بعد الحمد والصلوٰۃ۔ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے میں اس کے بارے میں کچھ معروضات پیش کروں گا، اور اس کے ساتھ ہی مجھ سے کہا گیا ہے کہ آج کی گفتگو میں ’’امت کے زوال کے اسباب‘‘ کے حوالے سے بھی کچھ عرض کروں۔ اس سلسلہ میں گزارش ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ہم سے پہلے دنیا میں مذہبی قیادت کے منصب پر فائز بنی اسرائیل کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے اور ان کے عروج و زوال کے مراحل بیان فرمائے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ چونکہ ہم ان کی جگہ لے رہے ہیں اور اب قیامت تک دنیا کی رہنمائی ہمارے ذمہ ہے اس لیے ہم ان اسباب و عوامل کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں جو بنی اسرائیل کے زوال کی وجہ بنے تھے، اور جناب نبی اکرمؐ نے بھی ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’لتتبعن سنن من کان قبلکم‘‘ تم ان لوگوں کے طریقوں کی پیروی کرو گے جو تم سے پہلے گزرے ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ کیا اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں؟ تو جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ اس سے وہی مراد ہیں۔
قرآن کریم نے بنی اسرائیل کے عروج کا ذکر ان الفاظ سے کیا ہے کہ ’’وانی فضلتکم علی العالمین‘‘ میں نے تمہیں اپنے دور میں جہانوں پر فضیلت عطا کی تھی، تمہیں نبوت و رسالت دی تھی، حکومت و سلطنت سے نوزا تھا اور وحی و کتاب سے سرفراز کیا تھا۔ جبکہ بنی اسرائیل کے زوال کا اس طرح ذکر کیا ہے کہ ’’لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل علی لسان داوٗد و عیسی بن مریم‘‘ بنی اسرئیل کے کافروں پر حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے ذریعے یعنی زبور اور انجیل میں لعنت کی گئی ہے۔
ایسے ہی بنی اسرائیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی، لعنت اور غضب کا دیگر مقامات میں بھی قرآن کریم نے تذکرہ کیا ہے۔ یہ عروج و زوال کی دو انتہائیں ہیں جن کا قرآن کریم میں بنی اسرائیل کے حوالہ سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے میں اس بات پر خود کو اور آپ سب کو غوروفکر کی دعوت دینا چاہوں گا کہ بنی اسرائیل کے عروج و زوال کے جو اسباب قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں ہمیں ان کا جائزہ لینا چاہیے اور اس کے بعد یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا وہ اسباب ہمارے درمیان تو پیدا نہیں ہوگئے ہیں؟ اس لیے کہ اگر وہ اسباب بنی اسرائیل کے لیے زوال کی وجہ بن سکتے ہیں تو ہمیں بھی ان سے اس کے علاوہ نتائج کی توقع نہیں رکھنی چاہیے اور انہی کی روشنی میں اپنی زبوں حالی کی تشخیص بھی کر لینی چاہیے۔
قرآن کریم نے جہاں حضرت داوٗد علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی زبان پر بنی اسرائیل کے کافروں کو ملعون قرار دیے جانے کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے تین اسباب بیان کیے ہیں۔
(۱) ایک یہ ہے کہ ’’کانو لا یتناھون عن منکر فعلوہ‘‘ وہ گناہوں کا ارتکاب کرتے تھے مگر ایک دوسرے کو گناہ سے منع نہیں کرتے تھے۔ گویا معاشرے میں گناہوں سے روک ٹوک کا ماحول ختم ہو جانا اور ایک دوسرے کے گناہوں کو خاموشی کے ساتھ برداشت کر لینا قوموں کے زوال کا سبب ہے، جس سے قومیں فضیلت و درجات سے لعنت و غضب کے ماحول کی طرف سفر کرنے لگتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو دعوت دینے لگتی ہیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک حدیث مبارکہ میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جب کسی معاشرہ میں ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر’’ کا ذوق ختم ہو جائے اور لوگ ایک دوسرے کو نیکی کی تلقین چھوڑ دیں اور برائی سے روکنا ترک کر دیں تو معاشرہ کے سب لوگ مجموعی طور پر عذاب کے مستحق ہو جاتے ہیں۔
’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ کی مثال ایسے ہے جیسے کسی ملک میں ماحولیات کا محکمہ ہوتا ہے، وہ ہر وقت فضا پر نظر رکھتا ہے، پانی چیک کرتا رہتا ہے، ہوا کا جائزہ لیتا رہتا ہے اور مختلف علاقوں میں جراثیم کے پھیلنے کی جانچ کرتا رہتا ہے۔ یہ جراثیم سب لوگوں کو نظر نہیں آتے لیکن محکمہ ماحولیات والے انہیں چیک کر لیتے ہیں، ان کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان سے پیدا ہونے والے ممکنہ خطرات سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں۔ جس کے تدارک کے لیے حکومت اور عوام دونوں احتیاطی تدابیر اختیار کر کے خود کو ان خطرات سے محفوظ کر لیتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے تصور کیجئے کہ کسی ملک میں یا کسی شہر میں ماحولیات والے لوگ اپنا کام چھوڑ دیں، ہڑتال کر دیں یا کوئی اور وجہ بن جائے کہ وہ چند دن کام نہ کریں تو اس شہر کا حال کیا ہو گا؟ بالکل یہی معاملہ ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ کا بھی ہے کہ اس کے ماہرین اردگرد کی دینی، روحانی اور اخلاقی فضا پر نظر رکھتے ہیں، خطرات کی بو محسوس کر کے ان کی نشاندہی کرتے ہیں اور لوگوں کو اس سے خبردار کرتے رہتے ہیں۔ اگر وہ یہ کام چھوڑ دیں تو روحانی، دینی اور اخلاقی طور پر سوسائٹی کا وہی حال ہو جاتا ہے جو محکمہ ماحولیات کے معطل ہونے سے صحت عامہ کے لحاظ سے کسی شہر کا ہوتا ہے۔ اس لیے معاشرے میں نیکی کے فروغ اور گناہ کی روک تھام کا نظام موجود رہنا چاہیے اور اس کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے، ورنہ گناہوں کی خرابی صرف ان کا ارتکاب کرنے والوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور اسے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے زوال کے اسباب میں بیان فرمایا ہے۔
(۲) دوسرا سبب یہ بیان فرمایا ہے کہ ’’ذلک بما عصوا وکانوا یعتدون‘‘ وہ نافرمان ہوگئے تھے اور نافرمانی میں حد سے بڑھ گئے تھے۔ نافرمانی اور گناہ انسان کے مزاج کا حصہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو فرمانبرداری اور نافرمانی دونوں کی بھرپور صلاحیت و استعداد دے کر آزمائش میں ڈالا ہے۔ لیکن ساتھ ہی فرمایا ہے کہ تھوڑی بہت نافرمانی ہو تو اللہ تعالیٰ توبہ و استغفار کے باعث اور نیکیوں کی برکت سے معاف کر دیتے ہیں، لیکن نافرمانی میں حد سے بڑھ جانے کو برداشت نہیں کرتے۔ یہ حد سے بڑھ جانا کیا ہے؟ مفسرین کرامؒ نے اس کی مختلف توجیہات بیان کی ہیں جو سب کی سب اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ مثلاً یہ کہ (۱) گناہ تو کرتے ہیں مگر توبہ نہیں کرتے، (۲) یا ان کے اعمال میں نیکیوں پر گناہوں کا غلبہ ہوتا ہے، یعنی نیکیاں کم ہوتی ہیں اور گناہ ان کی بہ نسبت بہت زیادہ ہوتے ہیں، (۳) یا یہ کہ اعلانیہ اور بلا جھجھک کھلے بندوں گناہوں کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں۔ گناہ میں حد سے بڑھ جانے کا یہ طرز عمل بھی قوموں کے زوال کا سبب بن جاتا ہے اور قرآن کریم نے اسے بنی اسرائیل کے ملعون ہونے کا بڑا سبب قرار دیا ہے۔
(۳) بنی اسرائیل کے ملعون قرار پانے کا تیسرا سبب قرآن کریم میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ’’تریٰ کثیرًا منھم یتولون الذین کفروا‘‘ تم ان کی اکثریت کو دیکھو گے کہ ان کی دوستیاں کافروں کے ساتھ ہیں، کافروں کے ساتھ دوستیاں اور انہیں رازدار بنانا بھی مسلم سوسائٹی کو کمزور کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کافر قوموں کے ساتھ تعلقات اور معاملات کی اجازت دی ہے مگر اس کی حدود بھی بیان کی ہیں، اور ان حدود سے ہٹ کر کافروں کے ساتھ تعلقات کو خدا کی ناراضگی اور مسلمانوں کے زوال کا باعث قرار دیا ہے۔ اس کی تفصیلات قرآن و حدیث میں مختلف مواقع پر موجود ہیں، آج صرف اتنا عرض کروں گا کہ یہ عمل بھی مسلم سوسائٹی کے زوال کے اسباب میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے بنی اسرائیل کے ملعون ہونے کے سبب کے طور پر بیان فرمایا ہے۔
بنی اسرائیل کے زوال کے ان اسباب کو جو قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں سامنے رکھ کر ہمیں اپنے ماحول، سوسائٹی اور معاشرے کا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا یہ اسباب ہمارے درمیان بھی تو نہیں گھس آئے؟ اور اگر ہمیں اردگرد ہر طرف انہی اسباب کا روز بروز پھیلاؤ نظر آتا ہے تو ان کے تدارک کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر کوششیں کرنی چاہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔