انتظامیہ کو سیاسی جنگ میں فریق نہ بنائیے!

   
۱۵ جون ۱۹۷۳ء

انتظامیہ کا کام ہوتا ہے کہ ملک میں قانون و آئین کی بالادستی کا تحفظ کرے، امن و امان بحال رکھے اور غیرجانبداری کے ساتھ نظم و نسق چلائے۔ اس فرض کی صحیح ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ انتظامیہ ملک میں سیاسی وفاداریوں سے لاتعلق ہو کر اپنے کام سے کام رکھے اور جہاں کوئی بات اسے قانون کے خلاف نظر آئے، اس کے خلاف بلاجھجھک کاروائی کرے۔ جن جمہوری ممالک میں انتظامیہ اپنے فرائض کو سیاسی عمل سے الگ تھلگ رکھتی ہے وہاں سیاسی عمل بھی جمہوری اقدار کا حامل ہے اور انتظامیہ کو فرائض کی کماحقہ ادائیگی میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی۔ مگر بدنصیبی سے ہمارے ہاں یہ قصہ نہیں ہے۔

پاکستان میں سیاسی مقاصد کی خاطر انتظامیہ کو اس بے دردی کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے کہ اب تو سرکاری پارٹی اور انتظامیہ مشینری کے درمیان فرق کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو انتظامیہ اپنے فرائض کی تکمیل میں مستعد ہے اور نہ ہی سیاسی عمل ’’اقتدار کے ڈنڈے‘‘ کے سائے سے نجات حاصل کر سکا ہے۔ چوری، ڈاکہ، زنا، اغوا، اسمگلنگ، غنڈہ گردی اور ذخیرہ اندوزی جیسے سنگین جرائم کے روز افزوں اضافہ کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ انتظامیہ مجرموں کے خلاف کاروائی کرتے وقت سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو جاتی ہے اور بیشتر مجرم اپنی سیاسی وابستگیوں کے باعث قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔

یہی حال سیاسی عمل کا ہے۔ ضمیر کی آواز کے اظہار اور سیاسی اختلاف رائے کو آج بھی انتظامیہ کے زیر عتاب آنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ اور بہت سے افراد انتظامیہ کی ناراضی کا خطرہ مول نہ لیتے ہوئے ضمیر کی آواز کو دبائے رکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اور جو مردانِ حُر اِس خطرہ سے بے نیاز ہو کر حق و صداقت کی آواز پر لبیک کہتے ہیں، انتظامیہ ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑ جاتی ہے۔

بلوچستان میں غیر آئینی حکومت کی حمایت نہ کرنے کی پاداش میں جمعیۃ کے قائدین اور ممبران اسمبلی مولانا شمس الدین اور مولانا صالح محمد کو ایک اسسٹنٹ کمشنر کی طرف سے خوفناک نتائج کی دھمکی اور پھر ان کی رہائش پر مسلح حملہ۔ اور گوجرانوالہ، وزیرآباد ریلوے اسٹیشن پر متحدہ جمہوری محاذ کے راہنماؤں پر فائرنگ اور پتھراؤ کے بارے میں پیپلز گارڈ کی شکایت پر ان سے تعاون نہ کرنے کے الزام میں گورنر پنجاب کی طرف سے ڈپٹی کمشنر، ایس ایس پی اور سٹی انسپکٹر پولیس کی جواب طلبی (اگر یہ واقعہ درست ہے تو) اس سلسلہ کی تازہ ترین اور افسوسناک مثالیں ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ہم حکمرانوں سے درخواست کریں گے کہ خدا کے لیے انتظامیہ کو سیاسی جنگ میں فریق نہ بنائیں اور اسے بلاجھجھک اپنا فرض ادا کرنے دیں۔ ورنہ ملک سیاسی اور انتظامی طور پر جس خوفناک انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے اس کی ذمہ داری سے آپ اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکیں گے۔ خدا ہمارے حکمرانوں کو سمجھ عطا فرمائے، آمین۔

گرفتاریوں کا نیا سلسلہ

صوبہ سرحد میں جمعیۃ علماء اسلام کے متعدد راہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جن میں جناب ڈاکٹر فدا حسین صاحب پشاور، خواجہ عزیز الرحمٰن صاحب، خواجہ محمد زاہد صاحب، مولانا عبد السلام صاحب ڈیرہ اسماعیل خان اور مولانا علی شیر صاحب بنوں شامل ہیں۔ ان کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ کے لیے آواز بلند کی ہے، نئی صوبائی حکومت کی طرف سے سابق وزیر اعلیٰ مولانا مفتی محمود کی اسلامی اصلاحات پر خط تنسیخ کھینچنے پر احتجاج کیا ہے، اور اقلیتی گروپ کی حکومت کو غیر جمہوری اقدامات سے روکنے کے لیے سیاسی جدوجہد کی ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے سابق وزیر اطلاعات میر گل خان نصیر کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔

یہ گرفتاریاں اس امر کا واضح ثبوت ہیں کہ نئی حکومتیں غیر جمہوری اقدامات کے خلاف جمعیۃ علماء اسلام اور نیپ کی پرخلوص جدوجہد سے ہراساں ہیں اور ان کی آواز کو دبانے کے لیے قید و بند کے ہتھکنڈوں سے کام لے رہی ہیں۔ ہم ان گرفتاریوں کی پرزور مذمت کرتے ہوئے گرفتارشدگان کو یقین دلاتے ہیں کہ ان کی آزمائشوں کا دور بہت جلد ختم ہونے والا ہے۔ آمریت آخری دموں پر ہے اور وہ دن قریب ہے جب آمریت کے جنازہ کو کوئی کندھا دینے کے لیے بھی تیار نہ ہو گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter