار دے کر اجتماعی معاملات اور معاشرتی مسائل میں مذہبی راہنمائی کو اس نے مسترد کر رکھا ہے۔ یہ بات کہ انسانی سوسائٹی کے معاملات اور معاشرہ کے اجتماعی مسائل میں آسمانی تعلیمات کی راہنمائی اور بالادستی ہونی چاہیے، اس میں دنیا کی باقی اقوام ایک طرف ہیں اور اہل اسلام دوسری طرف ہیں۔ مسلمان امت بحمد اللہ تعالٰی آج بھی اپنے معاشرتی مسائل میں قرآن و سنت کی راہنمائی کو تسلیم کرتی ہے اور اس سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔

ایک مغربی دانشور نے لکھا تھا کہ ہم نے حکومت و ریاست اور معاشرت کے معاملات میں خدا، رسول اور کتاب کا حوالہ ختم کر دیا ہے اور سب قومیں اور ممالک آزادانہ مرضی کے ساتھ اپنے معاملات طے کرتے ہیں مگر مسلمانوں نے آج بھی قرآن و سنت کا حوالہ قائم رکھا ہوا ہے، ان سے جس مسئلہ پر بات کی جائے وہ خدا کا حوالہ دیتے ہیں، قرآن کریم کا حوالہ دیتے ہیں اور جناب نبی اکرمؐ کے حوالہ سے بات کرتے ہیں۔ میں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ بات درست ہے، الحمد للہ آج بھی ہمارا سب سے بڑا حوالہ اللہ تعالیٰ، قرآن کریم اور جناب نبی کریمؐ کے ارشادات ہیں، یہ حوالہ اس قدر مضبوط و مستحکم ہے کہ اوباما، بش اور ٹونی بلیئر کو بھی مسلمانوں سے جب بات کرنا ہوتی ہے تو قرآن کریم کی کوئی آیت یا جناب نبی اکرمؐ کی کوئی حدیث یاد کر کے انہیں اس کا حوالہ دینا پڑتا ہے۔ آج جس چیز کو غزو فکری، ثقافتی کشمکش، تہذیبی جنگ اور سولائزیشن وار قرار دیا جا رہا ہے وہ یہی نکتہ ہے اور مغرب اور اس کی ممنوع قوموں کو پریشانی لاحق ہے کہ عام مسلمان دنیا کے کسی بھی حصہ میں اپنے معاملات و مسائل میں خدا اور رسولؐ کا حوالہ ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مسلمان حکمرانوں اور حکمران طبقات کی صورتحال اس سے مختلف ہے مگر عام مسلمانوں کی صورتحال پوری دنیا میں یہی ہے کہ وہ قرآن و سنت پر اور اسلام کے معاشرتی کردار پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنے معاملات خدا اور رسولؐ کے حوالہ سے ہی طے کرنا چاہتے ہیں۔

آج عالمی صورتحال یہ ہے کہ مغربی استعمار سیاسی، معاشی، سائنسی، تجارتی اور عسکری شعبوں میں ہم پر کتنا ہی حاوی کیوں نہ ہو اور اس نے عالم اسلام کو ان شعبوں میں کتنے ہی مضبوط شکنجے میں کیوں نہ جکڑ رکھا ہو مگر فکری، دینی اور ثقافتی محاذ پر اسے شکست کا سامنا ہے اور وہ دو بلکہ تین صدیوں کی محنت کے باوجود عام مسلمان کا تعلق قرآن و سنت سے توڑنے میں کامیاب نہیں ہو رہا ہے، اسے اس ناکامی پر سخت پریشانی لاحق ہے اور اب اس کی یہ پریشانی جھلاہٹ اور جھنجلاہٹ میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے جس کا مظاہرہ وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے۔

مغرب کا تجزیہ ہے کہ اس صورتحال کا سبب دینی مدارس ہیں جو قرآن و سنت کی نہ صرف تعلیم دیتے ہیں بلکہ انہوں نے دینی ماحول بھی قائم رکھا ہوا ہے اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی روایات و مظاہر کو دنیا کی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔ مغرب ثقافتی محاذ پر اپنی ناکامی کا سب سے بڑا سبب دینی مدارس کو سمجھتا ہے اور اس مقصد کے لیے اپنے تمام تر وسائل اور صلاحیتیں صرف کر رہا ہے کہ کسی طرح ان مدارس کا وجود ختم ہو جائے یا کم از کم ان کے معاشرتی کردار کو غیر مؤثر بنا دیا جائے مگر اس میں اسے کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ کیونکہ اہل مغرب کا مغالطہ ہے اور کبھی کبھی ہم بھی اس مغالطے کا شکار ہو جاتے ہیں کہ دینی مدارس دین کی حفاظت کر رہے ہیں اور قرآن و سنت کی تعلیمات کو باقی رکھے ہوئے ہیں۔ ظاہری طور پر بات ایسی ہی نظر آرہی ہے مگر یہ بات مغرب کی سمجھ سے بالاتر ہے، البتہ ہمیں ضرور ہر وقت اسے پیش نظر رکھنا چاہیے کہ دینی مدارس کی وجہ سے قرآن و سنت کی تعلیمات باقی نہیں بلکہ قرآن و سنت کی وجہ سے دینی مدارس کا وجود قائم ہے۔ قرآن کریم نے اور جناب نبی اکرمؐ کی تعلیمات نے تو باقی رہنا ہے اور قیامت تک رہنا ہے اس لیے کہ ان کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے اٹھا رکھی ہے، اور جب قرآن کریم نے باقی رہنا ہے تو دینی مدارس نے بھی بہرحال قائم رہنا ہے کہ وہ اس حفاظت کے اسباب میں سے ہیں۔

محترم اساتذہ اور طلبہ! آپ حضرات اس ماحول میں قرآن و سنت، فقہ اسلامی اور دیگر علوم کی تعلیم دے رہے ہیں اور حاصل کر رہے ہیں، اس لیے یہ رسمی اور عام تعلیم و تدریس نہیں ہے بلکہ اس کا ایک خاص ہدف ہے اور منزل ہے۔ وہ یہ کہ آج کے دور میں جب دنیا کی بیشتر اقوام آسمانی تعلیمات کے معاشرتی کردار سے دستبرداری اختیار کر چکی ہے، صرف مسلمان ہیں جو نہ صرف آسمانی تعلیمات کی بات کرتے ہیں اور ان کی بقا و تحفظ کے لیے کوشاں ہیں بلکہ پڑھتے پڑھاتے بھی ہیں، ان پر عملدرآمد کا ماحول باقی رکھے ہوئے ہیں اور انسانی معاشرے میں آسمانی تعلیمات کی واپسی اور بالادستی کی جدوجہد بھی ہمارے اہداف میں شامل ہے۔ اس لیے میں آپ حضرات کی خدمت میں دو تین باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں انہیں آپ مشورہ سمجھ لیں یا نصیحت قرار دے لیں مگر ان پر توجہ ضرور دیں۔

  1. ایک یہ کہ ہمیں قرآن و سنت کی تعلیمات حاصل کرنے اور فقہ و شریعت پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد کے ماحول اور اس وقت کی عالمی صورتحال کو بھی سمجھنا ہے۔ اسلامی تعلیمات کو جس سوسائٹی میں ہم فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں اس سوسائٹی کی ضروریات، نفسیات، ذہنی سطح اور تقاضوں کو سمجھنا اور ان کا علم حاصل کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم اپنے بزرگوں کا یہ قول نقل ضرور کرتے ہیں کہ ’’من لم یعرف اہل زمانہ فھو جاہل‘‘ مگر اس سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ اس جملہ کا لفظی ترجمہ تو یہ ہے کہ جو شخص اپنے زمانے کے لوگوں کو نہیں جانتا وہ جاہل ہے، لیکن ہمارے حوالے سے اس کا مقصد یہ ہے کہ عالم بننے کے لیے صرف کتابی علم کا فی نہیں بلکہ سوسائٹی اور زمانے کا علم بھی ضروری ہے۔ جبکہ ہماری صورتحال یہ ہے کہ ہم دنیا کے حالات بلکہ اپنے ملک کے حالات سے واقفیت کے لیے بسا اوقات اخبار کے مطالعہ کو بھی ضروری نہیں سمجھتے بلکہ اسے فضول قرار دیتے ہیں۔ میں نے بعض مدارس میں دیکھا ہے کہ مدرسہ کی حدود میں اخبار کا داخلہ بند ہے، ہم نے حالات سے واقف نہ ہونے کو مسائل کا حل سمجھ رکھا ہے، یہ بات درست نہیں ہے اور اس سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ہم سب کے لیے بالخصوص اساتذہ کے لیے یہ بہت زیادہ ضروری ہے کہ حالات سے واقفیت حاصل کریں اور دنیا میں روزمرہ رونما ہونے والی تبدیلیوں سے باخبر رہیں تاکہ وہ اپنے طلبہ کو کتابی علم کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ سوسائٹی پر اس کے اطلاق اور حالات کے ساتھ ادا کی تطبیق کی صورتیں بھی بتا سکیں اور انہیں آنے والے حالات میں ان کی ذمہ داریوں کے لیے تیار کر سکیں۔
  2. دوسری بات یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی معیار دن بدن گرتا جا رہا ہے جو انتہائی افسوسناک اور تشویشناک بات ہے۔ میں ایک ذاتی واقعہ اس سلسلہ میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میرے طالب علمی کے زمانے میں والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا معمول تھا کہ سال کے دوران جو کتابیں میں نے پڑھی ہوتی تھیں سالانہ تعطیلات کے دوران ان میں ایک دو کا انتخاب کر کے وہ مجھ سے سنتے تھے، اور اس سنانے میں مجھے کتاب خود حل کر کے بیان کرنا ہوتی تھی۔ ’’شرح عقائد‘‘ میں نے حضرت والد محترمؒ سے ہی پڑھی تھی اور چھٹیوں میں انہیں سنائی بھی تھی، میں نے اپنی سہولت کے لیے حضرت مولانا عبد العزیز فرہارویؒ کی کتاب ’’النبراس‘‘ رکھی ہوتی تھی جو عربی میں ’’شرح عقائد‘‘ کی بہت اچھی شرح ہے۔ ایک دن حضرت والد محترمؒ نے میرے پاس وہ کتاب دیکھ لی اور اس بات پر غصہ ہوئے کہ میں ’’النبراس‘‘ دیکھ کر شرح عقائد کی عبارات کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ انہوں نے وہ مجھ سے لے کر ضبط کر لی اور فرمایا کہ نفس کتاب سے مسئلہ حل کرو۔ آپ اندازہ کیجئے کہ ایک وقت وہ تھا کہ طالب علم کے کتاب کے حل کے لیے عربی شرح دیکھنے کو پسند نہیں کیا جاتا تھا، مگر آج صورتحال یہ ہے کہ بہت سے اساتذہ اپنی تپائی کے نیچے کتاب کا اردو ترجمہ اور شرح رکھ کر اس کی مدد سے پڑھاتے ہیں، یہ تدریس و تعلیم کے معیار کا انحطاط ہے جو دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، اساتذہ کو اس طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے۔

    اس سلسلہ میں لطیفہ کی بات یہ ہے کہ ’’النبراس‘‘ کی ضبطی کے بعد ایک عرصہ تک والد محترم سے وہ کتاب مانگنے کا حوصلہ نہیں ہوا اور ان کی وفات سے شاید ایک دو سال قبل میں نے ایک دن ہنستے ہنستے کہا کہ حضرت! میری وہ کتاب تو واپس کر دیں تو انہوں نے ایک الماری کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں پڑی ہے لے لو۔ اور اس طرح میں نے کم و بیش چالیس سال کے بعد ’’النبراس‘‘ دوبارہ حاصل کی۔ پندرہ بیس سال قبل کی بات ہے کہ ایک بار میں نے حضرت والد محترمؒ سے دل لگی کے انداز میں عرض کیا کہ ہمیں آپ پڑھائی کے دوران بہت ڈانٹا کرتے تھے اب سنائیں آپ کے شاگردوں کا کیا حال ہے؟ فرمانے لگے کہ ’’سنگیو! تم لوگ پھر بھی بہتر تھے کہ عبارت تو پڑھ لیا کرتے تھے‘‘۔ المیہ یہ ہے کہ یہ انحطاط مسلسل بڑھ رہا ہے اور اس کے سدباب کے لیے مدارس کے وفاقوں کو جو توجہ دینی چاہیے ان کے پاس اس کے لیے فرصت ہی نہیں ہے۔

  3. تیسری بات عزیز طلبہ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ عالم دین بننے جا رہے ہیں اور آپ کا مقصد یہ ہے کہ علم دین حاصل کر کے اس پر عمل کریں گے اور اسے آگے پہنچائیں گے۔ اس آگے پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم آپ کے پاس موجود بھی رہے۔ آپ ایک چیز لوگوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو وہ خود آپ کے پاس بھی ہونی چاہیے ورنہ تقسیم کیا کریں گے؟ علم آپ کے پاس موجود ہو گا اور اپنے علم پر آپ کا اعتماد ہو گا تو لوگوں تک صحیح طریقہ سے پہنچا سکیں گے اور آپ کے پاس خود اگر علم نہیں ہو گا یا ہو گا مگر ادھورا ہو گا تو خرابی پھیلانے کا باعث بنیں گے۔

    ایک عام محاورہ ہے کہ ’’نیم حکیم خطرۂ جان اور نیم مُلا خطرۂ ایمان‘‘۔ حکیم اگر ادھورا ہو اور اناڑی ہو تو وہ لوگوں کی جانوں کے لیے خطرہ ہوتا ہے اور اگر مُلا ادھورا اور اناڑی ہو تو وہ لوگوں کے ایمان کے لیے خطرہ بن جاتا ہے اور یہ امر واقعہ ہے۔ اس لیے کہ اس وقت آپ جن فتنوں کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں اور ان کے سدباب کے لیے متفکر رہتے ہیں، ان کا اگر تجزیہ کریں گے تو ہر فتنہ کے پیچھے آپ کو کوئی نہ کوئی ’’نیم مُلا‘‘ کھڑا نظر آئے گا جو تعلیم و تربیت یا فکری و روحانی اصلاح کے کسی نہ کسی حوالہ سے ادھورا ہو گا اور مُلا کی بجائے نیم مُلا ہو گا۔ ہمارے دینی مسائل اور معاملات زیادہ تر نیم مُلاؤں کے ہاتھوں ہی بگڑے ہیں۔ اس لیے عزیز طلبہ سے میری گزارش ہے کہ وہ مُلا بنیں نیم مُلا نہ بنیں۔ اور مُلّا بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دیں، سبق پابندی کے ساتھ پڑھیں، ناغے سے گریز کریں، مطالعہ اور تکرار کا اہتمام کریں اور سب سے بڑی بات کہ وہ اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ یہ آٹھ دس سال جو آپ کو پڑھنے کے لیے ملے ہیں ان کو غنیمت سمجھیں اور پڑھائی کے علاوہ اور کاموں کی طرف دھیان نہ دیں۔ باقی کاموں کے لیے ساری زندگی پڑی ہے، یہ دور آپ کا تعلم کا دور ہے، سیکھنے کا دور ہے، تربیت کا دور ہے اور تیاری کا دور ہے۔ ان اوقات کو انہی کاموں میں صرف کریں اور یاد رکھیں کہ اس دوران اگر کوئی کمی رہ گئی تو وہ ساری زندگی اسی طرح رہے گی، نہ اس کمی کو دور کرنے کا موقع ملے گا اور نہ ہی اس کے لیے آپ کے پاس فرصت ہو گی۔

    میں اپنا ذاتی تجربہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے بحمد اللہ تعالیٰ آٹھ دس سال مدرسہ کے ماحول میں گزارے ہیں، اس دور میں وفاق کی درجہ بندی ہمارے ہاں نہیں ہوتی تھی اور کتابوں کی ترتیب سے ہی پڑھا جاتا تھا۔ میں کسی جھجھک کے بغیر آپ سے عرض کرتا ہوں کہ جن فنون میں دورانِ تعلیم کمزوری رہ گئی ہے بخدا چالیس سالہ تدریسی دور میں بھی اسے ختم نہیں کر سکا۔ نہ مصروفیات میں سے اس کے لیے وقت نکل سکا ہے اور نہ ہی اس کے مواقع میسر آتے ہیں۔ اس لیے طلبہ سے عرض ہے کہ اس تعلیمی دورانیہ کو پوری توجہ اور ہمت و صبر کے ساتھ تعلیمی محنت میں صرف کریں تاکہ صحیح ’’مُلا‘‘ بن کر دین و قوم کی صحیح خدمت کر سکیں، اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter